مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ شعور اور تعلیمی اسناد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
جدید تعلیم اور شعورِ حیات کا باہمی تعلق کیا ہے؟ مشاہدہ یہی ہے کہ یہ دو مختلف دھارے ہیں جو کم ہی مل پاتے ہیں۔ سماجی رویے اور معاملات میں‘ ایک سند یافتہ جسے عرفِ عام میں پڑھا لکھا کہا جاتا ہے‘ اس آدمی سے مختلف نہیں ہے جو ناخواندہ ہے۔ غصہ‘ خوشی‘ غم‘ مسرت‘ کسی موقع پر تقابل کر لیجیے۔ شاید ہی کوئی فرق تلاش کیا جا سکے۔ شادی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنے والے اکثر پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ رہا علم تو اس کے نام پر ان خواتین و حضرات سے جو کچھ صادر ہوتا‘ اس پر بمشکل ہی علم کا اطلاق ہوتا ہے۔
مذہبی تعلیم اور معرفتِ مذہب کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس کے مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ تزکیۂ نفس ہے‘ پیغمبر جس کیلئے مبعوث کیے جاتے ہیں۔ مذہب اصلاً اسی کیلئے ہے۔ تزکیہ نفس کیا ہے؟ تہذیبِ اخلاق۔ مذہبی اداروں سے فارغ التحصیل کو سب سے بڑھ کر اس کا علم بردار اور شخصی زندگی میں مظہر ہونا چاہیے۔ حقیقت کیا ہے‘ اس سے آپ بھی باخبر ہیں اور میں بھی۔ مذہب کے جو نمائندے یہاں سے نکلتے ہیں‘ الا ماشاء اللہ‘ مذہب سے دوری ہی کا باعث بنتے ہیں۔
دوسری طرف روزمرہ زندگی میں اَن گنت ایسے لوگ ملتے ہیں جنہوں نے کسی تعلیمی ادارے کا منہ نہیں دیکھا ہوتا لیکن علم اور تقویٰ کے پیکر ہوتے ہیں۔ جدید تعلیم سے کبھی واسطہ نہیں پڑا لیکن معاملات نمٹانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ پیچیدہ عقدے بیٹھے بٹھائے حل کر دیتے ہیں۔ گاؤں میں بار ہا دیکھا کہ لوگوں کے باہمی تعلقات اتنے بگڑ گئے کہ بندوقیں نکل آئیں۔ معاملات ان کے ہاتھ میں آئے جنہیں 'سیانے‘ کہتے ہیں تو یوں لگا جیسے کسی نے جلتی پر پانی ڈال دیا ہو۔
یہ معاملہ صرف اس طبقے کے ساتھ خاص نہیں ہے جو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھا ہے۔ جو باہر سے سند لے کر آتے ہیں یا وہیں رہ رہے ہیں‘ ان کی فہم و فراست کا معاملہ بھی یہی ہے۔ قومی سیاست کے حوالے سے پچھلے چند برسوں میں ایسے ایسے مظاہر دیکھنے اور سننے کو ملے کہ بار ہا کانوں کو ہاتھ لگایا۔ اب تو ہاتھ بھی تھک گئے۔ ان کی باتوں سنیں تو ان پر کسی منطق کا اطلاق ہوتا ہے نہ کسی دوسرے عقلی پیمانے کا۔ کہنے کو ماڈرن ہیں۔ علم کی زبان میں کہیں تو جدیدیت کی پیداوار مگر باتیں سن کر لگتا ہے کہ ایک عرصے سے عقل کو طلاق دے چکے ہیں۔ جدیدیت توکہتے ہیں عقلیت پسندی اور سائنسی اندازِ نظر کی دین ہے۔ جدید اداروں کے یہ فارغ التحصیل‘ مگر ہوا میں قلعے تعمیر کرتے اور رومان پر سیاست کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ پاکستان کی تو سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے تعلیمی نظام کے نقائص ہم سب پر واضح ہیں۔ ہمارے مقاصدِ تعلیم میں کبھی یہ مقصد شامل نہیں رہا کہ ہم نے عقلی بنیادوں پر سوچنے والا ایک اخلاقی انسان پیدا کرنا ہے۔ جدید علوم‘ جن کی اساس عقل ہے‘ ہم صرف ازبر کراتے ہیں۔ مذہب کی تعلیم کا کوئی تعلق اخلاقیات سے نہیں۔ یہ پیشِ نظر ہی نہیں کہ عمر کے ساتھ کیسے بچے کے اخلاقی وجود کو مستحکم کرنا ہے۔ یوں ان نظام ہائے تعلیم کا فارغ التحصیل اگر قومی زندگی میں کبھی عقلی بنیادوں پر نہیں سوچتا اور اخلاقی وجود کے باب میں حساس نہیں تو یہ اچنبھے کی بات نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ ایسا مغربی اداروں کے پڑھے لکھوں میں کیوں ہے جہاں عقلی بنیادوں پر سوچنا سکھایا جاتا ہے؟
میرے نزدیک اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو ہمارا شاکلہ یا یوں کہیے کہ ڈی این اے ہے۔ ہماری فطری ساخت کچھ اس طرح بن چکی ہے کہ ہم میں عقلی بنیادوں پر سوچنے کی صلاحیت تدریجاً کمزور ہوئی ہے۔ علامہ اقبال نے بیان کیا ہے کہ جو قوم طویل عرصہ غلامی میں رہتی ہے‘ اس کے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ مذہب‘ سماج‘ سیاست‘ ہم ہر معاملے کو جذبات کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ کم ازکم گزشتہ تین سو سال سے ہماری 'شاکلہ‘ کی تربیت اسی نہج پر ہوئی ہے۔ اب یہ ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی۔ ہم جس تعلیمی نظام میں ڈال دیے جائیں‘ فی الجملہ اس کا نتیجہ ایک ہی ہو گا۔ دوسری وجہ مغرب کا تعلیمی نظام ہے۔ اس میں بھی ایک بنیادی کمزوری ہے۔ انیسویں صدی میں‘ جب علم کی شعبہ جاتی تقسیم کا تصور آیا اور علوم کی تشکیلِ نو ہوئی تو تخصص (Specialization) کا حصول‘ تعلیم کا مطمح نظر ٹھہرا۔ تخصص کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ صرف اس شعبے کے علم تک محدود رہا جائے جس میں آپ تخصص چاہتے ہیں۔ اس طرح وحدتِ علم کا تصور کمزور ہوا اور علم کے دوسرے شعبوں سے بے اعتنائی نے زندگی کے ادھورے تصور کو فروغ دیا۔
تخصص علم کی ایک ناگزیر ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ علم کے دوسرے شعبوں سے آدمی بے خبر ہی ہو جائے۔ بالخصوص وہ علوم جن کا تعلق معاشرت اور آدابِ معاشرت کے ساتھ ہے۔ مغرب میں اس کی کمی اس طرح پوری کی گئی کہ مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایک چھت تلے جمع کر دیا جاتا ہے اور یوں زندگی میں وحدت پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح مکمل تلافی ممکن نہیں۔ نظام میں تو کسی حد تک اس کا تدارک ہو جاتا ہے مگر فرد میں جو کمی رہ جاتی ہے‘ وہ تادمِ ِآخر اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کا ایک مظہر ہمارے وہ ماہرین ہیں جو مغرب میں پڑھے ہیں مگر سماج اور زندگی کی ہمہ جہتی سے ناواقف ہیں۔
علم کو جب طبیعی (Natural) اور سماجی (Social) علوم میں تقسیم کیا گیا تو اس نے دو ایسے طبقات کو جنم دیا جو دو مختلف سیاروں کی مخلوق دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف فزکس میں کمال حاصل ہوگا اور دوسری طرف اس بات کی بھی خبر نہیں ہوگی کہ ملک کا وزیراعظم کون ہے۔ ستم یہ ہوا کہ یہ طبقہ سیاست و معاشرت پر اپنی سطحی اور مصنوعی معلومات کے ساتھ‘ خود کو ان امور کا ماہر سمجھ بیٹھا اور یہ گمان کیا کہ اس نے اس سارے عمل کی حقیقت کو جان لیا ہے۔ لہٰذا اب اس کی بات کو حتمی سمجھا جائے۔ اس نے جسے کرپٹ مان لیا‘ اس کو کرپٹ نہ ماننا‘ کرپٹ ہونے کی دلیل ہے۔ واقعات نے کچھ ایسا رُخ اختیار کیا کہ یہ طبقہ حالات پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہونے کے قابل ہو گیا۔
جو آدمی رسمی تعلیم سے دور ہے مگر زندگی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ اس کا ذریعہ علم اس کا مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ وہ کسی نظامِ تعلیم کی متعین حدود کا پابند نہیں۔ جب وہ زندگی کو سمجھتا ہے تو اس کا علم فطرت سے قریب تر ہوتا ہے۔ اس کے پاس معروف معنوں میں تعلیم نہیں ہوتی مگر شعور ہوتا ہے۔ یہ شعور اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ سماج کی گھتیوں کو بہتر انداز میں سلجھا سکے۔
آج ضرورت ہے کہ تعلیم کو شعور سے جوڑا جائے۔ شعور تفہیمِ زندگی کی ایک داخلی صلاحیت ہے۔ تعلیم کا مقصد اس کو بیدار کرنا ہو۔ تخصص ضرور حاصل کیا جائے لیکن اس سے پہلے زندگی اور علم کو ایک اکائی کے طور پر سمجھا جائے۔ اگر کسی قوم نے ووٹ سے یہ طے کرنا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے انتظامی منصب پر کسے بٹھایا جائے تو لازم ہے کہ ووٹر کو زندگی اور سماج کا ایک عمومی شعور میسر ہو۔ یہ نظامِ تعلیم کا کام ہے کہ وہ یہ شعور پیدا کرے۔ بصورتِ دیگر سیاسی شعور کے نام پر جہالت بیچنے والے سب سے کامیاب سوداگر ہوں گے۔