مجھے اپنی بات پر اصرار ہے کہ احتجاج مسئلے کا حل نہیں۔حل کہیں اور ہے۔
بجلی کی قیمت کیا کم ہوتی‘پٹرول کے نرخ بھی بڑھ گئے۔اسی لیے عرض کیا تھا کہ اس حکومت کے بس میں کچھ نہیں۔ریلیف کا کوئی راستہ موجود نہیں۔جو حل تجویز کیے جا رہے ‘سب رومانوی ہیں۔ زندگی ہمیشہ سے حقیقت پسند رہی ہے۔مذہب کا نقطۂ نظر بھی یہی ہے کہ عالم کے پروردگار نے ہر شے کی ایک تقدیر مقرر کر دی ہے۔ اسی کو سنت اللہ کہا جاتا ہے جو تبدیل نہیں ہوتی۔جو خدا کو نہیں مانتا‘وہ اسے قوانینِ فطرت کہہ دیتا ہے۔نتیجہ دونوں باتوں کا ایک ہی ہے کہ ہر شے کی ایک تقدیر ہے جو غیر متبدل ہے۔
مذہب اور لا مذہب میں یہ فرق ہے کہ مذہب اس تقدیر کا انتساب تقدیر ساز کی طرف کرتا ہے جو اگر چاہے تو کسی شے کی تقدیر کو بدل بھی سکتاہے۔ہمیشہ کے لیے یا پھر کچھ دیر کے لیے۔تاہم مذہب کے مقدمے میں بھی ایسے واقعات استثنائی ہوتے ہیں۔آگ کی تقدیر یہ ہے کہ وہ جلاتی ہے۔اس کا تقدیر ساز چاہے تو ایک خاص وقت میں اس کی تقدیر بدل کر اسے گلزار بنا دے جیسے اس نے سیدنا ابراہیم ؑ کے معاملے میں کیا۔جب وہ ایسا کرتا ہے تو صرف اس یاد ہانی کے لیے کہ یہ کائنات خود ساختہ نہیں‘ایک حکیم کی تخلیق ہے۔استثنا عموم کے حکم کو تبدیل نہیں کر تا۔
اللہ تعالیٰ جب اپنے رسول کو اس زمین پراپنی عدالت بنا کر بھیجتا ہے تو استثنائی معاملات بھی کرتا ہے۔اسے معجزہ کہتے ہیں۔ نبی ﷺ پر نبوت ورسالت کے ساتھ معجزات کاباب بھی بند ہو گیا۔رسولوں کے لیے بھی عام حالات میں ہر شے اپنی تقدیر کی پابند ہے۔ غزوہ خندق میں جب سب کو بھوک ستارہی تھی تو اللہ کے رسولﷺ نے بھی اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے معاشی مسائل کا اسی طرح سامنا کیا جس طرح عام لوگ کرتے ہیں۔آپ نے ممکنات کی دنیا میں اس کا حل تلاش کیا۔ 'مواخات‘ درپیش معاشی وسماجی مسئلے کا امکانی حل تھا۔
مدینہ ایک زرعی معاشرہ تھا۔اہلِ مکہ کا پیشہ تجارت تھا۔ایک زرعی معاشرے میں اہلِ مکہ کے لیے روزگار تلاش کرنا مشکل تھا۔آپﷺ نے مواخات کے نظام کے تحت‘ ایک مہاجر اورایک انصاری میں تعلق قائم کیا۔اس کی ایک صورت یہ تھی کہ جس کے پاس نخلستان تھا‘اس کی ملکیت اسی کے پاس رہی اور اس نے ایک مہاجرکو اس کی نگہداشت میں شریک کر لیا۔اس طرح وہ پھل کی پیداوار میں حصہ دار بن گیا۔ گھروں کی تعمیر کے لیے اسی طرح کی عملی صورت اختیار کی گئی۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اہلِ مدینہ کو نبی ﷺ کی تشریف آوری اور مہاجرین کی آمد کے بارے میں پہلے سے علم تھا اور وہ استقبال کے لیے تیار تھے۔اسلام آپ کی آمد سے پہلے ہی مدینہ کا اکثریتی مذہب بن چکاتھا۔
آپﷺ کی موجودگی سے مہاجرین اور انصار میں جو جوش اور جذبہ تھا‘اس نے ایک رومانوی فضا بنا دی تھی۔آپ حکم فرماتے تو انصار سب کچھ کر گزرنے پر تیار ہو جاتے ‘جیسا کہ روایات میں بیان بھی ہوا ہے۔اس کے باوجود آپ نے حقیقت پسندی کے ساتھ اس معاشی اور سماجی صورتِ حال کا حل تلاش کیا۔اس طرح ایک مستحکم معاشرے کی بنیاد پڑی جس میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ داخلی اور خارجی مسائل کا سامنا کر سکتا تھا۔
آج تو معاملہ پوری طرح انسانی تدبیر کا محتاج ہے۔ہمارے معاشی بحران کا کوئی فوری حل موجود نہیں۔ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے:ہم مسائل کو تقسیم کرلیں۔ تاجر‘سیاسی جماعتیں‘ حکومت اور دوسرے طبقات مل کر ایک لائحہ عمل اختیار کریں۔ اس سے مسائل ختم نہیں ہو ں گے لیکن شکایت کم ہو جائے گی۔اس کے ساتھ ہمیں ایک ایسے حل کی طرف بڑھنا ہو گا جو چند سال بعد حالات کی تبدیلی کی ضمانت بن سکے۔
