یہ ایک معمار کا قصہ ہے جسے یقین ہے کہ قدرت نے اسے تعمیر کا خصوصی ذوق اور ہنر ودیعت کیاہے۔
ایسا نہیں کہ اس نے کسی ادارے سے اس فن کی تعلیم لی ہے یا کسی ماہر کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے۔اس کاکہناہے کہ جب وہ دنیا کا ہر کام بخوبی سرانجام دے سکتا ہے تو تعمیر کیوں نہیں؟جو لوگ سماج میں اس کام کی مہارت کا دعویٰ رکھتے ہیں‘انہوں نے کون سی ڈگری لے رکھی ہے؟بعض تو حساب کتاب کی واجبی سی تعلیم رکھتے اور معمارِ اعظم مانے جاتے ہیں۔میں نے تو خیر ایف اے کر رکھا ہے۔اس کے پاس کچھ اور ناقابلِ تردید دلائل ہیں‘جن کی بنیاد پر وہ معترضین کا منہ بند کر سکتاہے۔ویسے ‘ دلائل کی ضرورت ‘اسے کم ہی پیش آتی ہے۔ہر دور میں اسے‘کئی ایسے معمارمل جاتے ہیں جو اسے معمارِ اعظم مان لیتے ہیں۔ ان میں کچھ بین الاقوامی سطح کے ماہرینِ تعمیرات بھی ہیں۔اس کے بعد اسے مزید کسی سند کی کیا حاجت؟
خدا کی کرنی ایسا ہوئی کہ اس کے ہاتھ ایک پلاٹ لگ گیا۔اس پلاٹ کا اصل مالک کون ہے‘کم لوگ جانتے ہیں۔جو جانتاہے‘وہ بتانے سے گریز کر تا ہے۔لوگ مدت سے دیکھ رہے ہیں کہ پلاٹ پر اس کا قبضہ ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے مالک تسلیم کر لیا ہے۔کچھ دبی زبان میں اپنا حقِ ملکیت جتاتے ہیں لیکن یہ حق ثابت نہیں کر پاتے۔ ان کے پاس نہ فردہے نہ خسرہ نمبر اور نہ ہمت۔پٹواری‘جس کے پاس سب ثبوت ہیں‘وہ بھی ان کو منہ نہیں لگاتا ۔
قصہ کوتاہ‘جب پلاٹ معمار کے ہاتھ لگا تو اس نے اپنے فن کو آزمانے کے لیے تجربات کا آغاز کیا۔کلاسیکی‘نیم کلاسیکی‘ وکٹورین‘ گوتھک‘ ماڈرن‘ پوسٹ ماڈرن ‘اس کا خیال ہے کہ یہ سب گوروں کے چونچلے ہیں۔ عمارت تو عمارت ہوتی ہے۔کوئی بھی بنا سکتا ہے۔آخر 'ورنیکو لر آرکیٹکٹ‘بھی دنیا بھر میں رائج ہے۔پہلے اس نے ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیاجو ماہرِ تعمیرات کی شہرت رکھتے تھے۔انہیں ایک عمارت کھڑی کر نے کو کہا گیا۔ ابھی وہ اینٹ‘ریت ‘بجری جمع ہی کر رہے تھے کہ معمار کا دل ان سے اچاٹ ہو گیا۔اسے لگاکہ یہ اس کے حسبِ منشا عمارت نہیں بنا پائیں گے۔ ان سے یہ کام واپس لے لیا گیا۔
اس دوران میں اس کی یہ سوچ پختہ ہوئی کہ جولوگ معمار بنے پھرتے ہیں‘ نہ صرف اپنا کام نہیں جانتے بلکہ کرپٹ بھی ہیں۔اس نے اس سوچ کو مکینوں میں بھی پھیلا دیا۔اس نے سوچا:جب میں اس فن میں طاق ہوں تو مجھے ان کی کیا ضرورت؟ مجھے یہ کام خود کرناچاہیے۔یہ خیال اس کے دل میں پہلے ہی گھر کیے ہوئے تھا لیکن اب اسے شرحِ صدر ہو گیا۔اب اس نے تیسی کرنڈی اپنے ہاتھ میں لے لی۔
گیارہ برس معمار نے اپنا فن آزمایا لیکن عمارت کی کوئی شکل نہ بن سکی۔وہ ایک دیوارتعمیر کرتا تو دوسری گر جاتی۔ایک کمرے پر زیادہ توجہ دی تو دوسرے کی کچی پکی دیواریں سیلاب کی زد میں آگئیں۔مکینوں کی چیخ و پکار الگ۔ اب معمار فردِ واحد نہیں تھا‘ایک تعمیرانی کمپنی وجود میں آ چکی تھی۔کمپنی کے دیگر انجینئرز کو لگا کہ چیف آرکیٹیکٹ بوڑھا ہو گیا ہے اورتعمیرات کا فن آگے جاچکا ہے ‘جس سے اُس کا ہنر بے خبر ہے۔فیصلہ ہوا کہ ایک نیا چیف آرکیٹیکٹ لایا جائے۔بوڑھے معمار نے کیا مزاحمت کرناتھی۔معاملات کو کمپنی کے نئے سر براہ نے سنبھال لیا۔
