یورپ میں مذہب بیزاری کس نے پیدا کی؟
تاریخ اس سوال کے جواب میں 'کلیسا‘ کا نام لیتی ہے۔ کلیسا کیا ہے؟ یہ ان اہلِ مذہب کا استعارہ ہے جوکسی الہامی سند کے بغیر خود کو زمین پر خدا کا نمائندہ سمجھتے اور عوام کو بزور اس کا پابند بناتے ہیں کہ وہ ان کی دینی تعبیرات پر ایمان لائیں۔ بصورتِ دیگر مذہبی عدالتوں کی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ اہلِ یورپ پر ایک وقت آیا کہ ان کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا اور انہوں نے اہلِ مذہب کے خلاف بغاوت کر دی۔ اہلِ مذہب کو دیوار سے لگا دیا گیا اور سیاست و سماج میں مذہب کا ذکر جرم بن گیا۔ اہلِ مذہب نے اس کو قبول کر لیا۔ وہ ایسا نہ کرتے تو انہیں دیوار کے ساتھ بھی جگہ نہ ملتی۔
اس عمل کا آغاز کیسے ہوا؟ انسان نے جب خدا کی عطا کردہ عقل و خردکی مدد سے‘ خدا کی کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی اور ان قوانین کو دریافت کیا جن پر اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو قائم کیا اور رکھا ہوا ہے تو اہلِ مذہب نے اسے اپنی اقلیم میں مداخلت سمجھا کیونکہ وہ اس زمین اور کائنات کے بارے میں کچھ خیالات کو اختیار کیے ہوئے تھے اور اسے مذہب کا مقدمہ بنا کر پیش کرتے تھے۔ انسان کے حسی مشاہدے اور عقلی نتائج نے ان مقدمات کو رَد کر دیا۔ اہلِ مذہب نے اپنے خیالات کے خلاف پیش کیے جانے والے نظریات کو‘ جنہیں وہ خدا کی طرف سے بغیر کسی سند کے پیش کر رہے تھے‘ مذہب کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ ایسے خیالات کے حاملین کو قابلِ گردن زدنی قرار دیا۔ اس کی ایک مثال گلیلیو ہے۔
گلیلیو کی کہانی کیا ہے؟ یہ کہانی بار ہا سنائی جا چکی لیکن اس کے باوصف واقعات کا تقاضا ہے کہ اسے دہراتے رہنا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسے واقعات کب تک جاری رہیں گے جو اس کہانی کو بیان کر نے کا جواز بنتے ہیں۔ انسان کو ہمیشہ یہ جستجو رہی کہ وہ اس کائنات کی حقیقت کو دریافت کرے۔ فلسفی غور کرتے اور اپنے نتائجِ فکر بیان کرتے رہے۔ اس کا ایک اہم سنگِ میل ایک یونانی فلسفی پٹولومی کا پیش کردہ نظریہ ہے جس نے دوسری صدی عیسوی میں یہ بتایا کہ زمین اس کائنات کا مرکز ہے۔ سورج اور ستارے اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اہلِ کلیسا اس سے متاثر ہوئے اور اسے بطور مذہبی عقیدہ اختیار کر لیا۔
اس کا بائبل میں کوئی ذکر تھا نہ سیدنا مسیحؑ سے اس کی کوئی روایت تھی۔ پھر یہ کہ اس کا مذہب کے مقدمے سے کوئی جوہری تعلق بھی نہیں تھا جس کا اصل مقصد انسان کی اخلاقی تطہیر ہے۔ اہلِ کلیسا نے مگر اسے مذہب کے مسلمات میں شامل کر لیا۔ کائنات پر غور و فکر کا یہ عمل جاری رہا اور چودہ سو سال بعد ایک سائنس دان کوپر نیکس نے اس نظریے کو چیلنج کر دیا۔ اس نے بتایا کہ سورج مرکز ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ اسے معلوم تھا کہ یہ بات کلیسا کے خیالات سے متصادم ہے اور اگر اسے عامۃ الناس میں پیش کیا گیا تو وہ فتوے کی زد میں آجائے گا۔ اس نے اپنے خیالات کو چند دوستوں ہی تک محدود رکھا۔
اس کے ایک سو سال بعد گلیلیو نے اپنی دور بین کی مدد سے کائنات کا مشاہدہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ کوپر نیکس درست کہتا تھا۔ اس کی تحقیق سامنے آئی تو حسبِ توقع کلیسا سیخ پا ہوا۔ اس کے خیالات کو مذہب کے خلاف قرار دیا۔ گلیلیو نے پادری کو خط لکھا کہ بائبل اخلاقیات کی کتاب ہے‘ سائنس کی نہیں۔ 1615ء میں ایک دوسرے پادری نے ویٹیکن کو اس کے خلاف شکایت کی۔ فروری 1616ء میں اسے کلیسا کی طرف سے تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنے مذہبی خیالات سے رجو ع کرے۔ گلیلیو مگر باز نہیں آیا۔ 1632ء میں اس نے اپنی کتاب شائع کر دی۔
یہ جسارت اہلِ مذہب کے نزدیک قابلِ معافی نہیں تھی۔ اسے مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور توہینِ مذہب کا مجرم ثابت ہونے پر اسے اپنے خیالات سے اعلانیہ رجوع کے لیے کہا گیا۔ ساتھ ہی اہلِ مذہب سے معافی مانگنے کاحکم بھی دیا گیا۔ گلیلیو نے معافی مانگی اور اس کے باوجود باقی عمر قید خانے میں گزاری۔ عدالت سے معافی طلب کرنے اور اپنے خیالات سے رجوع کا اعلان کر نے کے بعد وہ عدالت سے نکلا تو اپنے آپ سے ہم کلام تھا: ''میرے رجوع سے فطرت کے قوانین تو نہیں بدلیں گے۔ زمین سورج کے گرد گھومتی رہے گی‘‘۔ گلیلیو کو دنیا سے رخصت ہوئے پانچ سو برس سے زیادہ گزر چکے۔ زمین آج بھی سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور اہلِ کلیسا کے پاؤں تلے سے نکل چکی ہے۔
گلیلیو کی کہانی یورپ کے مزاج کو بدل گئی۔ وہ خود قید خانے میں بند ہو گیا مگر اس جیسوں کی تحقیق نے انسانی ذہن کو آزاد کر دیا۔ انسان نہ صرف آزاد ہوا بلکہ مذہب بیزار ہو گیا۔ ایک وقت آیا کہ اہلِ کلیسا کے لیے اپنے وجود کو باقی رکھنا مشکل ہو گیا۔ مارٹن لوتھر نے کلیسا کو چیلنج کیا۔ اس نے سوال اٹھایا: تمہیں مذہب کا نمائندہ کس نے بنایا ہے؟ خدا کی طرف سے کوئی سند؟ مسیحؑ کی کوئی روایت؟ اہلِ مذہب کے پاس کچھ نہیں تھا۔ ان کے پاس واحد راستہ پسپائی تھا۔
گلیلیو تک سائنس اور عقل کا یہ سفر رُکا نہیں۔ گلیلیو کی دور بین چھوٹی تھی۔ بیسویں صدی میں ہوبل نے ایک بڑی دور بین بنا لی۔ اس نے بتایا کہ یہ کائنات یک جہتی (Uni-Verse) نہیں کثیر الجہت (Multi -Verse) ہے اور مسلسل پھیل رہی ہے۔ وہی کلیسا جس نے گلیلیو کو سزا سنائی تھی‘ بیسویں صدی میں گلیلیو اور تاریخ سے معافی کا خواست گار تھا۔ 9مئی 1983ء کو پوپ نے‘ جو مسیحیت کے سوادِ اعظم کی نمائندگی کر رہے تھے‘ اعلان کیا: ''کیتھولک چرچ نے گلیلیو سے نا انصافی کی۔ کیتھولک روایت نے وقت سے یہ سیکھا ہے کہ ہمیں سائنس کی روایت کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔
گلیلیو کی کہانی نے بتایا ہے کہ اہلِ مذہب جب اپنی حدود سے تجاوز کرتے اور مذہب کا مقدمہ غلط بنیادوں پر پیش کرتے ہیں تو اس سے مذہب کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لوگ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ مذہب سے نجات حاصل کیے بغیر انسان ترقی کر سکتا ہے نہ ایک عقلی وجود کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے۔ ذہین لوگ اہلِ مذہب کے خوف سے ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر اہلِ مذہب کو اپنا وجود باقی رکھنے کیلئے عوام سے معافی مانگنا پڑتی ہے۔ دونوں صورتوں میں ملک اور مذہب کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
مسلمان معاشروں میں اگر یہ صورتِ حال درپیش ہو تو یہ زیادہ افسوس ناک ہے۔ مسلمانوں کی کتاب تو وہ ہے جو انسان کو ایک عقلی وجود سمجھتے ہوئے اسے اپنا مخاطب بناتی اور اس کی اخلاقی تطہیرکا اہتمام کرتی ہے۔ قدم قدم پر اسے تفکر اور تدبر کی تلقین کرتی ہے۔ پھر یہ کہ مسلمان معاشرہ تو کھڑا ہی ختمِ نبوت کے عقیدے پر ہے۔ یہ عقیدہ بتاتا ہے کہ سیدنا محمدﷺ کے بعد کوئی نبی آنا ہے نہ رسول۔ گویا آپ کے بعد کسی فرد کو یہ حیثیت حاصل نہیں کہ اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مسلم روایت میں کلیسا کا کوئی وجود نہیں۔
گلیلیو کی کہانی لازم ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی دہرائی جاتی رہے۔ اس سے ہمیں یاد رہے گا کہ معاشروں میں مذہب بیزاری کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