واقعات کا بہاؤ بتا رہا ہے کہ عالمی قوتوں نے پاکستان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہے؟
پہلے ان واقعات پر ایک نظر ڈال لیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کے حالات سے لاتعلق ہو چکا۔ ورلڈ بینک نے قرض کو ایک سال کے لیے مؤخر کردیا‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری معاشی سانسیں بے ترتیب ہو رہی ہیں اور ہمیں ڈالرز کی اشد ضرورت ہے۔ اس تاخیر کی بعد میں تردیدکی گئی ہے لیکن مبہم۔ سعودی عرب نے بھی واضح کردیا کہ وہ اپنے شہریوں پر ٹیکس لگاکر خیرات نہیں کر سکتا۔ اب کچھ غیر مشروط نہیں ہوگا۔ امریکہ کے دفترِ خارجہ نے پاکستان کے معاشی حالات پر تشویش ظاہر کی ہے۔ امریکی کا اظہارِ تشویش دنیا کے لیے ایک پیغام ہے۔ عمران خان صاحب وزیراعظم تھے تو امریکی صدر نے ان کو فون نہیں کیا۔ دس ماہ سے شہباز شریف صاحب وزیراعظم ہیں‘ ان کو بھی کوئی فون نہیں آیا۔ اگر امریکہ خان صاحب سے ناراض تھا‘ جیسا کہ بتایاجاتا رہا اور شہباز شریف صاحب کو لانے والا وہی ہے تواس نے ان کے سر پر دستِ شفقت کیوں نہیں رکھا؟ ان کو فون کیوں نہیں کیا؟ حکومت تبدیل ہونے سے امریکی پالیسی کیوں تبدیل نہیں ہوئی؟ آج بھی وہی سرد مہری کیوں ہے جو کل تھی؟میں نے یہ بات اس وقت بھی لکھی تھی کہ مسئلہ عمران خان نہیں‘ پاکستان ہے۔ 'رجیم چینج‘ سے امریکہ کو کوئی دلچسپی ہے نہ پاکستان کی کسی حکومت سے اس کو کچھ لینا دینا ہے۔ عمران خان عوام کی سادہ لوحی سے جو فائدہ اٹھا سکتے تھے‘ انہوں نے اٹھا لیا۔ امریکہ جانتا ہے کہ ریاست کا مرکزِ اقتدار کہاں ہے اور یہ مرکز سیاسی حکومت نہیں ہے۔ امریکہ نے اب ریاست پاکستان کے بارے میں کچھ فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ امریکہ اس فیصلے میں تنہا نہیں۔
ان دنوں مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک کی خود نوشت میرے زیرِ مطالعہ ہے۔ کتاب پر میں الگ سے لکھوں گا کہ اس میں بہت سی چونکا دینے والی باتیں ہیں۔ اس وقت موضوع کی مناسبت سے اس کے ایک باب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ 1975ء میں ملک صاحب کولمبیا یونیورسٹی میں تھے۔ وہ سکول آف انٹرنیشنل افیئرزکے 'ساؤتھ ایشین انسٹیٹیوٹ‘ سے وابستہ تھے۔ ان کے قیام کے دوران وہاںایک سیمینار کا انعقاد ہوا جو افغانستان کی قومی یکجہتی سے متعلق تھا۔ اس میں ایری زونا یونیورسٹی کے پروفیسر Leon Poullada نے ''افغانستان کی داخلی سیاست اور پختونستان کا مسئلہ‘‘ کے موضو ع پرایک مقالہ پڑھا۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ امریکہ ڈیورنڈ لائن کے معاملے میں سردار داؤد کی تائید کرے جو اسے مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتے۔یہ امریکی پروفیسر طویل عرصہ افغانستان میں بطورسفارت کار کام کر چکے تھے۔ وہ پختونستان کے مسئلے پر ایک تحقیقی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ یہ ہمیں معلوم ہے کہ مفروضۂ پختونستان کی سرحد جہلم تک ہے۔ ملک صاحب نے یہ مقالہ اُس وقت کے وزیراعظم بھٹو صاحب کو بھی بھجوایا۔ اب بلوچستان کی طرف آئیے۔ فتح محمد ملک صاحب ایک دوسرے امریکی دانشور ایس ہیری سن کا ذکر کرتے ہیں جو ''کارنیگی وقف برائے بین الاقوامی امن‘‘ سے وابستہ تھے اور ''گریٹر بلوچستان‘‘ کا تصور پیش کر رہے تھے۔ کارنیگی وقف نے 1981ء میں بلوچستان پر ان کی مرتب کردہ ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
ملک صاحب اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''اس زمانے میں مغربی دنیا کو درپیش سوویت خطرات کے پیشِ نظر امریکی سپاہِ دانش‘ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کو گریٹر بلوچستان کے نام پر اپنے کٹھ پتلی حکمران شہنشاہِ ایران کے سپرد کر دینے میں کوشاں تھیں۔ سیلگ ہیری سن اس وسیع تر بلوچستان کے بڑے گرم جوش نظریہ ساز تھے‘‘۔ ملک صاحب کا خیال ہے کہ شہنشاہ کے اقتدار کا ختم ہونا اس منصوبے کی تکمیل میں مانع ہوا۔