نیا مشر قِ وسطیٰ اُبھر رہا ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جو ہمارے مذہبی تصورات اور قومی بیانیے کا حصہ ہے۔
یہ خطہ ابراہیمی روایت اور تاریخ کا امین ہے۔ بیت اللہ یہیں ہے اور بیت المقدس بھی۔ یوں یہ خطہ اس پورے سیارے پر سب سے مختلف اور منفرد ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دنیا کے ہر حصے سے کوئی نہ کوئی مذہب منسوب ہے۔ جیسے ہماری سرزمین سے بدھ مت اور ہندو مت۔ تین فرق مگر ایسے ہیں جن کی وجہ سے ابراہیمی ادیان دوسرے مذاہب کی نسبت عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کی زیادہ صلاحیت اور امکانات رکھتے ہیں۔
ایک یہ کہ دیگر ادیان کا تعلق قبل از تاریخ سے ہے۔ یوں ان کی تاریخ توہمات اور مذہب کا ایک ایسا مجموعہ بن گئی ہے کہ ان کی حقیقت جدید انسان کے لیے ایک معمہ ہے۔ مثال کے طور پر ہندو مت کی کوئی ایک متفقہ تعریف ممکن نہیں۔ ابراہیمی ادیان کا معاملہ یہ نہیں۔ اسلام تو ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اسلام نے بنی اسرائیل کی تاریخ کو بھی ایک زندہ واقعہ بنا دیا ہے جو یہودی تناظر میں قبل از تاریخ کا قصہ شمار ہوتی ہے۔ علم کی دنیا میں کسی واقعہ کا قبل از تاریخ ہونا اس کی تاریخی حیثیت کو مشتبہ بنا دیتا ہے۔ اسی لیے مغرب میں یہ سوال آج بھی اٹھتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کوئی تاریخی شخصیت تھے یا محض انسانی تخیل کی پیداوار؟ اسلام نے انبیائے بنی اسرائیل و ماقبل کے بارے میں اس بحث کو ختم کر دیا ہے۔ اسلام نے بتایا کہ سیدنا محمدﷺ اس سلسلۂ رشد و ہدایت کی آخری کڑی ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام و سیدنا مسیح علیہ السلام جس کی قدیم کڑیاں ہیں۔ سیدنا محمدﷺ کو ماننا سب کو ماننا ہے۔ ابراہیمی ادیان کی یہی حیثیت ہے جو انہیں جدید عالمی نظم کی تشکیل میں اہم بنا دیتی ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں انسانوں کی غیرمعمولی اکثریت ابراہیمی مذاہب پر ایمان رکھتی ہے۔ یوں ان کے ماننے والے تاریخی عمل پر اثر انداز ہونے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ سیاسی قیادت اور قدرتی وسائل بھی ان ہی کے قبضے میں ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کی اکثریت مسیحی ہے۔ وہ مذہب کے بارے میں زیادہ حساس نہ ہونے کے باجود ایک مذہبی تشخص رکھتی ہے جس میں ایک عصبیت بننے کی قوت موجود ہے۔ قدرتی وسائل سب سے زیادہ مسلمانوں کے پاس ہیں۔ جدید مالیاتی نظام پر یہود کا تسلط ہے۔
ان تینوں مذاہب کے ماننے والوں کو مشرقِ وسطیٰ سے غیرمعمومی دلچسپی ہے۔ مسلمانوں کا دینی مرکز سرزمینِ حجاز ہے۔ یہود کی واحد ریاست یہیں پر ہے اور ان کا دینی مرکز بھی۔ سیدنا مسیحؑ کی زندگی یروشلم کے بغیر نامکمل ہے اور مسیحیت کی تاریخ بھی۔ اسی وجہ سے یہ تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ یروشلم کو ایک کھلا شہر قرار دیا جائے۔ اس سبب سے بھی مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی تبدیلی عالمی سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہونے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتی ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ اسرائیل کے وجود کو قبول کرنا ہے۔ بالفعل تو اسے ساری دنیا نے قبول کر رکھا ہے۔ چند مسلمان ممالک ابھی تک اس کا با ضابطہ اعلان نہیں کر سکے۔ اب لگتا ہے کہ وہ وقت بھی قریب آگیا ہے۔ تین مسلم ممالک اس حوالے سے سب سے اہم ہیں۔ سعودی عرب‘ ترکیہ اور ایران۔ سعودی عرب اس کے لیے آمادہ ہے اور اس کے بے شمار شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں پہلی مرتبہ اسرائیل کا باضابطہ وفد سعودی عرب میں یونیسکو کے ایک اجلاس میں شریک ہوا۔ شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ باہمی تعلقات نارمل ہو رہے ہیں۔
