"KNC" (space) message & send to 7575

چوالیس سالہ غلطی

1979ء میں اقتدار کے زچہ بچہ مرکز میں جس غلطی نے جنم لیا‘ اس کے بچے نہ صرف جوان ہو چکے بلکہ اب خود بھی صاحبِ اولاد ہیں۔ نسل صرف ذی روح ہی کی نہیں ہوتی‘ اعمال کی بھی ہوتی ہے۔ صدقہ جاریہ کیا ہے؟ نیکی کا ایسا شجر جو برگ و بار لاتا اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ گلستان بن جاتا ہے۔
1979ء میں ریاستِ پاکستان نے فیصلہ کیا کہ اس نے افغانستان کی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ فیصلہ اگر ریاست ہی تک محدود رہتا تو شاید ہم ان نقصانات کو برداشت کر نے کے متحمل ہو جاتے جنہوں نے اس جنگ کی کوکھ سے جنم لیا۔ ریاست نے مگر اپنے ساتھ معاشرے کو بھی اس جنگ میں جھونک دیا۔ ہماری تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا۔ ابتدائی ماہ و سال میں قبائل نے کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بندوق اٹھائی لیکن وہ ریاست کا نہیں‘ ان کا اپنا فیصلہ تھا۔
پاکستان 1965ء میں بھارت کے ساتھ ایک باضابطہ جنگ لڑ چکا ہے۔ اس جنگ میں پوری پاکستانی قوم شریک تھی۔ یہ شرکت مگر عسکری نہیں تھی۔ بوڑھے اپنی دعاؤں کے ساتھ‘ خواتین اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے‘ جوان وسائل جمع کرتے ہوئے اس جنگ میں شریک تھے۔ محاذِ جنگ پر تو صرف پاکستان کی افواج لڑ رہی تھیں۔ بندوق صرف ریاست کے ہاتھ میں تھی۔ اللہ نے کرم کیا۔ ہمارے فوجی جوانوں نے اپنے لہو سے بہادری کی اَن مٹ داستانیں لکھیں اور ہماری سیاسی غلطیوں کا کفارہ ادا کیا۔ ہم نے اس معرکے کی بھاری معاشی قیمت ادا کی جو ہر جنگ کا ناگزیر نتیجہ ہے مگر ہمارا سماج محفوظ رہا۔ نہ صرف محفوظ رہا بلکہ اس جنگ نے قومی وحدت کو جنم دیا جس نے آنے والے دنوں میں سیاسی بیداری کے حوالے سے ایک مثبت کردار ادا کیا۔ ہم داخلی طور پر کسی خوف میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ہمارے سماجی ڈھانچے کو کوئی زد نہیں پہنچی۔
1979ء میں ریاست نے ایک بھیانک غلطی کی۔ اس نے اس جنگ میں پوری قوم کو عسکری طور پر جھونک دیا۔ نوجوانوں کی ذہن سازی کی اور ان کے ہاتھ میں بندوق تھما دی۔ مذہبی جماعتوں نے مجاہدین کی فراہمی میں ریاست کا پورا ساتھ دیا۔ پاکستان کے کوچہ و بازار جنگ کے تربیتی مراکز بن گئے۔ فوج جو کام تربیت گاہوں میں کرتی تھی‘ اب گلی بازار میں ہونے لگا۔ سماج کو میدانِ جنگ بنا دیا گیا۔ اس میں اضافہ یوں ہوا کہ باہر سے آنے والے مجاہدین کو ان کے اسلحے سمیت ملک بھرمیں پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ قومی سرحدیں بے معنی ہوگئیں۔ 'پان اسلام ازم‘ پورے جوبن پر تھا اور لوگوں کو بتایا جا رہا تھا کہ یہ سرحدیں تو استعمار نے قائم کی ہیں۔ مسلمانوں کے ایک امت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی وحدت ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحد عملًاختم ہو گئی۔ بظاہر افغان مہاجرین کیلئے کیمپ بنائے گئے تھے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ پاکستان میں جہاں چاہیں‘ آباد ہو سکتے تھے۔
یہ جنگ اور دوسرے ملکوں بالخصوص افغانستان سے آنے والوں کا قیام طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ انہوں نے پاکستان میں شادیاں کیں اور اپنے گھر بسا لیے۔ ان کے بچے یہاں جوان ہو گئے اور ریاستِ پاکستان نے انہیں اپنی شناخت بھی دے دی۔ جنہوں نے ہمیں اس جنگ میں دھکیلا تھا وہ دس سال بعد بوریا بستر سمیٹ کر روانہ ہو گئے۔ باقی رہنے والے جنگجو اور اسلحہ پاکستان میں پھیل گئے۔ جنگ میں پھیلائے جانے والے نظریات اور اسلحے نے کہیں تو استعمال ہونا تھا۔ وہ معصوم پاکستانیوں پر آزمائے گئے۔ پاکستانی معاشرہ خوف اور افلاس کی لپیٹ میں آگیا۔