فتح محمد ملک صاحب کی اس شہادت سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کے پالیسی ساز حلقوں میں کیا سوچ پائی جاتی ہے اور اس خطے کے جغرافیے کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکی اہلِ دانش ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ اس کے اسباب جغرافیے ہی میں نہیں‘ تاریخ میں بھی ہیں۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں اور شاید میں کھل کر بیان بھی نہ کر سکوں کہ بیسویں صدی میں جو عالمی نظام تشکیل پایا اور جس پر عالمی قوتوں نے اتفاق کیا‘ پاکستان کا وجود اس نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پے در پے واقعات نے عالمی قوتوں کے اس تاثر کو تقویت پہنچائی ہے۔ یہ رائے اب صرف امریکہ تک محدود نہیں رہی۔ (میرے نزدیک اسرائیل بھی اس عالمی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا اوراس کا مستقبل بھی خطرات میں گھرا ہوا ہے)۔
افغانستان میں امریکہ اور مغربی قوتوں کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی‘ اس نے عالمی قوتوں کی اس رائے کو مزید مستحکم کیا ہے۔ یہ قوتیں اب اس نتیجے تک پہنچتی دکھائی دیتی ہیں کہ پاکستان کو تاریخی عمل کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ان کے خیال میں داخلی تضادات کا بوجھ اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ ریاست اب اسے اٹھا نہیں سکے گی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی لاتعلقی اسی لیے ہے۔ امریکہ کی سرد مہری کا راز بھی یہی ہے۔ ہمارے دوست بھی اس تاریخی عمل کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔اگر افغانستان میں سردار داؤد اور ایران میں شہنشاہ کی حکومت رہتی تو ممکن ہے آج خطے کا جغرافیہ کچھ اور ہوتا؛ تاہم قدرت کا نظام یہ ہے کہ وہ اس زمین پر کسی قادرِ مطلق کے وجود کو قبول نہیں کرتا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو زیبا ہے۔ اس لیے یہاں ایسی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جو زمینی قوتوں کے عزائم میں حائل ہو جاتی ہیں۔ جیسے شہنشاہ کا جانا۔ جیسے سردار داؤد کی حکومت کا خاتمہ۔
تاہم عالمی قوتوں کے منصوبے موخر ہوئے ہیں‘ ختم نہیں ہوئے۔ آج ایک بار پھر تاریخ ان کی ہم نوا دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں طالبان آچکے ہیں لیکن ڈیورنڈ لائن پر ان کا مؤقف وہی ہے جو سردار داؤد کا تھا۔ ایران میں شہنشاہ مخالف گروہ برسرِ اقتدار ہے لیکن 'ایرانی نیشنل ازم‘ کے معاملے میں ایرانی قوم کے جذبات وہی ہیں۔ یہ پختونستان کا معاملہ ہو یا بلوچستان کا‘ اس خطے کی زمینی حقائق تبدیل ہوئے ہیں نہ عالمی قوتوں کی سوچ۔ اگر آج ایران اور افغانستان کی سیاسی قیادت عالمی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو یہ تصورات پھر سے زندہ ہو سکتے ہیں۔ کیا عراق میں ہم نے ایران اور امریکی قیادت کو ہم آواز نہیں دیکھا؟ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کو اس صورتِ حال کا ادراک نہیں ہے۔ کوئی وجہ تو ہے کہ اس مشکل میں کوئی ہمارا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں۔ دوست بھی لاتعلق ہیں۔ سعودی عرب کا مؤقف ہمارے سامنے ہے۔ چین کی خاموشی بھی یہی کہہ رہی ہے۔ زندگی رکتی نہیں‘ یہ ہر حال میں چلتی رہتی ہے۔ یہ افغانستان ا ور عراق و شام میں بھی رواں رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ زندگی سے آپ کی مراد کیا ہے؟دنیا نے ہمیں تاریخی عمل کے حوالے کر دیا ہے۔ اب وہ سہارا دینے کو تیار نہیں۔ ہمارے ڈوبنے یا ابھرنے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس عمل سے اگر کسی کو دلچسپی ہو سکتی ہے تو اتنی کہ دنیا پر اسکے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ ہمارے ایٹمی اثاثوں کا کیا ہوگا؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ جنہوں نے ہمیں حالات کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ انہوں نے اس بارے میں بھی یقینا کچھ سوچ رکھا ہوگا۔ کوئی فیصلہ کر لیا ہوگا۔
اس وقت ہمارے کندھوں پر تاریخ اور جغرافیے کے ساتھ اَن گنت حماقتوں کا بوجھ ہے۔ پچھتر سال تک ان کندھوں نے اسے اٹھائے رکھا ہے۔ انکی سکت اب ختم ہو رہی ہے لیکن حماقتیں جاری ہیں۔ اللہ خیر کرے۔