آئین کی دستک پر سپریم کورٹ کے دروازے وا ہوئے اور ایک فیصلہ آگیا۔ فیصلے کا احترام سب پر واجب ہے۔ اب فیصلے کے جلو میں آنے والا نیا بحران ریاست کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ وہ کون سا دروازہ ہے جو اس کی دستک پر کھلے گا؟
میرے نزدیک اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے معاملات حل ہونے والے نہیں۔ یہ متفقہ نہیں‘ اکثریتی فیصلہ ہے۔ جج صاحبان کا اختلاف بتا رہا ہے کہ معاملہ مشتبہ تھا جس نے دوسری رائے کے لیے گنجائش پیدا کر دی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فیصلہ متفقہ ہوتا۔ دو آرا کا یہ اختلاف باقی رہے گا اور ریاست کے دوسرے اداروں میں بھی یہ اپنا رنگ دکھائے گا۔ تقسیم کا عمل مزید گہرا ہوگا۔ اس کا پہلا اظہار حکومت کی طرف سے ہو چکا کہ فیصلہ دو تین سے نہیں‘ چار تین کے تناسب سے آیا ہے۔
آئی ایم ایف ابھی تک راضی نہیں۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد اس کے تذبذب میں مزید اضافہ ہوگا۔ بائیس کروڑ کا ملک ایک بلین ڈالرکیلئے جس ذلت سے گزر رہا ہے‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ایسا سلوک بھکاریوں سے بھی نہیں ہوتا‘ ہم تو قرض مانگ رہے ہیں۔ اسے معمول کی صورتحال قرار نہیں دیا جا سکتا۔ غیرمعمولی حالات‘ غیرمعمولی اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ غیرمعمولی اقدام کے لیے غیرمعمولی قیادت چاہیے‘ جو ہمیں میسر نہیں۔ آئین بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا کہ اسے انہی ہاتھوں اور بازوؤں سے بروئے کار آنا ہے جو آزمائے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی یہی بتا رہا ہے۔
ریاستیں برے حالات میں بھی تحلیل نہیں ہوتیں لیکن وہ لکڑی کے اس ستون کی طرح ہو جاتی ہیں جو بظاہر کھڑا ہوتا ہے لیکن اندر سے دیمک اسے چاٹ چکی ہوتی ہے۔ سری لنکا نام کی ریاست‘ ابھی دنیا کے نقشے پر قائم ہے۔ کل ہی ورلڈ بینک نے اسے چار سو ملین ڈالر کا قرض دیا ہے۔ گویا اس کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ شام اور عراق بھی قائم ہیں۔ کہنے کو ہم بھی قائم رہیں گے؛ تاہم ہماری مشکلات سوا ہیں۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ اقتصادی ڈیفالٹ اور ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کا بوجھ ایک ساتھ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ دنیا اب کسی ایک بوجھ کو اتارنے کا مطالبہ کرے گی۔
ریاست کے پاس کیا حل ہے؟ آئین غیرمعمولی حالات کا حل نہیں دیتا‘ سوائے ایمرجنسی کے اور وہ بھی مشروط۔ اب سپریم کورٹ کا حکم ماننا سب پر واجب ہے۔ کسی ریاستی ادارے کے لیے اس سے کوئی مفر ممکن نہیں؛ تاہم انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو‘ ریاستی مسائل حل ہونے والے نہیں۔ آج اگر حکومت یا کوئی دوسرا ریاستی ادارہ سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانتا تو اس سے بحران پیدا ہوگا۔ اگر مان کر انتخابات کرا دیے جاتے ہیں تو بھی بحران پیدا ہوگا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟
ریاست کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ دفاع‘ خارجہ پالیسی‘ کرنسی‘ بجلی گیس کی فراہمی‘ بے شمارکام ہیں جو ریاست ہی کر سکتی ہے۔ کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ ممکن نہیں کہ دفاع کا فریضہ کسی نجی گروہ کے حوالے کر دیا جائے یا خارجہ پالیسی سول سوسائٹی کو سونپ دی جائے۔ یہ ذمہ داری ریاست ہی کو اٹھانی ہے‘ قطع نظر اس کے کہ وہ یہ صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں۔ ریاست‘ زبانِ حال سے اعلان کر رہی ہے کہ وہ یہ ذمہ داری احسن طریقے پر ادا نہیں کر سکتی۔
اس کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے‘ میں اس کو بیان کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ میں یہی کر سکتا ہوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح اپنی رائے‘ اس وصیت کے ساتھ لکھ دوں کہ یہ میرے مرنے کے بیس یا تیس برس بعد سامنے لائی جائے۔ اس لیے اس معاملے کو یہیں پہ چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریاست اگر اس نہج تک پہنچ چکی تو عام آدمی کیا کرے؟ اس کا مستقبل کیا ہے؟ اس کے کرنے کے لیے کیا باقی ہے؟
