سیاستِ دوراں آئے دن منیرؔ نیازی کی یاد دلاتی ہے۔
کم سخن ور ہیں جو شاعرانہ حسن و جمال اور خیال کی نزاکت کو قربان کیے بغیر عصری سیاست کو موضوع بنا سکتے ہیں۔ ورنہ اکثر شعر تو منظومِ صحافت ہوتے ہیں۔ 'شہرِ آشوب‘ ہماری شعری روایت کا حصہ ہے۔ غالبؔ نے اسے لکھا تو حسنِ بیان اور فلسفیانہ تخیل کو ہم آہنگ کر دیا۔ میرؔ نے نہاں خانۂ دل میں اتر کر اپنے عہد کے درد کو اس طر ح قاری کا شخصی تجربہ بنا دیا کہ اس کا دل آنکھوں سے بہہ نکلا۔ علامہ اقبالؔ نے اسے پیغمبرانہ اور صوفیانہ واردات کا حصہ سمجھتے ہوئے مابعد الطبیعاتی اساسات فراہم کیں۔ فیضؔ صاحب نے اسے اپنے عہد سے مستعار ایک نظریۂ حیات کے پیرائے میں بیان کیا۔
ان سب کے ہاں شعر کی نزاکت مجروح نہیں ہوئی۔ ایک شعر کو سب سے پہلے تو اوّل و آخر شعر ہونا چاہیے۔ مابعد الطبیعاتی اساس یا کسی نظریاتی پیرہن کی موجودگی ایک شاعر کا اضافی ہنر ہے‘ بنیادی نہیں۔ جو اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے وہ شعر کو پروپیگنڈے کی پست سطح پر لے آتے ہیں۔ اس طرح شعر اپنے فطری حسن و جمال سے محروم ہو جاتا ہے۔ ہمارے عہد میں جو شاعر اس ہنر سے واقف ہیں‘ ان میں ایک منیر نیازی بھی ہیں۔ میں اور بہت سے نام گنوا سکتا ہوں۔ جیسے ظفر اقبال‘ افتخار عارف‘ اظہار الحق‘ جلیل عالی لیکن میرے پیشِ نظر کوئی تنقیدی مضمون لکھنا یا جامع فہرست مرتب کرنا نہیں‘ اپنے عہد کے شہرِ آشوب کا تذکرہ کرنا ہے اور اس حوالے سے شخصی تاثر کا بیان ہے جس نے منیرؔ نیازی کی یاد دلائی۔
جنگل‘ دھنک‘ باد و باراں‘ منیرؔ نیازی کی شعری فضا کے چند نمایاں رنگ ہیں۔ ان کی شاعری ایک طلسم کدہ ہے۔ اس کے ساتھ لیکن عمرِ رائیگاں کا ماتم ہے اور ایک 'نئے شہرِ امکاں‘ کا ذکر بھی۔ ان دونوں تصورات میں عصری سیاسی تبدیلی کا گہرا شعور اپنے تمام شاعرانہ حسن کے ساتھ ان کے ہاں ظہور کرتا ہے۔ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کے شخصی تجربے کو اپنے آبا کی روایت کا احیا قرار دیتے ہیں جنہوں نے ایک نئے شہرِ امکان‘ یثرب کی طرف ہجرت کی۔ وہ اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرتے:
آیا ہوں میں منیرؔ کسی کام کے لیے
رہتاہے اک خیال سا خوابوں کے ساتھ ساتھ
منیرؔ کی شاعری میں مذہب کا استعارہ اتنا طاقتور ہے کہ ان کے نظامِ فکر کا احاطہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی ایک کتاب کا انتساب 'خدا کے نام‘ ہے۔ ایک کا 'رسولِ کریمؐ کے نام‘، ایک کا 'امام حسینؓ کے نام‘۔ ایک کتاب کو وہ 'خوب صورت پاکستان‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ پاکستان ان کے لیے نیا مدینہ ہے۔ منیرؔ نیازی تاہم ان معنوں میں کوئی 'نظریاتی‘ شاعر نہیں جن معنوں میں یہ لفظ مستعمل ہے۔ وہ اوّل و آخر شاعرہیں۔ شاعر کا نظریہ‘ شاعری ہی ہوتا ہے۔ اِلّا یہ کہ وہ علامہ اقبالؔ کی طرح شاعری کو اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے محض ایک وسیلہ خیال کرتا ہو۔