یہ حادثہ ہر اس ملک کے ساتھ ہوا جس نے اپنے شہریوں کو افغانستان کی جنگ میں جھونکا۔ سعودی عرب‘ شام‘ عراق‘ انگلستان‘ امریکہ... ہر وہ ملک نے جس نے افغانستان کی جنگ میں اپنے شہریوں کو بھیجا اور اس میں شرکت کے لیے آسانیاں پیدا کیں وہ داخلی سطح پر فساد کا شکار ہوا۔ امریکہ‘ انگلستان اور سعودی عرب جیسے ملک اس کے مضر اثرات پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔ ہم اس دلدل میں دھنس گئے اور آج تک ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
ترکیہ اور ملائیشیا جیسے ملکوں کی قیادت زیادہ دور بین تھی۔ انہوں نے اپنے شہریوں کو اس آگ کا ایندھن نہیں بننے دیا۔ ترکیہ کی فوج نیٹو کا حصہ ہونے کے ناتے افغانستان میں امریکیوں کے شانہ بشانہ لڑتی رہی لیکن ریاست نے اپنے شہریوں کو اس سے دور رکھا۔ یوں ترکیہ سماج داخلی اضطراب سے محفوظ رہا۔ یہی معاملہ دوسرے مسلم ممالک کا بھی ہے۔ پاکستان پر جو عذاب ٹوٹا اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔
ریاست کو اس غلطی کا احساس ہوا مگر بعد از خرابیٔ بسیار۔ احساس ہونے تک یہ غلطی انڈے بچے دے چکی تھی۔ اس کی دو نسلیں جوان ہو گئیں اور اس کی اولاد پاکستان میں پھیل گئی۔ 'پیغامِ پاکستان‘ سے ریاست نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ ہمارے فوجی جوان مگر آج بھی شہید ہو رہے ہیں۔ پولیس والے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام مسجدوں میں شہید ہو رہے ہیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ 1979ء میں جنم لینے والی غلطی کی سزا ہمیں کب تک ملتی رہے گی۔
گمان یہ تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو ہم شمال مغربی سرحد سے محفوظ ہو جائیں گے۔ یہ گمان بھی فہم اور اندازے کی غلطی ثابت ہوا۔ ہم مزید غیر محفوظ ہو گئے۔ آج اگر کسی محاذ پر ہمارے جوان سب سے زیادہ کام آ رہے ہیں تو وہ یہی ہے۔ اقتصادی بدحالی کی اسباب بھی یہیں جمع ہو گئے ہیں۔ گندم ہو یا ڈالر‘ یہی سرحد سمگلنگ کا مرکز ہے۔ داخلی امن کو اگر خطرات لاحق ہیں تو ان کا سلسلہ بھی اسی سرحد سے آجڑتا ہے۔
آثار ہیں کہ ریاست کو اس کا اب ادراک ہو چلا ہے کہ خرابی کی بنیاد کیا ہے؟ اس وقت درست سمت میں اقدام بھی کیے جا رہے ہیں۔ سب سے اہم آبادیوں میں موجود غیرملکی عناصر کی نشان دہی ہے۔ یہ آسان کام نہیں۔ ایسے لوگ بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں اور بہت سے وہ ہیں جن کے ہاتھ میں پاکستان کا شناختی کارڈ بھی ہے۔ جن کے پاس دستاویزات نہیں انہیں نکالنا نسبتاً آسان ہے مگر جو دو نسلوں سے یہاں آباد ہیں‘ ان کا معاملہ سہل نہیں۔ ریاست کا اصل امتحان یہی ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں سے ہمارا تعلق خیر خواہی کا ہونا چاہیے۔ ہم اگر ان کی مدد کر سکتے ہیں تو ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ریاستِ پاکستان کے لیے مگر مقدم ریاست کے مفادات ہیں۔ پاکستان نام کی چار دیواری کے اندر بسنے والے تمام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اس کی اخلاقی‘ دینی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ یہی اس کی ترجیح ہونی چاہیے۔ باہر سے آنے والے پاکستان کے قانون کے مطابق یہاں قیام کر سکتے ہیں۔ ناجائز قیام لیکن جرم ہے اور ریاستِ پاکستان ان کے خلاف اقدام کا حق رکھتی ہے۔
پاکستان اگر سمگلنگ کو روک سکے‘ لوگوں کی آمدو رفت کو قوانین کے تابع رکھ سکے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے سمجھنا ہو گا کہ آج ہمارے لیے سب سے زیادہ خطرات اگر کہیں ہیں تو وہ شمال مغربی سرحد کی طرف سے ہیں۔ یہ بات سمجھ لینے کا مطلب خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلی ہے۔ اس کے بہت سے مضمرات ہیں‘ ریاست امید ہے کہ ان کے بارے میں باخبر ہو گی۔
جس غلطی کی کوکھ سے اس کی دو نسلیں جنم لے چکیں‘ اس کی اصلاح کتنا وقت لے گی‘ میرے لیے اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ تاہم بعد از خرابیٔ بسیار ریاست کو ایک بات ضرور سمجھ لینی چاہیے: جو قوم عوام کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دیتی ہے‘ اس کی سرحدیں محفوظ رہتی ہیں نہ اس کے عوام۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں