"KNC" (space) message & send to 7575

بنوں سے اسلام آباد تک

دہشت گردی‘ ایک گئی رُت کی طرح واپس آئی ہے یایہیں کہیں دبکی بیٹھی تھی جس نے پھر سے اٹھایا ہے؟
تین پہلو ہیں جن پر غور وفکر میں اس سوال کاجواب مضمر ہے: دہشت گردی کے خلاف ریاست کا مسلح اقدام‘خارجہ پالیسی اور انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ۔مسلح اقدام وہی ہے جسے کبھی ضربِ عضب کا نام دیا گیا اور کبھی ردالفسادکا۔خارجہ پالیسی کا بنیادی تعلق افغانستان کے بارے میں ہمارے تصورات سے ہے۔انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ وہ ہے جسے 'پیغامِ پاکستان‘ کا نام دیا گیا۔
مسلح اقدام ان معنوں میں کامیاب ہوا کہ ملک کو دہشت گردوں کے قبضے سے نکال لیا گیا۔جنہیں قبائلی علاقہ کہا جاتا تھا‘اب صوبے کے نظم میں شامل ہوگئے۔مسلح گروہوںکو ملک میں کوئی پناہ گاہ میسر نہیں رہی۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب اسلحہ بردار ختم ہوگئے؟ان کے محفوظ ٹھکانے ختم ہو گئے؟نہیں‘ایسا نہیں ہوا۔ان میں سے ایک بڑا طبقہ افغانستان بھاگ گیا۔غور وفکر کایہ وہ مقام ہے جہاں خارجہ پالیسی کا دخل شروع ہوتا ہے اور جہاں وہ دہشت گردی کے مسئلے سے براہ راست جڑ جا تی ہے۔
کوئی گوریلا جنگ سرحد پارسے حمایت کے بغیر لڑی جا سکتی ہے نہ تادیرچل سکتی ہے۔گوریلا جنگ کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ 'حملہ کرو اور بھاگ جاؤ‘۔یہ جنگ لڑنے والے انسانی بستیوں کے بجائے جنگلوں اور پہاڑوں کو اپنی پناہ گاہ بناتے ہیں جہاں کھلی جنگ لڑنا ممکن نہیں ہوتا اور ریاستی افواج کی مہارت اسی کھلی جنگ میں ہو تی ہے۔ان پہاڑوں کے ساتھ اگر سرحد جڑی ہو اور سرحد پار پناہ گاہیں موجود ہوں تویہ گوریلا جنگ کے لیے ایک آئیڈیل صورتِ حال ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری شمال مغربی سرحد گوریلا جنگ کے لیے مثالی ہے۔ریاست کی اگر پہاڑوں تک رسائی ہو بھی جائے تو سرحد پار تک نہیں ہو سکتی۔پاکستان کو گلہ رہا کہ اشرف غنی صاحب اور اس سے پہلے حامد کرزئی صاحب کی حکومتوں نے پاکستان کے دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف محفوظ پناہ گاہ فراہم کر رکھی ہے بلکہ افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی‘ان کی معاون بھی ہے۔اس سے سلامتی کے اس تصور کو تقویت ملی جوہم نے 1980ء کی دہائی میں اپنایا اور افغانستان میں ایک 'دوست حکومت‘ کے قیام کو پاکستان کے لیے ضروری قراردیا۔
اس خیال کے تعاقب میں ہم نے پوری کوشش کی کہ1989ء میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے۔یہ کوشش ناکام ہوئی۔مجاہدین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور افغانستان فساد کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا۔ہم مگر اس خیال سے پیچھے نہیں ہٹے اور افغانستان میں ایک دوست حکومت کی تلاش میں رہے۔ اس سے افغانوں میں یہ تاثر پھیلا کہ ہم انہیں ایک ذیلی اور طفیلی ریاست سمجھتے ہوئے‘افغانستان کو اپنی نوآبادی (colony) بنانا چاہتے ہیں۔یوں اگر 1988-89ء تک‘ افغانستان میں ہمیں کوئی عوامی تائید حاصل بھی تھی تو ہم اس سے محروم ہو گئے۔
'دوست حکومت‘ کے اس خیال نے طالبان کو جنم دیا۔ہم نے دو دفعہ انہیں اقتدار تک پہنچایا لیکن اس کے باوجود افغانستان میں ایک دوست حکومت قائم نہیں ہو سکی۔آج بھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔بنوں کے حملہ آوروں نے بھی افغانستان جانے کے لیے راستہ مانگا۔ افغانستان سے سرکاری سطح پر ہونے والے حملوں میں ہمارے جتنے جوان شہید ہوئے‘ ان کی تعداد ان شہادتوں سے کہیں زیادہ ہے جواس عرصے کے دوران میں پاک بھارت سرحد پر ہوئیں۔اس میں اب کوئی شبہ نہیں کہ شمال مغربی سرحد آج سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ‘افغانستان آج بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔
یہ خارجہ پالیسی جس نے بھی بنائی‘اس کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔یہ اب کوئی نظری بحث نہیں رہی۔ہر نیا واقعہ اس کی ناکامی پر ایک نئی مہرِ تصدیق ثبت کر رہاہے۔بنوں اور لکی مروت کے بعد‘اسلام آباد میں دہشت گردی کا واقعہ‘سب چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ افغانستان میں ایک دوست حکومت کے قیام کا تصور کتنا بودا اور ناقص تھا۔اس کی بنیاد کتنی کمزور تھی اور وہ تصورات کتنے توانا ہیں جنہوں نے ہمارے خیالات کو بے وقعت ثابت کر دیا۔امتِ مسلمہ اوراسلامی بھائی چارہ جیسے مفروضے‘نسلی عصبیت اور قومی مفادات جیسے حقائق کی جگہ نہ لے سکے۔
پاکستان کے بارے میں طالبان اور اشرف غنی کی حکومتوں کے خیالات میں کوئی فرق نہیں۔اس لیے دونوں کے رویے میں بھی فرق نہیں۔میں اس بات کو شکایتاً نہیں‘ امرِ واقعہ کے طور پر بیان کر رہا ہوں۔میرے نزدیک طالبان کے لیے افغانستان اور ان کے گروہی مفادات مقدم ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔میں تو اپنوں کی بصیرت کا ماتم کر رہاہوں۔سوال یہ ہے کہ جو بات ایک عامی کی سمجھ میں آرہی ہے اور جس کی پشت پر بے شمار واقعات کھڑے ہیں‘وہ ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی جوپالیسی سازی کے منصب پر فائز کیے گئے ہیں یاازخود فائز ہو گئے ہیں‘اس زُعم کے ساتھ کہ وہ دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔
اس سے بھی اہم پہلو یہ ہے کہ 'پیغام ِپاکستان‘کے نفاذ کے لیے کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی نہیں بنائی جا سکی۔یہ تیسرا پہلوہے۔تربیتی ورکشاپس سے یہ خیال کیا جا رہاہے کہ اس سے ساری قوم کی سوچ بدل جائے گی۔سرکاری تعلیمی اداروں اور مدارس کے نصاب اور ماحول میں‘اس دستاویز کی روشنی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔میڈیا کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہیں بنائی گئی جو انہیں اس پر آمادہ کرتی کہ وہ انتہا پسندی کو ہدف بناتا‘ جہاں سے دہشت گردی پھوٹتی ہے۔اس کے برخلاف ان اداروں کو زیادہ مضبوط بنایا گیا جو انتہا پسندی کی جنم بھومی ہیں۔مجھے غالب مذہبی فکر میں کسی ایسی بڑی فکری تبدیلی کی شہادت نہیں ملی جو 'پیغامِ پاکستان‘ کا نتیجہ ہو۔
ان تینوں پہلوں کے حوالے سے‘ ریاست کی سطح پر کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔یہی معلوم نہیں کہ اس نام نہاد پالیسی کا مرکز کہاں ہے۔'نیکٹا‘ موجود ہے لیکن اس کے کاموں کے بارے میں کسی کوکچھ معلوم نہیں۔ نئی نسل مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے یا سیاسی انتہا پسندی کا۔اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے کہ ریاست اس انتہا پسندی کو سلامتی کا کوئی مسئلہ سمجھتی ہے۔اس بے تدبیری یا پراگندگی ٔفکر کا نتیجہ وہی نکل سکتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں تواس سے ایسی لاتعلق ہیں کہ جیسے یہ ملک کا مسئلہ ہی نہیں۔پیپلزپارٹی کے سوا‘کسی سیاسی جماعت کی قیادت نے معاملے کی سنگینی کو نہیں جانا۔بنوں کے واقعے کو کسی نے اس سنجیدگی سے نہیں لیا جس کا یہ مستحق تھا۔اس پس منظرمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں کہ دہشت گردی کی یہ لہر کیوں اٹھی؟ اس سے کہیں اہم یہ ہے کہ عالمی قوتیں‘دہشت گردی اور انتہا پسندی کے باب میں ہمارے رویے سے کیا نتائج اخذ کرر ہی ہیں۔مجھے یہ نتائج بہت خوفناک دکھائی دیتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ پالیسی ساز حلقے ان سے کتنے آگاہ ہیں۔
معیشت‘علاقائی سیاست اور دہشت گردی نے ہمارے لیے بقا کے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ملک میں جاری بحث کا رُخ مگر کچھ اور ہے۔میرے جیسا عامی تو صرف دعا کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں