سیاسی جماعتیں خود رو پودوں کی طرح نہیں اُگتیں۔ پہلے بیج بویا جاتا ہے۔ پھر پانی دینا پڑتا ہے۔ برگ و بار آنے تک رکھوالی کرنا پڑتی ہے۔ سرد گرم موسموں سے بچانا پڑتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں اُتر جاتی ہیں اورشاخیں ہوا میں جھولنے لگتی ہیں۔ ایک مرحلہ اس کے بعد بھی ہے۔ تیز آندھیوں کے سامنے اسے استحکام کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ محض نام رکھ دینے سے پارٹی میں استحکام نہیں آتا۔
مزید یہ کہ سیاسی جماعت کسی عصبیت ہی سے قائم رہ سکتی ہے۔ یہ عصبیت شخصی ہو سکتی ہے‘ گروہی ہو سکتی ہے اور نظریاتی بھی۔ بعض اوقات موجود عصبیت ایک سیاسی تنظیم میں ڈھل جاتی ہے۔ جیسے مہاجر عصبیت موجود تھی جس نے ایک سیاسی جماعت ایم کیوایم کو جنم دیا۔ کچھ اور پیچھے جائیے تو موجود مسلم عصبیت نے مسلم لیگ کو وجود بخشا۔ بعض اوقات یہ عصبیت بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ایک جماعت بناتا ہے۔ لوگ اس نظریے سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور یوں آہستہ آہستہ ایک قابلِ ذکر عصبیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال جماعت اسلامی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جب اس کی بنیاد رکھی تو پورے برصغیر سے پچھتر افراد ہی میسر آ سکے۔ یہ بھی برسوں کی فکری جد وجہد کے نتیجے میں۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ ایک عصبیت بن گئی۔ ایک نظریاتی عصبیت۔
پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کی کمزوری کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں سیاسی عمل فطری بنیادوں پر آگے نہیں بڑھا۔ اگر کوئی گروہ ان مراحل سے گزر کر سیاسی جماعت بنتا یا اس سے قریب تر ہو جاتا ہے تو ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں جو اس عمل کو روک دیتے ہیں۔ جو عناصر یہ حالات پیدا کرتے ہیں‘ وہ نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کرتے ہیں۔ اسے کنگز پارٹی کہا جاتا ہے۔ یہ کنگز پارٹی اکثر کنگ ہی کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ اگر وہ کنگ کی گود سے اُتر کر اپنی قوت سے اڑان بھرنا چاہتی ہے تو اس کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔
اگر ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہوتیں تو اہلِ سیاست خود بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں جب موقع ملا انہوں نے سیاسی جماعت بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ہمارا اجتماعی مزاج یہ ہے کہ ہم ہیرو پرست ہیں۔ یہاں شخصی عصبیت گروہ بندی کی اساس بنتی ہے۔ یہ اشخاص کی ذمہ داری ہے کہ وہ شخصی عصبیت کو ایک گروہی یا جماعتی عصبیت میں بدل دیں۔ وہ ایسا نہیں کرتے۔ وہ پارٹی کے نام پر فین کلب بناتے ہیں۔ جب مشکل وقت آتا ہے تو فین کلب ایک سیاسی جماعت کا متبادل ثابت نہیں ہوتا۔ نواز شریف صاحب نے مسلم لیگ کو سیاسی جماعت نہیں بنایا۔ یوں جب انہیں ایک احتجاجی تحریک اٹھانا پڑی تو انہیں مایوسی ہوئی۔ عمران خان صاحب کا معاملہ تو چار ہاتھ آگے تھا۔ انہوں نے فین کلب کو پارٹی کے بجائے کلٹ میں بدل دیا۔ اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ ان پر مشکل وقت آیا تو وہ تنہا رہ گئے۔
تاریخ ہمارے ہاں خود کو جس تیزی کے ساتھ دہراتی ہے‘ دنیا میں شاید ہی اس کی نظیر مل سکے۔ سچ پوچھئے تو ہماری تاریخ ہی تاریخ ہے۔ نہ حال ہے نہ مستقبل۔ حال بھی ماضی ہے اور مستقبل بھی ویسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہم انہی تجربات سے ایک بار پھر گزر رہے ہیں جو پہلے بار ہا کیے جا چکے۔ نتائج بھی ظاہر ہے کہ پہلے سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ گویا دائرے کا سفر جاری ہے۔
یہ معاملہ تو طاقت کے مراکز پر قابض لوگوں کا ہے۔ عوام کہاں کھڑے ہیں؟ کیا وہ کسی نئی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ کیا عوام کے کسی حلقے نے ایک نئی سیاسی جماعت کا مطالبہ کیا ہے؟ مجھے تو کہیں اس طرح کی ضرورت دکھائی نہیں دی۔ لوگ پہلے سے موجود جماعتوں سے اظہارِ ناراضی کرتے ہوئے ملتے ہیں مگر کہیں یہ خواہش ابھرتی ہوئی نہیں دیکھی گئی کہ عوام کسی نئی جماعت کے لیے چشم براہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں گے؟ وہ کون سا نظریہ یا اسلوبِ سیاست ہے جس کی نمائندہ سیاسی جماعت یہاں موجود نہیں؟ نفاذِ اسلام؟ ایک ڈھونڈو تو بہت سی ملتی ہیں۔ روایتی؟ وہ بھی ایک سے زیادہ موجود ہیں؟ انقلابی؟ حال ہی میں عوام اس کو بھی بھگت چکے۔ قومیت پرست؟ جی ہاں‘ وہ بھی یہاں پائی جاتی ہیں؟ لسانی؟ اس کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ رنگ رنگ کی سیاسی جماعتیں یہاں موجود ہیں۔ ہمیں کسی نئی جماعت کی قومی سطح پر ضرورت ہے نہ عوامی سطح پر اس کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں‘ عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے خاکے مراکزِ اقتدار ہی میں بنتے ہیں بلکہ کسی جماعت کو ختم کرنا ہو تو یہ فیصلہ بھی انہی مراکز میں ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی تشکیل کا یہ عمل جب مراکزِ اقتدار میں ہوتا ہے تو ان جماعتوں کے عہدے دار بھی یہیں سے منتخب ہوتے ہیں۔ ان کی جڑیں چونکہ عوام میں نہیں ہوتیں‘ اس لیے یہ اپنی بقا کے لیے ان مراکز کی طرف نظریں گاڑھے رکھتے ہیں۔ یہاں پر براجمان لوگوں کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ انہیں جہاں ہانک کر لے جائیں‘ جانے کے لیے تیار رہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایک نظر ان ناموں پر ڈالیں: علی زیدی‘ عمران اسماعیل‘ فیصل واوڈا۔ کیا پاکستان کی سرزمین پر ان کی جڑیں کہیں موجود ہیں؟ یہ تو الیکٹ ایبلز بھی نہیں ہیں۔
جو سیاسی جماعتیں بناتے اور بگاڑتے ہیں‘ ان کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا مگر اہلِ سیاست خود کو مضبوط تو کر سکتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ موجود سیاسی جماعتیں خود کو حقیقی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کریں۔ جماعتی نظم میں جمہوریت اور میرٹ لائیں۔ خود پر عوام کے اعتماد کو مستحکم بنائیں۔ اس کے بعد اگر مراکزِ اقتدار میں اس نوعیت کی کوئی کوشش ہوگی تو وہ رائیگاں جائے گی۔ اگر سیاسی جماعتیں غیر جمہوری اور غیر آئینی مداخلت کا دروازہ بند کرنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے انہیں خود کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ کنگز پارٹی نہ بن سکے۔
جمہوریت کے استحکام کے لیے سیاسی جماعتیں ناگزیر ہیں۔ جماعت اسلامی‘ اے این پی‘ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی سمیت بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جو اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوصف عوام میں اپنی جڑیں بنا چکی ہیں۔ تحریکِ انصاف کو اگر سیاسی جماعت بننا ہے تو اسے کلٹ اور ہیجان کی نفسیات سے نکلنا ہوگا۔ سیاست میں مسیحا یا سپر ہیرو نہیں ہوتے۔ عمران خان صاحب کو اگر سیاست کرنی ہے تو انہیں سب سے پہلے خود کو ایک نارمل انسان سمجھنا ہوگا اور اپنے مداحوں کو بھی یہی سمجھانا ہوگا۔ اس کی پہلی شرط خود احتسابی ہے۔ اگر موجودہ رویے پر اصرار جاری رہا تو تحریکِ انصاف کبھی سیاسی جماعت نہیں بن پائے گی۔
خان صاحب کی پُر تشدد اور ہیجانی سیاست نے اس ساری پیش رفت کو شدید نقصان پہنچایا ہے جو بالواسطہ طور پر ہو رہی تھی۔ غیر جمہوری قوتوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا اور ان کی سیاسی عدم مداخلت پر عوامی اتفاقِ رائے پیدا ہو رہا تھا۔ خان صاحب کے غیرسیاسی اور غیرحکیمانہ رویے نے اس سارے عمل کو سبوتاژ کر دیا اور ہم اسی جگہ جا پہنچے جہاں پرویز مشرف صاحب کے دور میں کھڑے تھے۔ اس دائرے سے نکل کر صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے لازم ہے کہ اہلِ سیاست مل کر سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں اور ان سیاسی جماعتوں کو مضبوط کریں جنہوں نے سرد گرم موسم میں اپنا وجود ثابت کیا ہے۔ بصورتِ دیگر طاقت کے مراکز میں بار بار پہیہ ایجاد کرنے کی مشق جاری رہے گی۔