ریاست کا متبادل کوئی نہیں لیکن اس کے متوازی اور اس سے بڑا ایک ادارہ ہے جسے سماج کہتے ہیں۔ متوازی ان معنوں میں کہ وہ کوئی معاشی پالیسی تو نہیں دے سکتا لیکن ایک متوازی معیشت ضرور کھڑی کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ایک کردار ادا کر سکتا ہے جو اصلاً ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سماج ان معنوں میں ریاست سے بڑا ہے کہ وہ ایک کامیاب ریاست کے لیے نظری اسباب اور وسائل فراہم کر سکتا ہے۔ ایک ریاست کو عدم سے وجود میں لا سکتا ہے۔ سماج کے اہلِ دانش ایسے راستے دکھا سکتے ہیں جن پر چل کر آج تو نہیں مگر کل ریاست کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ سماج ایک عام آدمی کی امید کو زندہ رکھ سکتا ہے۔
اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ سماجی اداروں کی تشکیلِ نو ہو۔ مثال کے طور پر اس وقت ہمارے نجی شعبے نے تعلیم کا بڑا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ تاہم اس کے مقاصد سماجی سے زیادہ معاشی اور گروہی ہیں۔ اگر تعلیم کو سماجی مقاصد سے ہم آہنگ بنانے والے ادارے وجود میں آ جائیں تو عام آدمی پر تعلیم کے دروازے کھلے رہیں گے۔ اس کی مثال انگریزوں کے دور میں جنم لینے والا ایک سماجی ادارہ انجمنِ حمایتِ اسلام ہے جس نے اسلامیہ کالج لاہور سمیت بے شمار تعلیمی ادارے قائم کیے۔ پشاور‘ لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں نجی شعبے نے مسلم سماج کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا۔ یا پھر دینی مدارس تھے جنہوں نے سماج کی دینی ضروریات کا خیال رکھا جب ریاست نے انہیں اپنی ترجیحات سے نکال دیا تھا۔
آج الخدمت‘ مسلم ہینڈز اور اخوت جیسے ادارے سماج کی تعلیم‘ صحت اور کچھ دوسرے شعبوں میں بہت سی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر یہ ادارے محفوظ رہیں تو اس امکان کو رَد نہیں کیا جا سکتا کہ پندرہ بیس سال بعد‘ ہم ریاست کو زندہ کر سکیں‘ اگر داخلی اور خارجی عوامل نے ہمیں اتنی مہلت دے دی۔ میرا خیال ہے کہ اتنی ہی مہلت ہمارے پاس ہوگی۔ اس سے زیادہ شاید نہ ہو۔
اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے لیے فکری تشکیلِ نو پہلا مرحلہ ہے۔ جو نظری بیانیہ ہمیں آج میسر ہے‘ اس کے مظاہر موجودہ اقتصادی اور خارجہ پالیسی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی اسی بیانیے کی عطا ہے۔ ان پالیسیوں اور نظاموں کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔ یہ طے ہے کہ موجودہ خارجہ اور اقتصادی پالیسی نے ہمیں تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ اس پر اصرار خود کشی کے سوا کچھ نہیں۔ اقتصادی پالیسی نے ہمیں دریوزہ گری سکھائی ہے اور خارجہ پالیسی نے ہمیں دنیا میں اجنبی بنا دیا ہے۔ آج قوم کو ایک متبادل بیانیے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اہلِ علم و دانش کو بروئے کار آنا ہوگا۔
موجودہ فکری ڈھانچے کو بدلنا آسان نہیں۔ اس کے عَلم بردار ریاست کے ہر شعبے میں چھائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے میں نے پندرہ‘ بیس سال کی بات کی ہے۔ ایک نئے بیانیے کو متعارف کرانے کے لیے اتنا وقت تو چاہیے۔ پھر معاشرے کو اس پر قائل کرنے کے لیے ابلاغی مہم کی بھی ضرورت ہو گی۔ اس لیے اس تبدیلی میں وقت لگ سکتا ہے۔ پچھتر برس سے حاکم فکری ڈھانچے کو بدلنا آسان نہیں ہوتا۔
فوری طور پر تو کچھ نہیں ہونے والا۔ انتخابات ہوں نہ ہوں۔ یہاں بوم بسیرا کرے یا زاغ‘ ریاست کے احوال میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس سے مزید امیدیں وابستہ کرنا خود فریبی ہوگی۔ اگر ہم اپنی سماجی‘ اخلاقی اور فکری قوت کو مجتمع کرتے ہوئے‘ سماجی اداروں کی تشکیلِ نو کر سکیں تو ممکن ہے کہ بیس تیس سال بعد حالات سنور جائیں۔ ساتھ ہی یہ دعا کرنی چاہیے کہ چرخِ فلک ہمیں اتنی مہلت بھی دے۔ یہ انجمنِ حمایتِ اسلام اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے عہد کی طرف لوٹنا ہے۔ قیامِ پاکستان کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