منیرؔ نیازی کے شہر آشوب میں اس عہد کا فہم حیران کن ہے۔ اس شہر کے مکین‘ راہ نما ہوں یا عوام‘ ان کے ہاں ارتقا نہیں ہے۔ بظاہر وہ حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر سفر طے نہیں ہو رہا۔ آج اگر سیاست کی ہیجانی کیفیت کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر کوئی میدان میں نکلا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کچھ کیے بغیر دم نہیں لے گا۔ نتیجہ مگر یہ ہے کہ ہر حرکت بے سود ہے۔ منیرؔ نیازی نے دیکھیے اس مضمون کو کیسے بیان کیا ہے:
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ہمارے مصائب ختم نہیں ہو رہے۔ ہم ایک مسئلے سے نمٹتے ہیں تو ایک دوسرا ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ سلسۂ درد تمام ہونے کو نہیں آرہا۔ منیرؔ نیازی کی شاعری میں اس المیے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے مجھے عصری شعری روایت میں اس کی جھلک بہت کم دکھائی دی ہے۔کون اردو دان ہوں گا جس نے یہ شعر نہیں سنا ہوگا:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مسلسل آزمائش کے اس عمل کو شاید ہی کسی نے اس طرح شاعرانہ جمال کے ساتھ بیان کیا ہو گا۔ منیر نیازی کے ہاں عمرِ رائیگاں کا ماتم بھی اسی تناظر میں دکھائی دیتا ہے کہ ہماری آزمائش ختم ہوتی ہے نہ مقصدِ حرکت۔ ایک اورشعر دیکھیے:
ابھی مجھے اک دشتِ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک مسافت ختم ہوئی ہے‘ ایک سفر ابھی کرنا ہے
جمہوریت نے اس نئے 'شہرِ امکاں‘ کو جس المیے سے دو چار کیا‘ منیرؔ نے اسے بھی بیان کیا ہے:
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا
شہر کو بر باد کرکے رکھ دیا اس نے منیرؔ
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
منیرؔ نیازی کو پڑھے ایک عرصہ ہو گیا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ روز مرہ واقعات میں سب سے زیادہ انہی کے اشعار اور مصرعے یاد آتے ہیں۔ مایوسی جب حدوں کو چھونے لگتی ہے تو بھی منیرؔ نیازی یاد آتے ہیں۔ کب تک ہم جانے والوں کی راہ تکتے رہیں گے اور کب تک ناکامیوں کو برداشت کرتے رہیں گے۔ سلسلۂ واقعات انسان کے ذہن پر اپنا نقش چھوڑ جاتا ہے اور پھر اس سے کچھ نتائج مرتب ہوتے ہیں:
تمام عمر رہِ رفتگاں کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں اتنا تو دم نہیں ہوتا
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیرؔ
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
آئی ایم ایف کے نہ ختم ہوتے مطالبات کے سامنے ہماری بے بسی کی تصویر دیکھیے منیرؔ نیازی نے کس طرح کھینچی ہے:
زوالِ عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در بابِ التجا کے سوا
دہشت گردی سے لے کر عصری سیاسی چیلنج تک‘ میں ریاست کی بے بسی کو دیکھتا ہوں تو بھی منیرؔ نیازی کو یاد کرتا ہوں۔
روک سکتے تھے اسے ہم ابتدا کے دور میں
اب ہمیں دیوانگیٔ شہر پر قدرت کہاں
یا پھر ان کی شہرۂ آفاق نظم ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘۔ ہماری ریاست کیسے اس کا مصداق ہے‘ نظم پڑھیے تو حیرت ہوتی ہے۔
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ‘ اس کو جا کر بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
کالم تمام ہوا مگرشہرِ آشوب نہیں۔ المیے کا تسلسل کیسے ٹوٹے؟ اس کا ایک علاج منیرؔ نیازی نے بھی بتایا ہے:
بیٹھ جائیں سایۂ دامانِ احمد میں منیرؔ
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی