کیا رگِ تاک میں اب کوئی بادۂ ناخوردہ باقی نہیں؟
سیاست ایک بانجھ سر زمین ہے۔ یہاں خاک اُڑتی ہے‘ گلاب و سمن نہیں کھلتے۔ کوئی برگِ سبز کی تمنا کرے تو کیسے؟ کوئی امید باندھے تو کیوں کر؟ سیاست گل و گلزار تو کبھی نہیں رہی مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ چار سُو جھاڑ جھنکار ہو۔ کبھی آسمان مہربان ہوا اور زمین لمحہ بھر کو نم ہوئی توکونپلیں پھوٹ پڑیں۔ کچھ کلی بنیں اور پھر ایک گوشہ مہک اٹھا۔ مصحفی نے اسی کا منظر کھینچا ہے:
کیا ادا سے آوے ہے دیوانہ کر کے سیرِ باغ
پھول کانوں میں تو ہیں خارِ مغیلاں ہاتھ میں
آج دیوانے کے ہاتھ بھرے ہیں مگر کان خالی ہیں۔
سیاست میں کبھی یہ صلاحیت تھی ہی نہیں کہ یہاں امید کا بیج برگ و بار دے۔ سیاست تو سماج کی زمین پر ہل چلانے کا نام ہے۔ اگر زمین میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ بیج کو اپنے آغوش میں لے اور اس میں زندگی کے آثار پیدا کر دے تو جتنی تخم ریزی چاہیں کریں‘ جتنا ہل چاہیں چلائیں‘ اس میں کچھ اُگنے والا نہیں۔ زمین کو ذرخیز کوئی اور بناتا ہے۔ ہم اہلِ سیاست سے اُس کام کا گلہ کرتے ہیں جس کے لیے وہ مسئول ہی نہیں۔ سیاست پامال راستوں پر آگے بڑھتی ہے۔ سیاست کی منزل آج بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔ ندرتِ فکر‘ نہ نئی بستیاں آباد کرنے کی آروز۔ آج بھی وہ ان امکانات کی تلاش میں سرگرداں ہے جو اس کے لیے منزل تک رسائی کو سہل بنا دیں۔
نا امیدی کب پیدا ہوتی ہے؟ جب بنجر زمین سے یہ آرزو وابستہ ہو جاتی ہے کہ یہاں گلزار کھلیں گے۔ رسیلے پھل ہوں گے اور نکہت فشاں پھول۔ سیاست میں مصلح ہوں گے اور وہ سب کچھ تبدیل کر دیں گے۔ سیاستدان جانتے بوجھتے خواہش کے گھوڑے کو مہمیز دیتے ہیں اور عوام اس پر سوار ہو جاتے ہیں۔ برسوں بعد عوام کو خبر ملتی ہے کہ وہ جس گھوڑے کو برق رفتار سمجھ بیٹھے تھے‘ اس نے تو ایک قدم نہیں اٹھایا۔ اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ اس گھوڑے سے اترتے اور اس جیسے ایک دوسرے کھوڑے پر اُسی امید کے ساتھ سوار ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کے مقدر میں عمرِ رائیگاں کا ماتم لکھا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
یہ اہلِ دانش ہیں جن کا کام لوگوں کو بتانا ہے کہ سیاست کی زمین میں اصلاح کا بیج نہیں اُگتا۔ ہمیں پہلے وہ سماج پیدا کرنا ہے جس کی زمین پر سیاستدان نے بیج بونا ہے۔ وہ زمین دانشور تیار کرتے ہیں۔ سماج کا خاکہ پہلے فکرِ انسانی میں اُبھرتا ہے۔ یہیں اس کو واقعہ بنانے کا کام ہوتا ہے۔ دانشور پہلے اس عمل کو سمجھتے اور پھر اس کا ابلاغ کرتے ہیں۔ عوام جب اس کو جان لیتے ہیں تو پھر ان کی توانائیاں سماجی تعبیر پر صرف ہوتی ہیں۔ سیاستدانوں سے پھر وہی توقع رکھتے ہیں جو رکھنی چاہیے۔ وہ ان میں مسیحا تلاش کرتے ہیں‘ نہ تبدیلی کا پیامبر۔ ان پر یہ راز کھل جاتا ہے کہ ریاست سماج کے سیاسی پوٹینشل ہی کی عملی صورت ہے۔ یہ سماج سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتی۔ اچھے سیاستدان اچھے سماج کی عطا ہوتے ہیں۔
