ہم گزشتہ پچاس‘ باون برس میں پیش آنے والے واقعات کی بات کرتے ہیں۔
سماج میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اِن واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ان کے لیے یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے واقعات ہیں۔ ان واقعات کی صحت کے بارے میں سب متفق ہیں مگر جب ان کے اسباب پر بات کی جائے تو ہمیں ایک سے زیادہ جواب ملیں گے۔ یہ بات کہ واقعہ ہوا‘ اس پر کوئی اختلاف نہیں۔ واقعہ مگر کیسے ہوا؟ کون ذمہ دار تھا؟ ان سوالات کے متفقہ جواب میسر نہیں۔
ہم تاریخ کی دیگ سے چند دانے اٹھاتے ہیں: مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار کون تھا؟ ایک جواب: جنرل یحییٰ خان۔ اقتدار ان کے پاس تھا۔ یہ ان کے غلط فیصلے تھے جنہوں نے یہ دن دکھایا۔ دوسرا جواب: ذوالفقار علی بھٹو۔ اگر وہ شیخ مجیب الرحمن کے حقِ حکمرانی کو تسلیم کر لیتے‘ جنہیں اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی تو سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ سے بچا جا سکتا تھا۔ تیسرا جواب: شیخ مجیب الرحمن۔ انہوں نے بنگالیوں کے ذہنوں میں علیحدگی کے بیج بوئے۔ بھارت سے ساز باز کی اور اسے مداخلت کا موقع فراہم کیا۔
دوسرا سوال: 1977ء کا مارشل لا کیوں نافذ ہوا؟ ایک جواب: انتخابی دھاندلی پر عوام کے احتجاج کے نتیجے میں۔ یہ بھٹو صاحب کی فسطائیت تھی جو انتخابی دھاندلی کا محرک بنی۔ عوام سڑکوں پر نکلے اور پھر حکومت ان پر قابو نہ پا سکی۔ دوسرا جواب: جنرل ضیاالحق صاحب کی سازش مارشل لا ء کا باعث تھی۔ یہ ان کی ہوسِ اقتدار تھی‘ ورنہ حالات اتنے خراب نہ تھے کہ فوج آ جاتی۔ تیسرا جواب: اس کا ذمہ دار امریکہ تھا۔ وہ اس' رجیم چینج‘ کے پیچھے تھا۔ بھٹو صاحب نے اسمبلی میں بتا دیا تھا کی سفید ہاتھی ان کے تعاقب میں ہے۔
تیسرا سوال: بھٹو صاحب کو پھانسی کیوں ہوئی؟ ایک جواب: اس کی وجہ قتل ہے۔ وہ نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوث تھے۔ دوسرا جواب: امریکہ انہیں مروانا چاہتا تھا۔ ہنری کسنجر نے بھی انہیں دھمکی دی تھی۔ تیسرا جواب: قبر ایک تھی اور امیدوار دو۔ اقتدار کی کشمکش نے تلخی کو اتنا بڑھا دیا تھا کہ ضیا الحق اور بھٹو‘ دونوں میں سے کسی ایک کو مرنا تھا۔ قرعہ بھٹو صاحب کے نام نکل آیا۔ عدالت کو بطور آلۂ قتل استعمال کیا گیا۔
چوتھا سوال: بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کروایا؟ ایک جواب: یہ مذہبی انتہا پسند تھے جو انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ دوسرا جواب: خود بے نظیر صاحبہ نے امریکی دوست اور لابیئسٹ مارک سیگل کو ایک ای میل میں اپنے مبینہ قاتلوں کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ تیسرا جواب: ہم قاتل تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
پانچواں سوال: عمران خان اقتدار تک کیسے پہنچے؟ ایک جواب: بااثر لوگوں نے 'عمران پروجیکٹ‘ تشکیل دیا جس کا نقشِ اوّل جنرل شجاع پاشا تھے اور آخری نقش جنرل باجوہ۔ دوسرا جواب: عمران خان کا بیانیہ‘ مقبول عوامی بیانیہ بن گیا جس میں 'کرپٹ‘سیاست سے نجات کی امید دلائی گئی تھی۔ وہ عوام کے ووٹوں سے برسرِ اقتدار آئے۔ تیسرا جواب: یہ ایک یہودی یا غیر ملکی سازش کا شاخسانہ تھا۔
چھٹا سوال: نواز شر یف صاحب کو کس نے اقتدار سے الگ کیا؟ ایک جواب: وہ ایک سازش کا شکار ہوئے۔ ریاست کے تمام اعضا و جوارح ان کے خلاف ہو گئے تھے۔ انہیں مقتدر حلقوں کو چیلنج کرنے کی سزا ملی۔ دوسرا جواب: پاناما میں ان پر کرپشن ثابت ہوگئی۔ عدالت نے انہیں مجرم قرار دیا اور یوں وہ نا اہل ہوگئے۔ تیسرا جواب: وہ ایک عالمی سازش کا شکار ہوئے۔