آج سب اپنے اپنے مطالبات کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہ مطالبات گروہی مفادات کی ترجمانی ہے۔جیسے تاجروں کو اپنے مسائل سے غرض ہے‘دوسروں کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔سیاسی جماعتیں اپنا مفاد کشید کرنا چاہتی ہیں۔اس سے صرف اضطراب پیدا ہو گا۔اسی لیے میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ حکومت ابتداکرے اور سب گروہوں کے نمائندوں کو بلا کر ‘ان کی مشاورت سے ایک حکمتِ عملی بنائے جس میں وسائل اور مسائل کی تقسیم پر بات کی جائے۔مثال کے طور پر مفت بجلی کی سہولت ختم کر دی جائے۔اس سے معاشی صورتحال میں کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں پڑے گا مگر اس کا ایک نفسیاتی اثرہوگا۔ مراعات یافتہ طبقے کے خلاف عوام کا غصہ کم ہو جا ئے گا۔اس کے ساتھ باوسائل لوگوں پر مشتمل ایک خود کار نظام بنایا جائے جس میں انہیں یہ آزادی دی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے‘مستحق لوگوں کی معاشی کفالت کی ذمہ داری اٹھائیں۔جیسے ایک بڑا تجارتی گروپ‘اگر پانچ ہزار افراد کے روزگار یا ماہانہ آمدن کی ذمہ داری اٹھائے تو اسے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔
ملک مسلسل افواہوں کی گرفت میں ہے۔ یہ اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو ہے۔اس کا ہر دروازہ بند کر دیا جائے۔ میڈیا کو پابندکیا جائے کہ مایوسی کی کوئی خبر نشر نہ کی جائے۔اگر اسے لوگوں کے نام لینے سے روکا جا سکتا ہے تو ایسی خبروں سے کیوں نہیں؟ عام آدمی کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ مراعات یافتہ طبقہ مسائل کے حل میں جت گیا ہے۔قانوناً معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کے بجائے‘رضاکارانہ معاشی ایمرجنسی نافذ کر دی جائے۔
سب سے اہم بات یہ کہ کھانے پینے کی عام اشیا کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے لیے شہروں اور قصبوں کی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔مقامی انتظامیہ‘ تاجروں‘سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹیاں بنائے جو ہر شہر کی مارکیٹ پر نظر رکھیں اور ناجائز منافع خوری کا ر دروازہ بند کر نے کوشش کریں۔خطیبوں سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ جمعہ کے خطبوں میں انفاق فی سبیل اللہ کو موضوع بنائیں ۔صلہ رحمی اور رشتہ داروں کے حقوق کے بارے میں لوگوں کو یاد دہانی کرائیں۔
وزرا اور افسران کا سب پروٹو کول ختم کر دیا جائے کہ یہ عوامی غصے کا سب سے بڑا سبب ہے۔اس کابینہ میں کوئی وزیر ایسا نہیں جس کی جان کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔اس لیے انہیں پولیس گارڈ کی ضرورت نہیں۔ یہ وسائل پولیس کے عمومی نظام کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنے چاہئیں جس سے وزیروں اور افسران سمیت سب کو تحفظ ملے گا۔ مکرر عرض ہے کہ اس سے معاشی مسائل پوری طرح حل نہیں ہوں گے لیکن اس سے عوامی اضطراب میں کمی آئے گی۔احتجاج اور دوسروں کو کوسنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا۔سیاسی جماعتیں اپنی بھڑاس انتخابی مہم میں نکالیں۔اس وقت سماج کو نارمل ہو نے دیں۔ طبقاتی مفاد کی آبیاری سے صرف شکایات میں اضافہ ہو گا اور نتیجتاً اضطراب میں بھی۔اس سے رہی سہی ہمت اور قوت بھی برباد ہو گی۔معاشی مسائل کا حل نگران حکومت کے بس میں نہیں۔وزیراعظم البتہ قوم کو متحد اور سب کو مشاورت میں شریک کرکے‘اضطراب کم کر سکتے ہیں۔اس کے ساتھ‘ عوام سے پورا سچ بولنے اور انہیں باخبر رکھنے کی ضرورت ہے۔خوف اور ہیجان سے نکلنا‘آج سب سے اہم ہے۔
آج کامسئلہ معاشی سے زیادہ نفسیاتی ہے۔حکومت معاشی مسئلہ حل نہیں کر سکتی مگر نفسیاتی علاج تلاش کر سکتی ہے۔وہ اگر یہ کر گزرے تو معاشی مسائل کا حل بھی نکل آئے گا‘ ان شاء اللہ۔