عمران خان صاحب کے مداحوں کی مبالغہ آرائی اورجہالت ایک فتنے کو جنم دے رہی ہے۔ انہیں خود اس کانوٹس لینا ہوگا۔
زمان پارک سے ایک بچے کی وڈیو وائرل ہوئی ہے۔بچے کی زبان سے جو کچھ کہلوایاجا رہا ہے‘اس میں ایک طوفان چھپا ہواہے۔ایک عامی بھی جانتا ہے کہ یہ بچے کے خیالات نہیں ہیں۔کسی نے سکھائے ہیں جنہیں بچے نے اپنی معصومیت کے ساتھ دہرا دیا ہے۔سٹیج پر تحریکِ انصاف کے ذمہ دار لوگ موجود تھے۔ا نہیں معاملے کی حساسیت کا احساس ہو تا تو وہ اسے روک سکتے تھے۔روکنے کے بجائے تالیاں بجا کر‘اس کو قابلِ تعریف عمل بنا دیا گیا۔تادمِ تحریر پی ٹی آئی کے کسی راہ نما نے اس کی مذمت نہیں کی۔اس لیے خان صاحب کوخود ہی اسے دیکھنا ہوگا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔یہ مسلسل عمل ہے جو چندبرسوں سے جاری ہے۔میں نے ابتدا ہی میں توجہ دلائی تھی کہ خان صاحب ایک کلٹ بنتے جا رہے ہیں۔ بات سیاسی کلٹ تک محدود رہتی تو بھی غلط تھی مگر اسے گوارا کیا جا سکتا تھا کہ اس کے مفاسد سیاسی تھے۔اب یہ مذہبی کلٹ بن چکاہے جس میں خطر ناک فتنے چھپے ہوئے ہیں۔
مذہب کا سیاسی استعمال اس سماج کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔اس سے پہلے مگر اس کی نوعیت بہت مختلف تھی۔اس کے تین بڑے مرا حل ہیں۔پہلا مرحلہ وہ ہے جب سیاسی عمل کو ایک مذہبی فریضے کے طور پر پیش کیا گیا۔اسے 'فریضۂ اقامتِ دین ‘ کہا گیا۔یہ تصور پیش کرنے والے اور اس کی آبیاری کر نے والے اہلِ علم تھے۔اس مذہبی مقدمے کے مطابق‘ یہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس زمین پر خدا کے دین کو غالب کرنے کیلئے جد وجہد کریں۔نبیﷺ کا مقصدِ بعثت یہی تھا۔چونکہ اب کوئی نبی نہیں آنا‘اس لیے یہ ذمہ داری اب مسلمانوں نے اجتماعی طور پر ادا کرنی ہے۔
چونکہ یہ وہی کام ہے جو نبی ﷺ نے کیا‘اس لیے اس کی حکمتِ عملی بھی وہی ہوگی جو اللہ کے آخری رسولؐ نے اختیارکی۔اسے مذہبی لغت میں بیان کریں تو غلبۂ دین کی حکمتِ عملی منصوص ہے۔یعنی قرآن و سنت سے ماخوذہے۔مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی نے اسے سات مراحل کی صورت میں بیان کیا۔اسی دینی نصب العین اور حکمتِ عملی کے تحت‘ا نہوں نے جماعت اسلامی قائم کی۔ یہ حکمتِ عملی منصوص ہے‘اس لیے اس تحریک کا قائد اگر چہ نبی نہیں ہو گا لیکن لازم ہے کہ ایک جامع الصفات شخصیت ہو۔مسلم تاریخ کے باب میں مولانا کا تجزیہ یہ تھا کہ عہدِ رسالت و صحابہ کے بعد کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی۔وہ اسے 'مجددِ کامل‘ کا نام دیتے ہیں۔قریب تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓاس منصب پر فائز ہوجاتے مگر نہیں ہو سکے۔
اسی بات کو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے آگے بڑھایا اوران روایات کو بنیاد بنایا جن میں بتایاگیا ہے کہ قربِ قیامت میں ‘دنیا میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی آئے گی جب 'خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ قائم ہوگی۔وہ خود اسی خلافت کے داعی تھے۔ مولانا مودودی نے جب اپنا تصورِ دین پیش کیا اور اس تعبیرِ دین کی بنیاد پر ایک جماعت بھی تشکیل دی جس کی حکمتِ عملی منصوص تھی تو ان پرمذہبی طبقات کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے اور یہ کہا گیا مولانا ‘امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔یہی تاثر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے بارے میں بھی پیدا ہوا۔
مولانامودودی دین کے جید عالم تھے۔ہم ان کی تعبیرِ دین سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن وہ اپنے بارے میں کبھی اس زعم میں مبتلا نہیں ہوئے کہ وہ خدا کی طرف سے ریاستِ مدینہ بنانے کے لیے مامور کیے گئے ہیں اور نہ جماعت اسلامی نے یہ سمجھا۔جب ان پر یہ اعتراضات اٹھے تو ان کا جواب یہ تھا کہ کل جب میں خدا کے سامنے اس طرح پیش ہوں گا کہ میرا دامن ہر طرح کے دعوؤں سے خالی ہوگا تو وہاں یہ معترضین کیا جواب دیں گے؟انہوں نے عمر بھر اس نوعیت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔تاہم‘انہوں نے اقامتِ دین‘ اسلامی تحریک کے قائد یا مہدی کا جو تصور پیش کیا‘اس میں یہ خدشہ مضمرتھا کہ کوئی کم علم‘ اس کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کر ے۔بد قسمتی سے بعد میں اس فکر کے ایسے مظاہر سامنے آئے جن سے یہ خدشہ سچ ثابت ہوا۔یہ دوسرا مرحلہ تھا۔
اس کا ایک مظہر تو سیاسی مقاصد کے لیے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال ہے۔مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے عورت کی حکمرانی سے لے کر' کتاب‘ کے انتخابی نشان تک ‘ہر شے کو مذہبی رنگ دے کر‘ سیاسی فائدہ کشید کرنے کی کوشش کی۔نیتوں کے حال اللہ جانتا ہے لیکن اس کے سماجی نتائج ہمارے سامنے ہیں۔اس سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوئی اور اس نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔فیض آباد کا دھرنا اس کا ایک بڑا مظاہرہ تھا۔
اس مرحلے میں بھی کوئی شخصیت کلٹ نہیں بنی۔یہ سلسلہ جب عمران خان صاحب تک پہنچا تو اس نے کلٹ کی صورت اختیار کر لی۔ یہ اس کا تیسرا مرحلہ ہے۔بالخصوص تیسری شادی کے بعدخان صاحب کی زندگی میں جو تبدیلی آئی‘ اس نے ان کی سیاسی زندگی پر بھی اثر ڈالا۔خودعمران خان صاحب نے اپنی اس شادی کی ہمیشہ ایک روحانی توجیہ کی۔انہوں نے اپنی تقریروں میں‘ اپنے سیاسی پیغام کو مذہبی لغت میں بیان کر نا شروع کیا۔ جلسہ ہائے عام میں یہ کہا کہ جس طرح رسول اللہﷺ نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا‘آپ میرا پیغام عوام تک پہنچائیں۔ان کے لیے 'مرشد‘ کی اصطلاح کا استعمال عام ہو گیا۔اس کا یہ نتیجہ ہے کہ خان صاحب کو مافوق الفطرت حیثیت دے دی گئی ہے۔عام بشر کو یہ حیثیت دینا ہی فتنہ گری ہے۔ہماری تاریخ اس کی مثالوں سے مملو ہے۔
زمان پارک کا واقعہ بتا رہا ہے کہ فتنہ جنم لے چکا۔ایک مذہبی کالم نگار‘خان صاحب پر قاتلانہ حملے کے بارے میں بارہا یہ بیان کر چکے کہ اسباب کی دنیا میں ان کا محفوظ رہناممکن نہیں تھا۔ان کا بچنا ایک مافوق الاسباب واقعہ تھا۔یہی صاحب جنرل باجوہ کے سپہ سالار بننے کو بھی ایک الہامی فیصلہ قرار د ے چکے۔
میں ابتدا ہی سے اس بارے میں خبر دار کرتا آیا ہوں۔میرے نزدیک اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ عمران خان صاحب سیاسی قیادت کے لیے دوسروں سے زیادہ موزوں ہیں تو وہ اس کا حق رکھتا ہے اور ا س سے کوئی فتنہ پیدا نہیں ہو تا۔یہ سیاسی عمل ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔مگر جب ضروری دینی علم کے بغیر‘ایک شخصیت کو مذہبی خلعت پہنا کر ایک کلٹ بنا دیا جا تا ہے تو پھر وہ ایک فتنہ بن جاتا ہے۔
اگر یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہیں ہے تو میں خان صاحب کو کہوں گا کہ وہ اس کا نوٹس لیں‘اس سے پہلے کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں۔ میں کم از کم ربع صدی سے مذہبی سماجیات کا طالب علم ہوں۔میں جانتا ہوں کہ اس کے دامن میں کتنے فتنے چھپے ہیں۔خان صاحب لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ ہیں‘کسی الہامی سکیم کانہیں۔ وہ بھی عام انسان ہیں جس طرح دوسرے ہیں۔
معاملات یہاں تک پہنچ چکے کہ انہیں عمران خان صاحب خود ہی روک سکتے ہیں۔یہ کسی دوسرے کے بس میں نہیں رہا۔خان صاحب مزید واضح ہونا چاہیں تو گوہر شاہی نامی ایک کردار کے حالات جان لیں جس کوگزرے زیادہ وقت نہیں ہوا۔