یہ سلسلۂ واقعات کیا ہے؟کیا 'عمران خان پراجیکٹ‘کااختتامی باب‘رقم کیاجارہا ہے؟یہ خدمت‘کیا وہی لوگ سرانجام دے رہے ہیں جنہوں نے اس پراجیکٹ کا ابتدئی باب لکھا تھا؟کیا دائرے کا سفرابھی تمام نہیں ہوا؟
عرصہ ٔدراز سے معاملہ یہ ہے کہ جب بھی سیاستِ حاضرہ پر کچھ لکھنے کا ارادہ کرتا ہوں‘مولانا مودودی کاایک جملہ‘منیر نیازی کے شعر کی طرح سامنے آ کھڑا ہو تا ہے: 'غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔‘منیر نیازی کا شعر وہی ہے جسے مجھے سمیت کالم نگار اتنی بار دہرا چکے کہ پڑھنے والوں کو یقیناً ازبر ہو گیا ہوگا۔وہی جس میں شاعر کوایک دریا کے پار اترنے کے بعد بھی‘ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ ایسے جملوں اور شعروں کا بار بار یاد آنا‘اس کا اظہار ہے کہ دائرے کا سفر جاری ہے۔ابھی اس سے نجات کی گھڑی نہیں آئی۔ ابھی صراطِ مسقیم کا سفر شروع نہیں ہوا۔غلطی مسلسل انڈے بچے دے رہی ہے۔ان کی تعداد روز افزوں ہے۔
یہ سلسلہ مدت سے جاری ہے کہ دانے بکھیر دیے جاتے ہیں اور پھرایک جال پھیلادیا جاتا ہے۔پرندے اڑ اڑ کر اس جال میں پھنسنے لگتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کو پرندوں کو جال کا علم ہے۔'دانوں‘ کی کشش مگر اتنی ہے کہ انہیں اسیری بھی گوارا ہے۔چند برس بعد صیاد کا دل بھر جاتا ہے تووہ جال ا ٹھا دیتا ہے۔پرندے اڑنے لگتے ہیں۔ان کی پرواز اشارہ ہوتا ہے کہ موسم بدل گیا ہے۔ اس دوران میں یہ پرندے قلبِ ماہیت سے کچھ اس طرح سے گزرتے ہیں کہ انہیں اسیری ہی میں لذت ملتی ہے۔رہائی کے بعد بھی‘ان کی نظر صیاد کے اشارے کی طرف رہتی ہے کہ اب کس نئے جال میں پھنسنا ہے۔آج پہلا جال اٹھایاجا چکا۔نیا جال کہاں بچھا ہے؟یہ شاید ابھی کسی کو معلوم نہیں۔کیا ممکن ہے کہ اب کوئی جال نہ بچھایا جا ئے؟اس سوال کا جواب تلاش کرتاہوں تو مولانا مودودی کا جملہ یاد آتا ہے اور منیر نیازی کا شعر بھی۔
تحریکِ انصاف‘تحریکِ طالبان نہیں ہے۔تجزیہ کرنے والے دونوں کا ماخذایک بتاتے ہیں۔یہ بات اگر درست ہو تو بھی دونوں ایک نہیں ہیں۔تحریکِ طالبان مسلح جد وجہد پر یقین رکھتی ہے۔وہ بندوق کو تبدیلی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔تحریکِ انصاف کا معاملہ یہ نہیں ہے۔یہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر متحرک رہی ہے۔کم وبیش چارسال مرکز میں اور دس سال ایک صوبے میں‘ برسرِاقتداررہی ہے۔یہ اقتدار‘اُسے جس نے بھی دلوایا‘اس کے لیے ووٹ ہی کا راستہ اختیار کیا گیا۔اس کے مفادات 'سٹیٹس کو‘ سے وابستہ ہیں۔ عمران خان صاحب کی افتادِ طبع اور نفسیاتی ساخت‘مگرایک سیاستدان کی نہیں ہے۔اس نے ایک سیاسی جماعت کی ہیت کوتدریجاً تبدیل کر دیا‘جسے وہ ناتراشیدہ نوجوان سمجھ نہیں سکا‘جو خان صاحب کی گرفت میں تھا۔خان صاحب نے پارٹی کی جنس تبدیل کرتے ہوئے‘اسے کوئی درمیانی شے بنا دیا۔آج تحریکِ انصاف‘ سیاسی جماعت اور مسلح تنظیم کے مابین ایک تیسری جنس ہے۔
خان صاحب بظاہر انتخابات کے ذریعے تبدیلی کے قائل ہیں لیکن ایک پاپولسٹ کی طرح‘وہ تبدیلی کے لیے جمہوری طریقوں کو کافی نہیں سمجھتے۔ان کی سوچ فسطائی ہے۔ان کا خیال ہے کہ ریاست کو ہر ذریعے سے دباؤ میں لاکر‘اُسے اپنی شرائط منوانے پر مجبور کر دیا جائے۔اب ایک طرف انہوں نے سیاسی جماعت کی طرح جلسے جلوس کا راستہ اختیار کیا اور دوسری طرف 'ٹائیگر فورس‘ کے نام پر نوجوانوں کا ایک گروہ بھی منظم کیا جو ان کو مرشد مانتا اور ان کے ہر حکم کو بجا لانا فرض سمجھتا ہے۔واقعات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ایسا گروہ ہے جو خان صاحب کے سحر میں مبتلا ہے اور انہیں ملک ونظریے سمیت ہر شے سے بڑا سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں وہ عقلِ کل بھی ہیں اور پرہیزگاری کا پہاڑ بھی۔اس کے ساتھ معیارِ حق بھی۔یہ طبقہ پیدا کرنے کے لیے‘انہوں نے ''رحونیت‘‘ کو جس طرح استعمال کیا‘وہ ہماری سیاسی تاریخ میں ایک نیا تجربہ ہے۔ سیاست کے لیے مذہب کا استعمال پہلے سے جاری ہے لیکن اس کی نوعیت فکری یا جذباتی تھی۔تصوف کا ٹچ جس کامیابی کے ساتھ خان صاحب نے دیا‘ یہ سیاست میں ایک نیا باب ہے۔
عمران خان صاحب کی ذات‘ نرگسیت کا شاہکار ہے۔نرگسیت کا لازمی نتیجہ فسطائیت ہے۔جب انہیں یہ خیال ہوا کہ ان کے سرپرستوں نے ان کے حق میں سیاسی انجینئرنگ سے توبہ کر لی ہے تو انہوں نے طاقت سے ریاست کو دباؤ میں لاناچاہا۔اس کے لیے سیاسی ونگ اور ٹائیگرز فورس کو بیک وقت متحرک کیا گیا۔سیاسی ونگ کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔ان کی ہر سیاسی مہم ناکام ہوئی۔اب انہوں نے دوسرے ونگ کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔اب تک کے میسرشواہد کے مطابق‘ انہوں نے پہلے سے یہ طے کررکھاتھاکہ اپنی گرفتاری کو اپنی حکمتِ عملی میں نئے مرحلے کا نقطہ آغاز بنا دیں گے۔اس طرح ان کی سیاست کی باگ ٹائیگرز فورس کو منتقل ہوگئی۔
اس سے ان کا وہ نیا چہرہ سامنے آیا جو زیرِ نقاب پہلے بھی دکھائی دے رہا تھا مگر کم لوگوں کو۔اس نے عوامی سطح پرتحریکِ انصاف کی ایک نئی صورت متعارف کرائی۔ان کے وابستگان‘جو سیاسی تحریکِ انصاف سے تعلق رکھتے ہیں‘وہ بھی اس فرق کو نہیں سمجھ سکے۔ان کا اب بھی یہ خیال ہے کہ خان صاحب انتخاب ہی تو مانگ رہے تھے۔ان کو مطمئن کرنے کے لیے یہ افسانہ گھڑا گیا کہ نو مئی کے حملے کسی اور نے کروائے ہیں۔دوسری طرف ریاست کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہمیں موقع ملا تو ہم ووٹ کے بجائے‘تبدیلی کو کوئی دوسرا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔یہی بات‘ تحریکِ انصاف کو سیاسی جماعت سے دور کرتی اور ایک مسلح گروہ سے قریب کر دیتی ہے۔ اس کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ ٹائیگر فورس‘ ریاست کے فیصلہ سازافراد کے گھرں تک پہنچ گئی ہے اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہو نے لگی ہے۔
خان صاحب کے اس نئے روپ نے ریاست اور سیاسی جماعتوں کو اس نتیجے تک پہنچایاہے کہ اس سوچ سے نمٹنا‘تنہا سیاسی جماعتوں کے بس کا کام نہیں۔اس کے لیے ریاستی قوت کا استعمال ناگزیر ہے۔اس کے ساتھ‘اہلِ سیاست اس مخمصے میں بھی مبتلا ہیں کہ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت بھی ہے ا ور بہت سے لوگ اسی حوالے سے اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ان کو کیسے مطمئن کیا جائے؟اسی لیے نوازشریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب جیسے بالغ نظر سیاستدان تحریکِ انصاف پر پابندی کے حامی نہیں۔ان کا مخمصہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس وہ قوت نہیں ہوتی جو تشدد پر مُصر کسی گروہ سے نمٹ سکے۔
اسے وقت کا جبر کہیں یا کوئی اور نام دیں‘اس وقت تحریک انصاف اور ریاست ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہیں۔ اس کاناگزیر نتیجہ سیاسی معاملات میں مقتدرہ کے کردار میں اضافہ ہے۔اسی کو دائرے کا سفر کہتے ہیں۔'عمران پراجیکٹ‘ کا پہلا باب جنہوں نے لکھا تھا‘اب آخری باب بھی انہوں نے ہی لکھنا ہے۔گویا مقتدرہ کا کردار کم ہونے کے بجائے‘بڑھ گیا ہے۔ پس ثابت ہواکہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ ایک دریا کے بعد‘ایک دوسرادریا ہمارے سامنے ہے۔خان صاحب کی فسطائی سوچ کا راستہ روکا نہیں جاتا تو تباہی ہے اور اسے روکنے کے لیے مقتدرہ کا سیاسی کردار بڑھتا ہے تویہ جمہوریت کی نفی ہے۔
قابلِ عمل راستہ وہی ہوگا جس کی منزل سیاسی استحکام ہو۔یہ راستہ کون ساہے؟اس کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہے۔