شنیدہے ایک نئی تحریکِ انصاف وجود میں آرہی ہے۔
نیاپاکستان بناتے بناتے‘ قافلہ ٔاہلِ شوق نے ایک نئی تحریکِ انصاف کی تشکیل کے لیے اسباب فراہم کر دیے۔گویا ان کے ساتھ وہی معاملہ ہوا جوکولمبس کے ساتھ ہو ا تھا۔کہتے ہیں وہ انڈیا دریافت کرنے نکلا تھا اور امریکہ دریافت کر بیٹھا۔مورخ اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ یہ اچھا ہوا یا برا؟تادمِ تحریر کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا۔موعود تحریکِ انصاف کے بارے میں بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔تاہم ان اسباب پر غور ضرور کیا جا سکتا ہے جو اس کا باعث بن رہے ہیں۔اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ نئی جماعت کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں؟
اس باب میں دو آرا نہیں کہ تحریکِ انصاف‘جوہری طور پر عمران خان صاحب کے مداحوں کا ایک کلب ہے۔خان صاحب نے اپنی محنت سے‘اپنی ذات کے ساتھ اس وابستگی کوسیاسی عصبیت میں بدل ڈالا۔ جب اقتدار کے حصول کا امکان پیدا ہوا توابنائے دہر بھی اس قافلے میں شامل ہو گئے۔اس طرح آج تحریکِ انصاف متنوع طبقات کی نمائندہ بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مشکل وقت میں کون سا طبقہ یا طبقات ہیں جو 'نئی تحریکِ انصاف‘ کا حصہ بنیں گے؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ایک اور پہلو کوبھی سامنے رکھنا ہو گا۔ تحریکِ انصاف کو ایک فطری سیاسی جماعت کے بجائے‘ایک کلٹ کے خطوط پر منظم کیا گیا ہے۔ مداحوں کے کلب کو ایک کلٹ میں بدل دیا گیا۔ کلٹ میں‘بارہا بیان ہوا کہ ایک فرد معیارِ حق ہے اوراس کے فرامین واقوال اور طرزِ عمل کو عقلِ عام یا کسی دوسرے مروجہ مذہبی‘اخلاقی یا سیاسی معیار پرنہیں پرکھا جا سکتا۔کسی شہادت یا دلیل کے غلط ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ 'کلٹ لیڈر‘ کے خلاف ہے۔یہی سبب ہے کہ آج تک خان صاحب کے خلاف جو شواہد پیش کیے گئے‘ان کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔کلٹ میں ایسے دلائل پر غور کرنا ہی ممنوع ہے۔
میں یہ نکتہ تکراراور اصرار کے ساتھ اس لیے بیان کر تا ہوں کہ خان صاحب کی قیادت میں جنم لینے والے اس سیاسی عمل کو درست طور پر سمجھا جائے اور پی ٹی آئی کو کسی عام سیاسی جماعت پرقیاس نہ کیا جا ئے۔میں اس کے حق میں ان گنت شواہد پیش کر سکتا ہوں کہ اس طبقے کی رائے خان صاحب کے اتباع میں مسلسل تبدیل ہو تی رہی۔انہوں نے ایک ریاستی ادارے اور اس کے سربراہ کے احترام کے لیے کہا تو یہ طبقہ ان کا احترام کر نے لگا۔خان صاحب نے اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کی تویہ طبقہ اس کے لیے سراپأ نفرت بن گیا۔حیرت انگیز طور پر یہ تبدیلی دنوں میں آئی۔فطری سیاسی عمل کے نتیجے میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔
میں اپنی قومی زندگی سے اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔جماعت اسلامی نے طویل عرصہ اس مقدمے کی آبیاری کی کہ پیپلزپارٹی سب سے بڑی فکری اور سیاسی برائی ہے۔سوشلزم اور اسلام کے پس منظر میں اٹھنے والا یہ فکری قضیہ ایک سیاسی آویزش میں ڈھل گیا اورجماعت اسلامی کے حلقے میں پیپلزپارٹی کے بارے میں اجماع ہو گیا۔جماعت نے نوازشریف صاحب کی قیادت میں قائم ہونے و الی مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں کوچھوٹی برائی قرار دیتے ہوئے‘ان کے ساتھ مل کر‘ایک بڑی برائی‘پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد بنائے۔ 1993ء میں قاضی حسین احمد صاحب نے جماعت کا سیاسی رخ یک دم تبدیل کرنا چاہا اور جماعت اسلامی کے متاثرین سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو یکساں برائی تسلیم کر دیں۔جماعت کے وابستگان نے خلافِ روایت اپنے امیر کی بات کوزبانِ حال سے مسترد کردیا۔
یہ ایک سوچنے سمجھنے والے گروہ کا فطری ردِ عمل تھا۔یہاں قاضی صاحب کے نقطہ نظرکی صحت زیرِ بحث نہیں۔انہوں نے ذی شعور انسانوں کے ایک گروہ سے یہ توقع باندھی تھی کہ وہ محض ان کے کہنے سے‘ اُس سوچ سے دست بردار ہوکر‘جو عشروں سے مستحکم کی جارہی تھی‘چند دنوں میں ایک نئی سوچ کو اپنا لے گا۔ایسی توقع روبوٹس سے ہو سکتی ہے یا کسی کلٹ سے۔ کلٹ میں کسی کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔وہ مائع کی طرح اس صورت کو اختیارکرتا چلا جا تا ہے جو کلٹ لیڈر اپناتا ہے۔وہ یہ سوال نہیں کرتا کہ جنرل باجوہ جو جمہوریت کا سب سے بڑاحامی تھا‘اچانک جمہوریت دشمن کیسے ہوگیا؟یا 'رجیم چینج‘ کا منصوبہ‘امریکی سے چشم زدن میں پاکستانی کیسے ہوگیا؟
کلٹ اور سیاسی جماعت کا یہ فرق سمجھنا‘اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے جوکالم کی ابتدا میں اٹھایا گیا ہے۔یہ طبقہ عمران خان کے ساتھ ہے۔اس کو سیاست یا ملک و قوم کے مستقبل سے کوئی دلچسپی ہے نہ اس کی سمجھ۔اگر نئی تحریک انصاف بنتی ہے تو اسے اس طبقے کی حمایت حاصل نہیں ہو گی۔اگر خان صاحب کی سیاست ختم ہو تی ہے تویہ طبقہ سیاست سے دور ہو جائے گا‘نئی جماعت میں نہیں جائے گی۔سوال یہ ہے کہ پھرنئی جماعت میں کون شامل ہو گا؟
اس میں ایک تو وہ لوگ ہوں گے جنہیں خان صاحب سے ذاتی شکایات ہیں۔جن کو خان صاحب نے استعمال کیااور جب اقتدار ملا توان کی سرمایہ کاری کی نسبت سے انہیں حصہ نہیں دیا۔ان میں جہانگیر ترین اور علیم خان صاحب سرِفہرست ہیں۔ان کے ساتھ وہ کردارہو سکتے ہیں جو سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن دیانت داری سے عمران خان صاحب سے مایوس ہیں۔پھر وہ ابن الوقت ہوں گے جو کروڑوں روپے دے کر پی ٹی آئی ے ٹکٹ خرید رہے تھے۔انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ جماعت مستقبل قریب میں تو اقتدار میں نہیں آ سکتی۔ان کو یہ گمان ہو گا کہ ریاست ممکن ہے اس نئی جماعت کی سرپرستی کرے اور یوں ان پر اقتدار کے در وازے کھل جا ئیں۔ان کے علاوہ وہ اہلِ سیاست اس جماعت میں شامل ہوں گے جو کسی وجہ سے (ن) لیگ یا پیپلزپارٹی میں نہیں جا سکتے۔
پاکستان میں سیاسی جماعت کی کامیابی کے لیے چار یا چار میں سے کم ازکم کسی ایک سبب کا ہونا ضروری ہے۔ایک نظریہ جس کی محبت سیاسی قوت فراہم کرتی ہے۔دوسرا سیاسی عصبیت جو شخصی ہو سکتی ہے ا ور گروہی بھی۔تیسرا سیاسی کلٹ۔چوتھا مقتدرہ کی سرپرستی۔ نئی تحریکِ انصاف کو پہلے تین اسباب تو میسر نہیں۔آخری سبب کے بارے میں‘میں کچھ نہیں جانتا۔اگر یہ سبب موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک نئی قاف لیگ 'زیرِ تعمیر‘ ہے۔
اگرنئی سیاسی جماعت کا اثاثہ یہی ہے تواس کی کامیابی کے بارے میں کسی پُر امیدی کا اظہار کرنا مشکل ہے۔ان اسباب کی بنیاد پر کوئی جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تحریکِ انصاف اصلاً خان صاحب کے مداحوں کی جماعت ہے۔اس کا مقدر وہی ہے جو خان صاحب کا نصیب ہے۔ مقتدرہ کی حمایت بھی‘ اب سیاسی اثاثہ نہیں رہا۔ تاہم اگر مقتدرہ کی سرپرستی میں ایک نئی سیاسی جماعت بنتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاست دائرے میں گھوم رہی ہے۔گویاہم آج بھی وہیں ہیں‘ جہاں برسوں پہلے تھے۔
نئی سیاسی جماعتیں اگر فطری طریقے پر بنیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔سیاسی عمل اگر غیر سیاسی قوتوں کی خواہشات اورمفادات کے تابع ہوجائے تو یہ سیاست کے لیے نیک شگون ہے نہ جمہوریت کے لیے۔