اہلِ دانش کا اضطراب اب ظاہر ہو نے لگا ہے۔یہ ایک نیک شگون ہے۔
برادرِ محترم ذوالفقار چیمہ صاحب نے دردِ دل رکھنے والی چند جہاں دیدہ شخصیات اور کچھ اہلِ دانش کو اسلام آباد میں جمع کیا۔ 'عوام دوست پاکستان‘ کے عنوان سے کچھ لوگ لاہور میں بھی اکٹھے ہوئے۔ملک کے دوسرے حصوں سے بھی اس نوعیت کی بہت سی کوششوں کا سراغ ملتا ہے۔اس اعتبار سے ان کا خیرمقدم ہونا چاہیے کہ کہیں احساسِ زیاں تو ہے جس کا یہ اظہار ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ اس زیاں کی تلافی کیسے ہو؟ہم درپیش بحران سے کیسے نکلیں؟
میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ اس سوال کا واضح جواب کسی کے پاس نہیں۔ صورتِ حال اتنی گمبھیر ہے کہ ڈور کا سرا کسی کے ہاتھ نہیں آ رہا۔ان حالات کا ایک ناگزیر نتیجہ فکری پراگندگی ہے۔جب ہر تجویز 'اگر ‘ سے شروع ہو اور 'چاہیے‘ پرختم ہو تو جان لیں کہ کسی کے پاس کوئی قابلِ عمل حل موجود نہیں ہے۔مثبت بات یہ ہے کہ اس حل کی تلاش کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے کی خواہش موجود ہے۔اس کی جھلک مجھے ذوالفقار چیمہ صاحب کی مساعی میں نظر آئی۔
ریاست ان معنوں میں غیر فعال ہے کہ اس کاہر ادارہ مسئلہ پیدا کرنے میں حصہ دار ہے‘حل میں نہیں۔حل کسی کے پاس نہیں۔سماجی اداروں کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔علما‘ وکلا‘صحافی‘سب اپنی ساکھ کھو چکے‘الا ماشااللہ۔جنہیں ہم اہلِ دانش کہتے ہیں‘ وہ سماجی تقسیم کا ایندھن بن چکے۔دانش کا ایسا مظہر کم ہی سامنے آیا ہے جو اس تقسیم سے بالا تر ہوکر بحران کا تجزیہ کرے اور پھر کوئی حل بھی تجویز کرے۔استادِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی نے 'فوج کا بیانیہ‘ کے عنوان سے پاکستان کے سیاسی بحران کا طویل تجزیہ کیا ہے اور جزیات کی سطح پر بتایا ہے کہ اُم المسائل کون ہے اوراس کے ادارک کے بغیر کسی حل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ان کا یہ تجزیہ‘سوشل میڈیا کے توسط سے بالاقساط سامنے آ چکا۔اس کے سوا 'اگر‘ اور 'چاہیے‘ کی تکرار کے سوا کچھ نہیں۔
میرا کہنا تو یہ کہ ریاست کوجس ڈگر پر ڈالا گیا تھا‘اس میں ڈھلوان آچکا۔یہ گاڑی اب رک نہیں سکتی۔اس کو لازماً منزل پر ہی رکناہے۔منزل بھی سامنے دکھائی دے رہی ہے۔اہلِ دانش کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اس کا پوری طرح ادراک نہیں۔ان کی قابلِ تحسین امید اب بھی ریاستی اداروں سے وابستہ ہے جو کہ غیر حقیقی ہے۔انہیں سب سے پہلے اس مخمصے سے نکلنا ہو گا۔جب انہیں اس جانب توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ مایوسی کی بات کی جا رہی ہے۔درآں حالیکہ‘یہ مایوسی کا اظہار نہیں‘ احوالِ واقعہ کا بیان ہے۔اصلاح ِا حوال کا کوئی کام احوالِ واقعہ کو سمجھے بغیر نہیں ہو سکتا۔
اہلِ دانش جب ریاست کے دائرے میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں تو مزید الجھ جاتے ہیں۔ریاست آئین کے تحت چلتی ہے۔آئین یہ کہتا ہے کہ پنجاب اور کے پی میں سپریم کورٹ کے ا حکامات کے تحت انتخابات ہوں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے نیا بحران پیدا ہو گا۔ اس پر سوال پیدا ہوتاہے: انتخابات سے انکار آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس خلاف ورزی سے کیا نیا بحران پیدا نہیں ہوگا؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔اس نوعیت کے بہت سے مسائل ہیں‘ جنہیں ریاست کے دائرے میں سلجھانے کی ہرکوشش ‘معاملات کومزید الجھاتی چلی جا تی ہے۔
پھر اس طرح کے مثالی حل تجویز کرتے وقت اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ سیاست میں مفاداتی بنیادوں پر گروہ بندی ہوتی ہے۔اگر ایک گروہ کو انتخابات میں اپنی کامیابی دکھائی دے رہی ہو تو اسے ملک کی دہائی دے کر اس مطالبے سے دست بردار نہیں کیا جا سکتا۔یہ دہائی ہم نے1970 ء میں عوامی لیگ کو بھی دی تھی۔اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔میرا احساس ہے کہ ہمیں آج انتخابات کے حوالے سے پھر اُسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔اس وقت واضح تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ جیت جائے گی۔مولانا سید ابوا علیٰ مودودی نے متنبہ کیا تھا کہ اس صورت میں ملک دو لخت ہو جائے گا۔انتخابات کو روکا نہیں جا سکا اور یوں ملک دو لخت ہو گیا۔اگر روکا جاتا تو تب بھی نتیجہ یہی رہتا۔
آج بھی انتخابات ہوں تو بحران ‘نہ ہوں تو بحران۔جو جماعت انتخابات جیت سکتی ہے‘اسے قائل نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس سے پیچھے ہٹ جا ئے۔اسے اس کی پروا نہیں کہ اس کے بعد بھی حالات بہتر ہوں گے یا نہیں۔جو ہار جانے کے خوف میں مبتلا ہیں‘وہ انتخابات سے گریز چاہتے ہیں۔انہیں بھی اس سے زیادہ سروکار نہیں کہ انتخابات کو روکنے سے کیا بحران پیدا ہو سکتاہے۔اسی طرح ریاست کے دائرے میں معیشت کا جو حل تلاش کیا جا رہا ہے وہ ایک ہی ہے:آئی ایم ایف سے قرضے کی منظوری۔اس کی منظوری سے مہنگائی ناقابلِ برداشت ہوجائے گی اور انکار سے ڈیفالٹ کا خطرہ۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔اسی لیے میں یہ کہتا ہوں کہ ریاست کے دائرے میں ہمارے مسائل کا کوئی حل موجودنہیں ہے۔
کیا یہ مایوسی کی بات ہے؟کیااس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں؟میری گزارش ہے کہ یہ مایوسی کی بات تو ہے مگراس کا مطلب یہ نہیں کہ اہلِ دانش غیر فعال ہو جائیں۔انہیں صرف اپنا دائرۂ عمل تبدیل کرنا ہے۔ریاست کی اصلاح کے بجائے‘انہیں سماجی شعور کو بہتر بنانے پر ساری توجہ دینا چاہیے۔ریاست جیسے تیسے چلتی رہے گی۔ آخر سری لنکا بھی تو چل رہا ہے۔عراق اور افغانستان بھی قائم ہیں۔ہم بھی اسی طرح چلتے رہیں گے۔اگر سماج بدل جائے اور اس کے نتیجے میں ہمارے ریاستی اداروں کی تشکیلِ نو ہو جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ بیس پچیس سال بعد‘ یہ ملک بھی تبدیل ہو جائے۔
اہلِ دانش ریاستی اداروں کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیتے رہیں مگر اصل ہدف سماجی تبدیلی کو بنائیں۔سیاسی شعور کو بدلے بغیر سیاسی ادارے تبدیل نہیں ہو سکتے۔اگر سیاسی جماعتوں کی ساخت یہی رہی تووہ بہتری نہیں لا سکیں گی۔ایک طرف روایتی سیاست ہے جو دراصل روایتی بھی نہیں۔روایتی سیاست دانوں نے وہ سیاسی جماعتیں نہیں بنائیں جو سیاسی اصلاحات کے لیے انجن بنتی ہیں۔دوسری طرف پاپولزم کی سیاست ہے جس سے کوئی خیر وابستہ نہیں۔ریاستی اداروں کے رویے بھی ہمارے سامنے ہیں جن میں دعوؤں کے باوجود کسی تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔اس صورتِ حال میں ریاستی نظام میں اصلاح کی امید‘ایک خیالِ خام ہے۔
اہلِ دانش کا احساسِ زیاں اگراس فکری یک سوئی میں بدل جائے کہ ان کی جد وجہد کا اصل میدان سماج ہے تو سماجی تبدیلی کی متفرق کوششیں نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں۔یہ کوششیں یک جا ہو جائیں تو اچھا ہے۔لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو ان کا ہونا بھی امید کی کرن ہے۔تاہم اس باب میں اتفاقِ رائے لازم ہے کہ عوامی سطح پر شعوری تبدیلی لائے بغیرہم ریاستی اداروں کو تبدیل نہیں کر سکتے۔میری درخواست بس اتنی ہے کہ اہلِ دانش ریاست و سیاست کے دائرے میں وقت اور صلاحتیں برباد کرنے کے بجائے‘انہیں سماج کی فکری تشکیلِ نو کے لیے صرف کریں:
تری دعاہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعاہے تری آرزو بدل جائے