اکیسویں صدی میں 'انقلاب‘ ایک متروک تصور ہے۔ حیرت یہ ہے کہ 'سیاسی شعور‘ کے نام پر ہمارے ہاں اس ازکارِ رفتہ دوا کی خریدو فروخت آج بھی جاری ہے۔
سیاست میں یہ اصطلاح اُن نظریاتی تحریکوں کی عطا ہے جنہوں نے انیسویں صدی میں تبدیلی کا ایک رومانوی تصور متعارف کرایا۔ موت کو گلیمرائز کیا۔ جذبات برانگیخت کرنے والا لٹریچر لکھا۔ یہ تحریکیں اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔ انقلاب کے نام پر انسانوں کے ساتھ جو ظلم ہوا‘ اس کے بیان کا یہ موقع نہیں۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے‘ نظریاتی تحریکوں نے بھی انقلاب کے تصور سے توبہ کی۔ یہ دراصل جمہوریت کے نام پر آنے والی تبدیلی کا بدیہی نتیجہ تھا۔
عہدِ جدید کی سب سے بڑی عطا انسانی آزادی کا تصور ہے۔ یہ مان لیا گیا کہ انسان پر اس کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت نہیں کر سکتا۔ اس سے پہلے یہ فیصلہ طاقت کرتی تھی۔ لوگ جبر سے اقتدار پر فائز ہوتے اور انہیں جبر ہی سے ہٹایا جا سکتا تھا۔ جبر سے ہٹانے کے اس عمل کو انقلاب کا نام دیا گیا۔ انسانوں میں سے کچھ لوگ اُٹھے جنہوں نے اقتدار پر قابض طبقات کو چیلنج کیا اور یہ کہا کہ وہ انسانوں کو ان کی سلطانی سے آزاد کرکے‘ سلطانیٔ جمہورکی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ کام مگر طاقت ہی سے ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انسانوں کے جتھے تشکیل دیے جائیں جو اہلِ اقتدار کی طاقت کا جواب طاقت سے دیں۔ جب طاقت ہی فیصلہ کن ہے تو پھر اہلِ جبر کے خلاف طاقت کو بروئے کار آنا ہو گا۔
یہ مان لیا گیا کہ اقتدار تک رسائی کا واحد راستہ طاقت ہے۔ بادشاہ ہو یا عوام‘ جو بھی اقتدار تک رسائی چاہتا ہے‘ اسے قوت ہی استعمال کرنی ہوگی۔ فرق اگر تھا تو مقصد کا تھا‘ طریقہ کار کا نہیں۔ عوام یا محکوم طبقے کی طرف سے طاقت کے استعمال کو انقلابی جدوجہد کا نام دیا گیا۔ انقلابی لیڈروں نے عوام پر واضح کیا کہ انقلاب خون بہائے بغیر نہیں آ سکتا۔ ماؤ ہو یا لینن‘ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ہوں یا اسامہ بن لادن‘ سب انقلابی اسی کے قائل تھے۔
جمہوریت نے اقتدار تک رسائی کا ایک پُرامن طریقہ متعارف کرایا۔ یہ انسانی کے فکری سفر میں سب سے اہم سنگِ میل ہے۔ ایسا سنگِ میل کہ عالمِ انسانیت نے یہاں پڑاؤ ڈالتے ہوئے‘ اسے منزل مان لیا۔ کسی ذی عقل کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ کم ازکم نظری سطح پر اس کا انکار کر سکے۔ خونریزی سے انسان کی فطرت اِبا کرتی ہے۔ وہ جنگ کو بادلِ نخواستہ ہی گوارا کر سکتا ہے۔ اس لیے اب اقتدار کے لیے جنگ ایک متروک تصور ہے۔ جمہوریت انسانی آزادی ہی کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقتدار کی کشمکش میں طاقت کا استعمال ختم ہو گیا۔ یا انسان ہر جگہ آزاد ہو گیا۔ پسماندہ معاشروں میں انسان اب تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ استحصالی طبقات آج بھی موجود ہیں جو انسانوں کو مذہب‘ روایت‘ معیشت اور بندوق کے زور پر اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں۔ یہ غلامی مقامی ہے اور عالمی بھی۔ خیر کی حمایت پر انسانوں کا ہمیشہ اتفاق رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا سے شر کا خاتمہ ہو گیا۔ شر موجود ہے لیکن کوئی مہذب انسان اس سے وابستگی کا اعتراف نہیں کر سکتا۔ اسی طرح آزادی پر اتفاق ہونے کے باوصف‘ غلامی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتی ہے۔
دورِ جدید نے البتہ لوگوں کو غلام بنانے کے اسباب کم کر دیے ہیں۔ ترقی پسند معاشرے‘ ترقی پذیر معاشروں کی نسبت کہیں بہتر مقام پرکھڑے ہیں۔ پسماندہ معاشروں میں آج بھی پیری مریدی اور ذات پات کے نظام موجود ہیں۔ اسی طرح سیاسی اقتدار پر بھی زورآوروں کا تسلط ہے۔ تاہم کوئی یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ کھل کر طاقت کو فیصلہ کن مان لے۔ جو طاقت کا استعمال کرتا ہے‘ اسے بھی حیلوں بہانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ انسانوں کو جبر اور ظلم سے نکالنے میں مذہب نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے جب انسانی زندگی کو اخلاقیات کے تابع کیا تو حصولِ اقتدار کے عمل سے لے کر جنگ تک‘ ہر انسانی فعل کو اخلاقی اصولوں کا پابند بنا دیا۔
جب یہ مان لیا گیا تو اقتدار تک رسائی کے لیے پُر امن ذرائع ہی اختیار کیے جا سکتے ہیں تو بدیہی طور پر کسی کو ہٹانے کے لیے بھی تشدد یا طاقت کا استعمال روا نہیں رہا۔ یوں انقلاب کا تصور خود بخود متروک ہو گیا۔ فکری پسماندگی کا شکار معاشروں کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ انسان کے فکری سفر میں آنے والے اس اہم پڑاؤ کا ادراک نہیں کر سکے۔ ان معاشروں میں اب بھی انقلابی شاعری کی جاتی ہے اور انقلاب کے نعروں کو پذیرائی ملتی ہے۔ یہاں اب بھی یہ مانا جاتا ہے کہ ہیجانی جتھے منظم کرکے‘ طاقت کے مراکز پر قبضہ ممکن ہے اور اقتدار تک رسائی کا یہ بھی ایک جائز ذریعہ ہے۔
9مئی کو پاکستان میں بھی ایک گروہ نے اسی 'سیاسی شعور‘ کا مظاہرہ کیا۔ یہ خیال کیا گیا کہ تشدد سے طاقت کے مراکز میں اضطراب اور نتیجتاً بغاوت پیدا کرکے اقتدار تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ حکمت عملی ریاست اور جمہوریت‘ دونوں کی ناقص تفہیم کا نتیجہ تھی۔ اس سے اقتدار کیا ملتا‘ وہ قوتیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئیں جو طاقت کے بل پر اقتدار پر قابض تھیں اور جمہوری عمل کے تسلسل نے‘ جو بظاہر علامتی ہی تھا‘ ان کو بڑی حد تک کمزور کر دیا تھا۔ ان کی وجہ سے سیاسی جماعتیں‘ پھر بادلِ نخواستہ ان قوتوں کی اتحادی بن گئیں‘ سیاست کو جن سے آزاد ہونا تھا۔ میں نے چند برس پہلے لکھا تھا کہ عمران خان صاحب کے فطری اتحادی اہلِ سیاست ہیں‘ وہ نہیں جن پر وہ اس وقت تکیہ کیے ہوئے تھے۔ اگر انہیں سیاست میں زندہ رہنا ہے تو انہیں اس راہ پر چلنا ہوگا۔ وہ جمہوریت میں انقلابی حکمتِ عملی نہیں اپنا سکتے۔ انتخابات کے لیے تشدد سے راستہ ہموار نہیں کیا جا سکتا۔
جمہوریت اور پاپولزم میں جو چیز حدِ فاصل قائم کرتی ہے‘ وہ اسی بات کا شعور ہے کہ طاقت اور تشدد سے تبدیلی لانے کی کوشش کا ناگزیر نتیجہ خانہ جنگی‘ فساد اور غیرجمہوری قوتوں کی مضبوطی ہے۔ فسطائی ذہن عوامی حمایت کو ووٹ کے بجائے تشدد کے راستے پر ڈال کر اسے ضائع کر دیتا ہے۔ تشدد سے کبھی خیر جنم نہیں لے سکتا۔ مذہب جیسی خیر کی قوت بھی‘ اس وقت اپنی افادیت کھو دیتی ہے جب اہلِ مذہب تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ عمران خان صاحب اہلِ سیاست کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ ملک میں ایک بار پھر 'میثاقِ جمہوریت‘ کا احیا کیا جائے اور تحریکِ انصاف اس کا حصہ بنے۔ آئین کے بعد‘ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے اہم جمہوری دستاویز ہے۔ یہ میثاق ملک میں اقتدار تک رسائی کے عمل کو ووٹ کے تابع بناتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خان صاحب اگر سیاسی عمل میں شریک ہو کر اقتدار تک پہنچتے ہیں تو تمام سیاسی جماعتیں انہیں قبول کر لیں گی۔ آخر 2018ء میں بھی ان جماعتوں نے انہیں قبول کیا تھا‘ اس کے باوجود کہ یہ اقتدار عوام کے بجائے کسی اور کی عطا تھی۔ میں کبھی یہ نہیں سمجھ سکا کہ جو شخص پرویز الٰہی صاحب اور ایم کیو ایم سے اتحاد کر سکتا ہے‘ وہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں بھی برداشت کرنے کو کیوں تیار نہیں؟
عمران خان صاحب کو اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ انقلاب کے فرسودہ تصور سے نجات حاصل کریں۔ خود بھی جمہوری بن کر سوچیں اور اپنے مداحوں کو بھی یہی تلقین کریں۔ ہیجان کا منطقی انجام وہی ہو سکتاہے‘ وہ اِس وقت جس سے دوچار ہیں۔