مریم نواز صاحبہ کے سامنے چار سوال ہیں:
1: کون سا ایسا دل فریب بیانیہ ہو کہ اس کو سنتے ہی گریز پا عوام (ن) لیگ کی طرف پلٹ آئیں؟
2: حکومت کی کارکردگی کا بوجھ کیسے اٹھایا جائے؟
3: نئی نسل کو عمران خان کی گرفت سے کیسے آزاد کرایا جائے؟
4: منتشر‘ بکھرے اور مایوس کارکنوں کو کیسے ایک منظم سیاسی جماعت کی صورت دی جائے؟
شنید تھی کہ لندن میں کوئی بیانیہ تشکیل پایا ہے۔ مریم نواز صاحبہ کی پہلی تقریر سے تو اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس سے یہی معلوم ہو سکا کہ وہ تلخ یادیں‘ جن کے ساتھ وہ یہاں سے گئی تھیں‘ ان کے ساتھ لوٹ آئی ہیں۔ اپنا مرض البتہ وہیں چھوڑ آئی ہیں اور یہ ان پر اللہ کا کرم ہے‘ شفا جس کے ہاتھ میں ہے۔ پُرعزم وہ ہمیشہ کی طرح ہیں۔ یہ (ن) لیگ کے لیے نیک شگون ہے۔ اس جماعت کو اسی زادِ راہ کی ضرورت ہے۔
ایک نیا بیانیہ ہماری ضرورت ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اسے اپنا سکے اور ایک مؤثر ابلاغی قوت سے اسے عوام کے دل میں اتار سکے تو عوام‘ متزلزل قدموں کے ساتھ نہیں‘ یقین کی قوت سے اس کے ہم رکاب ہو سکتے ہیں۔ اس بیانیے کو ایک جملے میں بیان کیا جا سکتا ہے: ''آج کے بعد پاکستان سکیورٹی سٹیٹ نہیں‘ ایک ویلفیئرسٹیٹ ہو گا‘‘۔ اگر میں سادہ الفاظ میں اس جملے کی شرح کروں تو سکیورٹی سٹیٹ میں اوّلیت ریاست کو دی جاتی ہے اور ویلفیئر سٹیٹ میں عوام کو۔ سکیورٹی سٹیٹ کی بنیادی ضرورت کیا ہے؟ سکیورٹی۔ سکیورٹی جب پہلی ترجیح بنتی ہے تو ریاست کی سیاسی و معاشی حکمتِ عملی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ خارجی دشمنوں سے ملک کی حفاظت اصل مقصد قرار پاتا ہے۔ عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ اگر سکیورٹی حصار مضبوط نہ ہوا تو ریاست باقی نہیں رہے گی۔ لہٰذا ایک بڑی فوج سے لے کر ایٹمی قوت تک‘ ریاست کی بقا کے لیے ایسے ہی لازم ہیں جیسے فرد کے لیے ہوا اور پانی۔
قومی سطح پر یہ بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے کہ فرد ریاست کے لیے ہے نہ کہ ریاست فرد کے لیے۔ یہ فرد ہے جس نے ریاست کے لیے قربانی دینی ہے۔ اس قربانی کا مطلب مضبوط سکیورٹی نظام کے لیے شخصی ضروریات کو تج کرنا ہے۔ بیانیہ ساز خارجی چیلنج کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ ایک عام شہری کو اس سوال کے سامنے مسلسل جواب دہ رکھتے ہیں کہ میں نے ریاست کے لیے کیا کیا؟ بھٹو صاحب نے اس سوچ کو ایک جملے میں بیان کر دیا تھا: ''گھاس کھائیں گے اور ایٹم بم بنائیں گے‘‘۔ وقت نے ان کی دونوں خواہشیں پوری کر دیں۔ ویلفیئر سٹیٹ میں عوام کی ضروریات ترجیح ہوتی ہیں۔ یہ ضروریات کیا ہیں؟ روزگار‘ صحت‘ تعلیم‘ بنیادی انسانی حقوق‘ ترقی کے مساوی مواقع۔ ویلفیئر سٹیٹ میں ریاست کی پالیسی ان ضروریات کے گرد گھومتی ہے۔ ریاست بجٹ بناتی ہے تو سب سے پہلے عوام کی ضروریات کے لیے وسائل مختص کرتی ہے۔ اس کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ سکیورٹی جیسی ثانوی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے گا۔ قومی سلامتی پالیسی تشکیل دیتے وقت یہ پہلو پیشِ نظر ہوتا ہے کہ خارجی خطرات کو کیسے کم کیا جائے تاکہ ان سے نمٹنے کے لیے کم وسائل خرچ ہوں۔ویلفیئر سٹیٹ میں جو بیانیہ تشکیل پاتا ہے‘ اس میں ریاست جواب دہ ہوتی ہے کہ اس نے عوام کے لیے کیا کیا نہ کہ عوام‘ کہ اُنہوں نے ریاست کے لیے کیا کیا؟ عوام جب دیکھتے ہیں کہ ریاست ان کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہے تو وہ ریاست کے باب میں اپنی ذمہ داری کو بہتر طور پر ادا کرتے ہیں۔ پھر ریاست کو ٹیکس جمع کرنے کے لیے حربے نہیں تلاش کرنا پڑتے۔
پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ ہماری قومی سلامتی کی پالیسی اسی تصور کے گرد گھومتی ہے۔ اس کا انجام یہ ہے کہ آج نہ صرف عوام گھاس کھانے پر مجبور ہیں بلکہ خارج سے ہماری سکیورٹی کو لاحق خطرات بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری کوئی سرحد محفوظ نہیں رہی۔ کسی سیاسی راہ نما نے اس تصورِ ریاست کو بدلنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ 2012ء میں نواز شریف صاحب سے تادمِ تحریر میری آخری ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں اس جانب متوجہ کیا۔ تفصیل کے ساتھ عرض کیا کہ ریاست کے دونوں ماڈلز میں کیا فرق ہے؟ اس ملاقات میں برادرم احسن اقبال اور محترم عرفان صدیقی بھی موجود تھے۔ میں نے نواز شریف صاحب کو یہ تجویز دی کہ وہ 2013ء میں اس بیانیے کے ساتھ عوام کے پاس جائیں۔ بظاہر وہ اس کے قائل نظر آئے۔
مریم نواز صاحبہ کے پاس آج موقع ہے کہ وہ ویلفیئر سٹیٹ کا عَلم اٹھائیں۔ اگر وہ اس کی نقیب بن کر کھڑی ہو جائیں اور اس کا بہتر ابلاغ کر سکیں تو باشعور طبقہ اس بیانیے کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ یہی عمران خان صاحب کے بیانیے کا بھی توڑ ہوگا جو اس وقت متفرق اور متضاد اجزائے ترکیبی سے مرکب ہے۔ جو صرف اس لیے مقبول ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی قابلِ ذکر بیانیہ موجود ہی نہیں۔ اگر ایک جوابی بیانیہ عوام کے سامنے رکھا جائے تو قوم کی سیاسی سمت درست ہو سکتی ہے۔
آج ہمیں نئے بیانیے ہی کی نہیں‘ ایک نئے طرزِ سیاست کی بھی ضرورت ہے۔ نفرت اور الزام تراشی کی سیاست نے قوم کو برباد کر دیا ہے۔ ہماری سیاسی لغت بدل چکی ہے۔ ایک عام شریف آدمی اس کلچر سے تنگ ہے۔ ضرورت ہے کہ کوئی سیاست میں وحدت‘ شائستگی‘ سنجیدگی اور مثبت اندازِ فکر جیسی اقدارکا علمبردار بن کر کھڑا ہو۔ اگر مریم نواز اسی اسلوب سے خان صاحب کا توڑ کرنا چاہیں گی تو انہیں ناکامی ہو گی۔ وہ اس سطح تک جا نہیں سکیں گی جہاں خان صاحب نے سیاست کو پہنچا دیا ہے اور ساتھ ہی سیاسی کلچر بھی مزید ابتذال کا شکار ہو گا۔ اگر وہ قوم کو ایک متبادل سیاسی کلچر دے سکیں تو یہ قومی خدمت ہوگی۔
رہی (ن) لیگ کی تشکیلِ نو تو اس کے لیے مریم نواز صاحبہ کو واضح کرنا ہو گا کہ ان کا سیاسی مقصد کیا ہے: شریف خاندان کا تحفظ یا پاکستانی عوام کے مفاد کا تحفظ؟ اگر دوسرا مقصد پیشِ نظر ہے تو لازم ہے کہ پارٹی کے اہم مناصب باصلاحیت لوگوں کو دیے جائیں اور اسے خاندانی حصار سے نکالا جائے۔ موجودہ حکومت کے دفاع کی ایک ہی صورت ہے۔ عوام سے سچ بولا جائے۔ انہیں امید دلانے کے ساتھ یہ بتایا جائے کہ فوری ریلیف کا کوئی امکان نہیں۔ بحران کا فوری سبب آئی ایم ایف کے ساتھ وہ معاہدہ ہے جو 2019ء میں پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا۔ اسی کے نتیجے میں سٹیٹ بینک پر حکومتی گرفت ختم ہوئی اور ڈالر کی قدر کے تعین کا حق مارکیٹ کو دے دیا گیا۔ یہی نہیں‘ گزشتہ حکومت نے اس معاہدے کی پاسداری بھی نہیں کی جس نے آئی ایم ایف کے رویے کو مزید سخت کر دیا۔ اس کے لیے مؤثر ابلاغی حکمتِ عملی کی ضرورت ہوگی۔
مثبت سیاست‘ جامع سماجی تبدیلی تو نہیں لا سکتی‘ البتہ ریاست کی سمت کو درست کر سکتی ہے۔ عمران خان صاحب کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے عوامی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے‘ ان کے کامیاب استحصال کا بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ مذہب‘ امریکہ دشمنی‘ چینی ماڈل‘ سکینڈے نیوین فلاحی ریاست‘ ریاستِ مدینہ‘ اَن گنت متفرق و متضاد مگر مقبول تصورات کو انہوں نے جمع کر دیا۔ ان کے سیاسی مخالفین‘ فکری افلاس کا شکار اور کسی منظم ابلاغی حکمتِ عملی سے تہی دامن ہیں‘ اس لیے خان صاحب کی دکان پر اس وقت رش ہے؛ تاہم بازارِ سیاست میں بہتر مال کے لیے ہمیشہ جگہ ہوتی ہے۔ آپ کو صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ آپ کے پاس ہے۔ مریم نواز صاحبہ کیا یہ سب کام کر پائیں گی؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