ترکیہ پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کیے ہوئے ہے۔ دو دن پہلے اقوامِ متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس کے موقع پر صدر طیب اردوان کی اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی ہے۔ ایران ابھی تک مزاحمت کر رہا ہے۔ ایران اس سارے معاملے کو مذہبی زاویے سے دیکھ رہا ہے اور دوسرے ممالک تزویراتی اور سیاسی حوالے سے۔ ایران نے اس پیش رفت پر تنقید کی ہے جو سعودی عرب اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کے ضمن میں ہوئی ہے۔ وہ اسرائیل کو ایک صہیونی ریاست کہتا ہے۔ دیگر مسلم ممالک نے اس اصلاح کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ ایران اس معاملے کوکیوں مذہبی رکھنا چاہتا ہے‘ یہ ایک الگ کالم کا موضوع ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔
ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ اسرائیل کے وجود پر اس وقت عالمی قوتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ امریکہ‘ چین اور روس‘ سب اس کو مانتے ہیں۔ روس ایک دور میں فلسطینیوں کی جد وجہد کا حامی تھا۔ اس کا تعلق سرد جنگ سے تھا۔ جب سے تاریخ کا یہ عہد تمام ہوا‘ فلسطینیوں کے لیے روس کی گرم جوشی باقی نہیں رہی۔ بائیں بازو کی تنظیمیں اسے امریکہ کے خلاف استعمال کرتی ہیں مگر وہ ریاستوں کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی سکت نہیں رکھتیں۔ فلسطینیوں کے وہ گروہ جو اسرائیل کے وجود کو مٹانا چاہتے ہیں‘ ان کی سیاسی تائید اور مادی نصرت اب کم و بیش ختم ہو گئی ہے۔ ایران کے علاوہ شاید ان کا کوئی ریاستی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ اسرائیل کے وجود کو دنیا نے اسی طرح قبول کر لیا ہے جس طرح کشمیر پر بھارت کا قبضہ یا بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر۔
اس تجزیے سے واضح ہو گیا ہو گا کہ نیا مشرقِ وسطیٰ اب کیسا ہے؟ یہ وہ نہیں ہے جو ہمارے مذہبی تصورات یا قومی بیانیے کا حصہ ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہو گا کہ کسی غیر اخلاقی تسلط کو دنیا نے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی قبولیت اور عدم قبولیت کا تعلق تاریخ کے جبر سے ہے۔ آخر ہم نے باؤنڈری کمیشن کے فیصلے کو قبول کیا جس نے جونا گڑھ کو بھارت کا حصہ بنا دیا۔ تاریخ وہاں پہنچ چکی تھی کہ اس کا پہیہ ماضی کی طرف نہیں گھوم سکتا تھا۔
پاکستان اس معاملے میں سعودی عرب اور ترکیہ سے مختلف پالیسی اختیار نہیں کر سکتا۔ اس کے اسباب مذہبی ہیں‘ سیاسی ہیں اور معاشی بھی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان نے کیا اس معاملے میں کوئی پالیسی بنائی ہے؟ اگر بنائی ہے تو پھر لازم ہے کہ عوام کو اس بارے میں اعتماد میں لیا جائے۔ کل اگر کوئی ایسا فیصلہ ہوا جو عوامی جذبات سے متصادم ہو گا تو اس سے لوگوں میں اضطراب پیدا ہو گا اور ریاست کے مابین عدم اعتماد بڑھ جائے گا۔ حکومت اس حوالے سے جو بھی سوچ رہی ہے‘ لازم ہے کہ عوام کو اس مؤقف کا علم ہو اور اس کے دلائل کا بھی۔
پاکستان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کو خطے میں اپنے تشخص اور مفادات کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ اس کی پہلی ترجیح ہے۔ ایک مضبوط پاکستان ہی دوسروں کی مدد کے قابل ہو گا۔ بقا کی جنگ قومی ریاست کے اس تصور سے جڑی ہوئی ہے جس کے تحت ریاست ایک مادی وجود کا نام ہے جس کی بقا کا سامان عالمِ اسباب میں ہے۔ جس معاملے میں سعودی عرب‘ ترکیہ اور چین ہم نوا ہوں پاکستان کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ ایک مختلف لَے کے ساتھ شریکِ محفل ہو۔
ریاست معلوم نہیں کہ کب عوام کو اعتماد میں لے مگر ہمیں عوام کو خبردار کرنا چاہیے کہ وہ ذہنی طور پر ایک مختلف صورتحال کے لیے تیار رہیں۔ نیا مشرقِ وسطیٰ وجود میں آرہا ہے۔ جس طرح 1940ء کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ نے ایک نئے جغرافیے کی بنیاد رکھی‘ اسی طرح آج بھی مشرقِ وسطیٰ ایک نئی تاریخ کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ نیا سعودی عرب۔ نیا اسرائیل۔ نئے مشرقِ وسطیٰ کے نقشے پر کیا فلسطین بھی ہے؟ میرے پاس اس وقت اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