اردو کالم کے موضوعات کیا ہیں؟ سماج کی تعمیر میں اس کا کیا کردار ہے؟
چند روز پیشتر‘ جہانگیر ترین صاحب کے بڑے بھائی نے خود کشی کر لی۔ یہ خبر اردو اور انگریزی اخبارات میں شائع ہوئی۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے حسبِ توفیق سنسنی پھیلائی۔ اب مکمل خاموشی ہے۔ خود کشی ایک ایسا موضوع ہے جس کا ذکر اخبارات میں آئے دن ہوتا ہے۔ کیا اردو کالم نے اسے موضوع بنایا ہے کہ خود کشی کیوں کی جاتی ہے اور اگر اس نوعیت کا کوئی واقعہ ہو تو سماج کو کس طرح کے علم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے؟
اردو کالم نگاری‘ میرا احساس ہے کہ موضوعات کے قحط کا شکار ہے۔ اقتدار کی سیاست اس کی دلچسپی کا واحد موضوع ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سماج کو درپیش مسائل کو زیرِِ بحث لاتے ہیں۔ جو لاتے ہیں‘ وہ بھی تاثر کی حد تک۔ کسی المیے پر اپنے دُکھ کو بیان کر دیا۔ کسی واقعے پر غصے کا اظہار کر دیا۔ معاملے کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔
کالم نگاری نفسِ مضمون کے ساتھ اسلوب بھی ہے۔ کچھ لکھنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اسلوب کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں۔ کالم اپنے علم اور فہم میں کوئی اضافہ نہیں کرتا لیکن آپ تحریر سے حَظ اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی ایک مقصد ہے۔ اگر کوئی تحریر آپ کو ہنسنے یا مسکرانے پر آمادہ کرے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس کا لیکن کیا کیا جائے کہ بہت کم کالم اس معیار پر بھی پورا اترتے ہیں۔ خبر اخبار سے الیکٹرانک میڈیا نے پہلے ہی چھین لی۔ کالم اخبارات کی اشاعت کا ایک جواز تھے لیکن وہ اس جواز کو بھی کھوتے جا رہے ہیں۔
انگریزی اخبارات کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اسی خود کشی کے واقعے کو دیکھ لیجئے۔ اس پر کئی مضامین لکھے گئے۔ گزشتہ اتوار کو ایک انگریزی اخبار میں اس موضوع پر ایک اچھا مضمون شائع ہوا۔ اس میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ خود کشی کے واقعے کے سماج پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور انہیں رپورٹ اور بیان کرتے وقت‘ کن باتوں کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔ اس مضمون میں معلومات بھی تھیں اور اہلِ صحافت کے لیے راہ نما اصول بھی۔ لکھاری علمِ نفسیات کی ماہر ہیں۔
انگریزی اخبارات میں مضامین‘ تجزیے زیادہ شائع ہوتے ہیں اور کالم کم۔ کالم اردشیر کاؤس جی لکھا کرتے تھے یا پھر ایاز امیر۔ ایک اللہ کو پیارا ہو گئے اور دوسرے الیکٹرانک میڈیا اور اردو صحافت کو۔ خالد حسن بھی بہت عمدہ کالم نگار تھے۔ انگریزی اخبارات میں مضامین‘ بالعموم تخصص رکھنے والے لوگ لکھتے ہیں۔ معاشی امور پر وہی لکھے گا‘ معیشت جس کا میدان ہوگا۔ خارجہ امور پر بھی مخصوص لوگ لکھتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو سیاست سمیت سب موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی رطب و یابس ملتا ہے لیکن ایسے لکھنے والے کم نہیں جو نفسِ مضمون سے انصاف کرتے ہیں۔
اردو میں مضامین کم ہی چھپتے ہیں۔ زیادہ تر کالم ہیں یا وہ تحریریں جنہیں کالم کہا جاتا ہے۔ تجزیہ بھی کالم ہی کے عنوان سے لکھا جاتا ہے۔ عملاً کالم اور مضمون کا فرق باقی نہیں رہا۔ جو مستقل لکھتا ہے‘ وہ مضمون نگار ہی کیوں نہ ہو‘ کالم نویس سمجھا جاتا ہے۔ مجھے آج اس فنی سوال سے بحث نہیں۔ میری دلچسپی اس بات سے ہے کہ جو چھپتا ہے‘ اس کا حاصل کیا ہے؟ یہ میں عرض کر چکا کہ کچھ نہیں۔
اس کے اسباب ایک سے زیادہ ہیں۔ ایک تو خود لکھنے والا ہے۔ سب سے پہلے تو لکھنے والے کو دیانت داری کے ساتھ اپناجائزہ لینا چاہیے کہ وہ کیوں لکھتا ہے؟ کیا اس کے پاس لکھنے کو‘ کچھ ایسا ہے جو پہلے سے لوگ نہیں لکھ رہے؟ کیا وہ سماج کی بہتری کے لیے کوئی ایسا خیال‘ نظریہ یا سوچ رکھتا ہے‘ وہ جس میں منفرد ہے؟ کیا اس کی نظر میں کوئی ایسا نظریہ ہے جس کو اچھے شارح اور ترجمان میسر نہیں اور وہ یہ خدمت سر انجام دے سکتا ہے؟ کیا اس کے اسلوب میں کچھ ایسا ہے کہ اس کی تحریر پڑھنے سے لوگ ذہنی تفکرات سے آزاد ہوتے ہیں؟ کیا اس کا فن ایسا ہے کہ جس سے لوگ زبان کا استعمال سیکھتے ہوں؟ الفاظ کے صحیح چناؤ اور برتاؤسے واقف ہوتے ہوں؟ لکھنے والے کے پاس اگر ان میں سے کسی سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے تو اسے اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ وہ کیوں لکھتا ہے؟
ایک ذمہ داری اخبار کی انتظامیہ پر بھی ہے۔ وہ جب اخبار کا ایک حصہ کسی لکھنے والے کے حوالے کرتی ہے تو اس کے پیشِ نظر کیا ہوتا ہے؟ سماج کی تعمیر؟ ادب کا فروغ؟ علم کی ترویج؟ اقدار کی حفاظت؟ سیاسی پیش رفت سے آگاہی؟ انتظامیہ جب یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس نے کسی لکھنے والے کو اپنی ٹیم میں شامل کرنا ہے تواس کے پیشِ نظر یقینا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ مقصد لازم نہیں کہ ایک ہو۔ ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن وہ متعین ہونے چاہئیں؟ اسی سے کالم کے مقصد اور معیار طے ہو گا۔
اخبار ہم جانتے ہیں کہ ایک کاروباری سرگرمی ہے۔ اس لیے اس میں مارکیٹ کو بھی پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ کالم نگار یا لکھنے والے کا انتخاب کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے کتنے ہیں؟ وہ اخبار کی اشاعت میں کتنا اضافہ کر سکتا ہے؟ جب یہ سوال اٹھتا ہے تو پھر گیند عوام کے کورٹ میں چلی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگ کیا پڑھنا چاہتے ہیں؟ ان کا انتخاب کیا ہے؟ اگر عوام ایسی تحریریں پسند کرتے ہیں جو تیز و تند ہوں اور ان کے خیالات کی ترجمانی کرنے والی ہوں‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی بہتر خیال ان کے دل و دماغ کے دروازے پر دستک دے یا ان کے ذہنی اُفق وسیع کرے یا زبان و بیان کے ا عتبار سے ان کے تعلیم کا اہتمام کرے توایسے کالم ہی شائع ہوں گے جو ہم روزانہ پڑھتے ہیں۔ عوام کی تسکین کا سامان ہو جاتا کہ وہ جسے برا بھلا کہنا چاہتے تھے‘ کالم نگار نے ان کے نام پر یہ فرض کفایہ ادا کر دیا۔ یا وہ جس کی تعریف سننا چاہتے تھے‘ فلاں کالم نگار نے یہ فریضہ سر انجام دے دیا۔
اخبار عوامی پسند ناپسند سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کاروباری ادارہ ہے۔ اخبار کو ایسے کالم شائع کرنا پڑتے ہیں جن کے حق میں واحد دلیل یہ ہے کہ 'لوگ انہیں پسند کرتے ہیں‘۔ اس کے ساتھ لیکن اخبار کی ایک ذمہ داری‘ سماج کے حوالے سے بھی ہے۔ اسے یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ سماج کی تعمیر میں کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ اسے بہر حال ایک توازن پیدا کرنا چاہیے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اخبار یا ٹی وی چینل کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ عوام کے ذوق کو بہتر کرے۔ ذوق جتنا زیادہ علمی اور ادبی ہوگا‘ وہ نفسِ مضمون اور اسلوب‘ دونوں اعتبارات سے اتنا ہی کالموں اور مضامین کا قدر آشنا ہوگا۔
میرا خیال ہے کہ کالموں اور مضامین میں ایک تناسب ہونا چاہیے۔ مضامین ماہرین سے لکھوانے چاہئیں تاکہ اردو پڑھنے والوں کی معلومات بہتر ہوں اور سوچ میں پختگی آئے۔ اسی خود کشی کے موضوع پر پھر ایک نظر ڈال لیجئے اور ذہن میں تازہ کر لیجئے کہ آپ نے کتنے کالم پڑھے جنہوں نے آپ کو اس مسئلے کو درست تناظر میں سمجھنے میں مدد دی ہے۔ اسی کو دوسرے مسائل پر قیاس کر لیجئے۔ اگر آپ اردو اور انگریزی‘ دونوں زبانوں کے اخبارات پڑھتے ہیں تو آپ کے لیے میری بات کی تفہیم آسان ہو جائے گی۔
آخری بات یہ کہنی ہے کہ استثنا یقینا ہوتا ہے لیکن تجزیہ ہمیشہ عموم کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