اس دوران میں کچھ نئے دعوے دار بھی سامنے آگئے جن کا کہنا تھا کہ یہ پلاٹ ان کا ہے اور یہ حق بھی ان ہی کا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کی تعمیر کریں۔عمارت کلاسیکی ہوگی یا ماڈرن‘یہ فیصلہ وہ کریں گے۔معمار کے لیے یہ ایک نئی پریشانی تھی۔ ایک طرف پلاٹ کے نئے دعویدار اور دوسری طرف عمارت کے مکینوں کااضطراب۔ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ کھینچا تانی میں پلاٹ کے دو حصے ہو گئے۔معمار کے قبضے میں آدھا پلاٹ رہ گیا۔قبضہ اگرچہ اسی کے پاس تھا لیکن اب اس کی ملکیت کا ایک اورمضبوط دعویدار پیدا ہوگیا تھا۔معمار نے مکینوں کے غصے کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بچی کچھی عمارت کو چلانے کا کام اسی کو سونپ دیا جائے۔اس طرح وہ مکینوں کے غصے کا براہِ راست ہدف نہیں رہے گا۔تاہم اس نے یہ اہتمام بھی کیا کہ اس آدھے پلاٹ کا قبضہ اس کے پاس ہی رہے۔
چند برس گزرے تو لوگ اس بندوبست سے بھی تنگ آنے لگے۔ معمار نے سوچا یہ اچھا وقت ہے جب قبضے کے ساتھ بندوبست بھی‘ ایک بار پھر اپنے ہاتھ میں لے لیا جا ئے۔ معمارنے جب ایک بار پھر عمارت کے معاملات سنبھالے تو مکینوں نے اس پر قابلِ ذکر احتجاج نہ کیا۔کچھ نے تو اس تبدیلی پر مٹھائی بانٹی۔
گیارہ سال تک معمار نے عمارت کو ایک نئے ڈیزائن کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔اس بار کلاسیکی انداز کو اپنا یا گیا۔جس دعویدار کو معزول کیا گیا‘اس کا رجحان ماڈرن آرکیٹیکٹ کی طرف تھا۔معمار نے سوچا اس کا توڑ کلاسیکل آرکیٹیکٹ سے کیا جائے۔ سماج سے ایسے مستری تلاش کیے گئے جو پرانی طرز کی محرابیں بنانے کے ماہر تھے۔ انہیں کہا گیا : عمارت کا ظاہر ایسا بنا دیا جائے کہ دور سے معبد دکھائی دے۔لوگ اس پرتنقید کے بجائے عقیدت کی نگاہ ڈالیں۔ یہ تجربہ بھی ناکام ہوا۔معلوم ہوا عمارت کا ظاہر تو بدل گیا لیکن اندر چنگیز سے بھی تاریک تر ہے۔
اس ناکامی کے بعد بھی معمار نے مزید تجربات جاری رکھے۔کمپنی کی قیادت جیسے جیسے بدلتی گئی‘تجربات کی نوعیت بھی تبدیل ہو تی گئی۔ایک وقت آیا کہ سب روایتی تجربات ناکام ہوگئے۔معمارکا قبضہ خطرے میں پڑنے لگا کہ کمپنی کوایک عبقری کنسلٹنٹ مل گیا۔اس نے تجویزپیش کی کہ اس بار 'پوسٹ ماڈرن آرکیٹیکٹ‘ کا تجربہ کیا جائے۔ پوسٹ ماڈرن ازم‘کسی سٹرکچر پر یقین نہیں رکھتا۔یہ تعمیریات کی ایک ایسی قسم ہے جس میں کلاسیکی‘نیک کلاسیکی وکٹورین‘ماڈرن‘سب رنگ ہوتے ہیں اور اس کے باوجود اس کا کوئی رنگ نہیں ہو تا۔
کمپنی کا چیف آرکیٹیکٹ ‘کنسلٹنٹ کی اس تجویز پر اچھل پڑا۔زور وشور سے اس پر کام شروع ہو گیا۔پہلے تو عمارت کے مکینوں کو کچھ سمجھ نہ آیا۔جب اس آئیڈیے کو جدید مارکیٹنگ کے ساتھ سامنے لایا گیا تو مکین بھی آہستہ آہستہ قائل ہونے لگے۔جوکلاسیکی کا حامی تھا اسے لگا کہ اس میں کلاسیکی رنگ ہے۔جو ماڈرن کا قائل تھا۔اسے اپنے خواب کی تعبیر دکھائی دی۔اب کیا معمار اور کیا مکین ‘سب عمارت کی تزئین و آرائش میں لگ گئے۔یہ عمارت کیسی ہوگی‘اس میں گرمی سردی سے بچنے کا کتنا اہتمام ہے‘ظاہری چکا چوند میں کسی کو اس کا خیال ہی نہ رہا۔عمارت بن گئی تو معلوم ہوا کہ یہ نہ تو بارش کو روک سکتی ہے اور نہ دھوپ کو۔اس میں سردی کا کوئی حل ہے نہ گرمی کا۔بس اسے دیکھتے جاؤ کہ دیکھنے میں تو خوبصورت ہے۔
ایک دن ایساواقعہ پیش آیاکہ معمار زچ آگیا۔اسے خیال ہوا کہ یہ تجربہ اگرمزید ایک دن بھی جاری رہا توکیا مکین اور کیا معمار‘سب کھلے آسمان تلے کھڑے ہوں گے۔عمارت کو گرا کر نئے سرے سے بنانے کا فیصلہ کر لیاگیا۔پوسٹ ماڈرن کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی کوئی متعین صورت ہی نہیں۔معمار کو اب سمجھ نہیں آر ہی کہ اسے گرایا کیسے جائے۔ چھت گراتے ہیں تو ساتھ ہی دیوار گرنے لگتی ہے۔دیوار کو ہاتھ لگاتے ہیں تو پاؤں کے نیچے فرش ہلنے لگتاہے۔آخری خبر آنے تک معمارکو اصرار ہے کہ عمارت کواب بھی وہی بنا سکتاہے ۔مکین اس پریشانی میں ہیں کہ معلوم نہیں کل ان کے سر پر چھت ہوگی کہ نہیں۔