سوالات صرف چھ نہیں‘ اَن گنت ہیں۔ یہ وہ تاریخ ہے‘ ہم جس کے عینی گواہ ہیں۔ جو ہمارے سامنے لکھی گئی۔ ایک واقعے کی بہت سی تعبیریں ہیں اور لوگ اپنی اپنی تعبیر پر مطمئن ہیں۔ یہ سب تعبیریں کل تاریخ کہلائیں گی۔ انہیں قلمبند کیا جائے گا اور یوں وہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ ہو جائیں گی۔ وہ تاریخ کی کتاب کھولیں گی اور انہیں ایک واقعے کے بہت سے اسباب ملیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیسے طے کریں گے کہ واقعے کا اصل سبب کیا تھا؟ جو بات آج طے نہیں ہو سکی‘ جب ان واقعات کے عینی گواہ موجود ہیں تو تب کیسے طے ہوگی جب سارا علم کتابی ہوگا؟
یہ اُن واقعات کا بیان ہے جو جدید ہیں۔ ہمارے سامنے پیش آئے۔ یہ اس دور سے متعلق ہیں جب ابلاغ کے ذرائع غیرمعمولی ترقی کر چکے تھے اور واقعات کے شواہد محفوظ رکھنے کے یقینی وسائل فراہم ہو چکے تھے۔ اس کے باوصف ان کے اسباب کے بارے میں اتفاق موجود نہیں۔ آپ اس کی کوئی بھی توجیہ پیش کر سکتے ہیں‘ نتیجہ بہر حال عدم اتفاق ہے۔ ہم اس پر تو اتفاق کر سکتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو یہ واقعہ ہوا۔ کیوں ہوا‘ اس کے جواب میں تعدد ہے۔
تاریخ سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے‘ وہ علمِ ظن ہے‘ علمِ یقین نہیں۔ ظن اور گمان پر کسی عقیدے یا مذہب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم جس تاریخ سے واقف ہیں‘ اس میں زیادہ سے زیادہ کسی واقعے کی صحت پر اطمینان ہو سکتا ہے‘ وہ بھی اس صورت میں جب اس کی روایت تواتر کے ساتھ ہو۔ تواتر کا مطلب یہ ہے کہ واقعے کو روایت کرنے والے اتنے ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔ تاریخ زیادہ تر اخبارِ آحاد پر مشتمل ہے۔ روایت کرنے والے اکا دکا ہیں۔ جو واقعہ ہزار بارہ سو سال پہلے پیش آیا‘ جس کے راوی ایک دو سے زیادہ نہیں‘ جب واقعات کو محفوظ رکھنے کے ذرائع محدود تھے‘ اس کی بنیاد پر جو مقدمہ بھی قائم ہوگا‘ وہ ظنی ہوگا۔ ہم اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ گمان کر سکتے ہیں۔
مذہبی روایت کا عالم بھی یہی ہے کہ اس کی تاریخ ظنی ہے۔ قدیم مذاہب میں صرف اسلام ہے جو علمِ یقین پر کھڑا ہے۔ یہ بھی اس وجہ سے ممکن ہوا کہ اس کی حفاظت ایک الہامی منصوبہ تھا۔ اس دین کے دو ہی ماخذ ہیں: قرآنِ مجید اور سنتِ رسولﷺ۔ دونوں تواتر سے منتقل ہوئے۔ ایک قولی تواتر ہے اور دوسرا عملی۔ اس اہتمام نے مذہب کی ساری الہامی روایت کو محفوظ کر دیا۔ ان دونوں ذرائع سے عقیدے و عمل سے متعلق وہ تمام دینی ہدایت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی‘ جس کی حفاظت مطلوب تھی یا یوں کہیے کہ جس کی ضرورت انسانوں کو قیامت تک رہے گی۔
قرآنِ مجید کو اللہ تعالیٰ نے فرقان اور میزان کہا۔ اس کی موجودگی میں قدیم صحائف کو شوق اور اطمینان سے پڑھا جا سکتا ہے۔ جہاں خدشہ ہوا کہ تاریخ نے اپنا رنگ دکھایا‘ وہاں قرآنِ مجید تصدیق یا تردید کے لیے موجود ہے۔ یہی معاملہ سنت کا بھی ہے۔ یہ انبیا کا طریقہ ہے جسے نبیﷺ نے اپنی تصدیق‘ تصویب اور اجتہاد سے جاری کر دیا۔ قرآنِ مجید کے مطابق یہ ملتِ ابراہیمی کی روایت ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں ماخذ ات کی صورت میں الہامی ہدایت ایک یقینی ذریعے سے ہم تک پہنچ گئی۔
اس سے پہلے اور اس کے بعد جو کچھ ہے‘ تاریخ ہو یا مذہب‘ سب علمِ ظن ہے اور ظن و گمان پر یقین کی عمارت نہیں کھڑی ہو سکتی۔ ہم چاہیں تو کسی تاریخی واقعے کی کسی ایک تعبیر کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ ہمیں اگر اپنی تحقیق پر اطمینان ہے تواس پر مطمئن رہ سکتے ہیں۔ تاہم علم کی دنیا میں ہم اپنا مؤقف جب بھی پیش کریں گے‘ اسے گمان ہی کا درجہ دیا جائے گا۔
ہم اگر یہ بات سمجھ جائیں تو مذہب و فرقے کے باب میں جاری مناظرے اور افتراق کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔ پھر فرقہ واریت کی بنیاد پر جاری انتہا پسندی بھی ختم ہو سکتی ہے کہ گمان کی بنیاد پر جان دینا یا لینا کون سی عقل مندی ہے؟