سٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا اس کا تعلق بھی آئی ایم ایف کے ساتھ ہے؟
اس سوال کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ سماجی امن اور معیشت کا باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا آسودہ حال معاشرے میں جرائم کم ہوتے ہیں؟ کیا معاشی خوشحالی کا کوئی متبادل انسان کے پاس موجود ہے جو اسے امن دے سکتا ہے؟ معاشی بہتری‘ کیا جمہوریت کے بغیر نہیں آ سکتی؟ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے اَن گنت سوال ہیں جو اہلِ دانش سے جواب چاہتے ہیں۔
علم کی تعریف کو اگر 'معلومات‘ تک محدود رکھا جائے تو اسے دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک دور وہ ہے جب انفس و آفاق کے بارے میں انسانی معلومات محدود تھیں اور علم کو ایک اکائی سمجھا جاتا تھا۔ انسان جس تصورِ علم کا قائل تھا‘ اس کے مطابق کائنات میں وحدت تھی‘ انسان جس کا ایک حصہ تھا۔ انسان کی مرکزیت پر مبنی تصورِ علم بھی کائنات کو انسانی حوالے سے دیکھتا ہے۔ علم‘ طبیعیات‘ سماجیات اور مابعد الطبیعیات میں منقسم نہیں تھا۔ منطق و طبیعیات۔ ادب و سیاسیات‘ ارسطو کو ہر شعبۂ علم میں استاد مانا گیا۔
معلومات میں جب اتنی وسعت آ گئی کہ ان کو کسی ایک دماغ میں سمیٹنا ممکن دکھائی نہ دیا تو علم کو شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کی شاخیں وجود میں آنے لگیں۔ یہاں تک کہ ایک شعبے کا علم دوسرے شعبے کے علم سے غیر متعلق ہو گیا۔ 'تخصص‘ اس درجہ تک جا پہنچا کہ انسانی جسم کے ایک عضو کے ماہر کو آج بہت کم خبر ہے کہ اسی جسم کے کسی دوسرے عضو میں کیا ہو رہا ہے۔ اس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہمیں انسانی سماج میں آنے والی تبدیلیوں کی خبر دے گا۔ انسان نے طویل عرصہ اس تقسیم کو نبھانے کی کوشش کی مگر اب وہ پھر وحدت کی طرف لوٹ رہا ہے۔
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس کائنات کے نظم میں ہم آہنگی ہے۔ اس ہم آہنگی کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ انسان صحت مند رہ سکتا ہے نہ اس کائنات کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیادوں پر استوار ہو سکتا ہے۔ معلومات میں اضافے کو تو روکا نہیں جا سکتا مگر یہ لازم ہو گیا ہے کہ اس کے ساتھ ان معلومات میں وحدت بھی پیدا کی جائے۔ معلومات کی کثرت نے انتشارِ فکر میں اضافہ کر دیا ہے۔ انسان کو ایسے تصورِ علم کی شدید ضرورت ہے جو ان معلومات میں وحدت پیدا کر دے۔
انسان کی جسمانی ساخت کو انسان نے سمجھا تو اس میں تصرف کا دروازہ کھل گیا۔ جینیٹکس کے علم نے ان اخلاقی قدروں کو چیلنج کر دیا جو مذہب کے زیرِ اثر وجود میں آئی تھیں۔ مسیحیت علمِ جدید کے چیلنج سے صدیوں پہلے گزر چکی۔ کلیسا نے اس تعبیر میں بقا تلاش کی کہ مذہب کو شخصی دائرے تک محدود کر دیا جائے۔ یہ بندوبست کسی نہ کسی طرح قائم رہا؛ اگرچہ تخلیق اور ارتقا کی بحث نے اہلِ مذہب کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اب تو بات کہیں آگے جا چکی۔ اسلام سمیت سب مذاہب کو اپنی بقا کے لیے نئے علمِ کلام کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ یہ علمِ کلام متقاضی ہے کہ علم کو ایک وحدت مانا جائے۔ بصورتِ دیگر مذہب کو یہ ماننا پڑے گا کہ اس کا مقدمہ غیر علمی ہے۔
یہی چیلنج سماجی علم کو بھی درپیش ہے۔ سماج کی کوئی تفہیم اب نفسیات‘ معیشت اور موسمی تبدیلیوں کے علم سے بے نیاز ہو کر نہیں ہو سکتی۔ فلسفہ علم کی ایک ایسی شاخ رہا ہے جس نے کم ازکم سماجی علوم کی سطح پر ایک وحدت پیدا کرنے کی کوشش کی؛ تاہم انسانی وجود اور کائنات کے بارے میں انسانی معلومات میں جس طرح اضافہ ہوا‘ فلسفے کے لیے بھی اس کا ساتھ دینا ممکن نہیں رہا۔ 'پوسٹ ماڈرن ازم‘ دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ اس نظمِ کائنات میں کوئی سٹرکچر تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے انسانی فکر بھی اب تجریدی (Abstract) ہے۔ دنیا میں حق یا حقیقت نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ ہر کسی کا اپنا 'حق‘ ہے اور اس کثرت میں کسی وحدت کو تلاش کرنا عبث ہے۔ یہ شاید انسان کا اعترافِ عجز ہے کہ وہ موجود علم میں کوئی وحدت تلاش نہیں کر سکتا۔
اس پس منظر کے ساتھ‘ آئیے اس سوال کی طرف جو کالم کی ابتدا میں اٹھایا گیا ہے۔ سٹریٹ جرائم میں اس لیے اضافہ ہو رہا ہے کہ لوگ شدید معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کے پاس ان کا کوئی حل نہیں۔ گیلپ سروے بتا رہا ہے کہ دس میں سے نو پاکستانی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں کہ وہ مسلسل مہنگائی میں اپنی آمدن اور اخراجات میں کیسے توازن پیدا کر سکیں گے۔ گیلپ ہی کے ایک دوسرے سروے کے مطابق 86فیصد لوگوں نے اس خواہش ہی کو مار دیا ہے کہ وہ گاڑی یا موبائل فون جیسی قیمتی اشیا خریدیں۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کوٹہ موجود ہے مگر حج کے لیے جانے والا موجود نہیں۔ بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ سماجی علوم کے ماہرین متفق ہیں کہ اس طرح کے حالات سماجی امن کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
اس مقدمے کو مان لیا جائے تو سماجی امن کے لیے معیشت کو سنوارنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اب معیشت کی بحالی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کے تابع ہے۔ امریکہ سے تعلقات خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے اور خارجہ پالیسی انٹر نیشنل ریلیشنز کا موضوع ہے۔ یوں ایک شعبۂ حیات‘ زندگی کے دوسرے شعبوں سے جڑا ہوا ہے۔ اگر علم میں وحدت نہیں ہو گی تو ایسے مسائل کیسے حل ہوں گے؟
علمی تخصص کے دور میں بھی اہلِ علم‘ وحدتِ علم کی اہمیت کے منکر نہیں تھے۔ کبھی درکھیم نے خودکشی کے اسباب کو سمجھنا چاہا۔ کبھی فرام نے 'ایک صحیح العقل معاشرے‘ کے خدوخال تلاش کیے۔ کبھی میکس ویبر نے پروٹیسٹنٹ اخلاقیات اور سرمایہ دارانہ نظام کے باہمی تعلقا ت کو سمجھنا چاہا۔ یہ علمی کاوشیں بہت قابلِ قدر ہونے کے باوجود آج کے مسائل کو سمجھنے کے لیے کفایت نہیں کرتیں۔ جب ترقی یافتہ دنیا کا یہ حال ہے تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟
میں ا س سوال پر غور کرتا ہوں تو ایک بند گلی میں آ کھڑا ہوتا ہوں۔ اس سماج اور ملک کو بچانے کے لیے جیسے ذہنی سرمایے کی ضرورت ہے‘ اس کی موجودگی کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اربابِ حل و عقد کی بے مائیگی تشویش ناک ہے۔ عامۃ الناس سے کیا گلہ کریں کہ ان کے پاس تقلید کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں۔ مذہب ہو یا سیاست‘ انہیں تو موجود ہی پر اکتفا کرنا ہے۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ امید باقی نہیں ہے۔ عوام کو اب بھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ د نیا میں الہ دین کا چراغ پایا جاتا ہے جسے رگڑنے سے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔
آج معیشت کی بحالی کو پہلی ترجیح مان کر ہمیں کوئی حکمتِ عملی تشکیل دینا ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مذہبی علم ہو یا خارجہ پالیسی۔ اہلِ سیاست ہوں یا ریاستی اداروں کے ذمہ داران‘ جب تک ان کے درمیان وحدتِ عمل نہیں ہو گی‘ جو صرف اس نکتے کے گرد گھومتی ہو‘ ہم اپنے سماج کو فساد سے نہیں بچا سکتے۔ سٹریٹ کرائم جب اس طرح بڑھنے لگیں کہ انتظامیہ بے بس دکھائی دے تو پھر اس صورتِ حال کا اگلا مرحلہ خانہ جنگی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ملک میں کسی کے لیے کوئی پناہ گاہ باقی نہیں رہی۔ نہ گھر نہ طاقت کا کوئی نام نہاد مرکز۔