لوگ جب بہتر ریاستوں یا سیاستدانوں کی مثال دیتے ہیں تو وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ حاصل کو بیان کر رہے ہیں‘ نہ کہ اس عمل کو جس کا یہ نتیجہ ہے۔ یہ سماج ہے جس نے دیانتدار سیاستدان پیدا کیے نہ کہ یہ سیاستدان ہیں جنہوں نے سماج کو جنم دیا۔ جس یورپ کے ہم گیت گاتے ہیں‘ وہاں بھی کبھی بادشاہ تھے۔ مذہبی تشدد تھا۔ جاگیر دار تھے۔ ایک وقت آیا کہ سماج کی اخلاقی اور ذہنی سطح اتنی بلند ہو گئی کہ ان کے لیے یہ سب ادارے ناقابلِ قبول ہو گئے۔ جب یہ مرحلہ آیا تو قانونِ فطرت کے مطابق ناگزیر تھا کہ بادشاہ کا ادارہ ختم ہو جائے یا تبدیل ہو جائے۔ کلیسا ختم ہو جائے یا اپنے سماجی کردارکو تبدیل کر لے۔ بادشاہ نے عوام کے لیے اپنی جگہ خالی کردی کہ اب مسندِ اقتدار پر وہی بیٹھے گا جسے وہ بٹھانا چاہیں گے۔ نہ کہ بادشاہ کی جگہ اس کا بیٹا۔
تاہم‘ یہ عمل خلا میں نہیں ہوتا۔ اسی زمین پر ہوتا ہے جہاں پہلے سے ایک نظم قائم ہوتا ہے۔ انقلاب کی بات محض افسانہ ہے۔ یہ ارتقا ہے جو حقیقت ہے۔ عملاً ایک طرف اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے اور دوسری طرف ریاست کو بھی فعال رہنا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ سیاسی عمل کو روک دیا جائے اور اس کو سماجی اصلاح تک موخر کر دیا جائے۔ سیاسی عمل جاری رہے گا اور اس کو قدرے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
انتخابات کے نتائج سے اپنی آرزوئیں وابستہ کرنے سے پہلے اس بات کی یاد دہانی بہت ضروری ہے۔ آنے والے انتخابات کے نتائج سے غیرحقیقی توقعات وابستہ کرنے والوں کو مایوسی ہو گی۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ جسے بھی ووٹ دیں گے‘ نتیجہ ایک سا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے۔ اہلِ سیاست کا ماضی ہمارے سامنے ہے۔ ہم جان سکتے ہیں کہ کون ہے جو ریاستی اداروں کو بہتر بنا سکتا ہے۔ کون ہے جس کے پاس ملک کے معاشی استحکام کے لیے کوئی ویژن اور عملی نقشہ ہے۔ کون ہے جس کے پاس محض خواب ہیں اور تعبیر نہیں۔ جو حقیقت کے بجائے عوام کو جذبات اور ہیجان کے گھوڑے پر سوار رکھ سکتا ہے؟ عوام اگر ان سوالات کو سامنے رکھیں گے تو سیاسی عمل کو قدرے بہتر بنا سکیں گے۔
اور اگر عوام کا خیال ہے کہ انتخابات کے نتائج ان کی زندگی کو بدل ڈالیں گے‘ جیسے ہی نئی حکومت بنے گی‘ بنجر زمین سر سبز ہو جائے گی تو انہیں ابھی سے تیار رہنا چاہیے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ جو وہ چاہتے ہیں اس کے لیے ابھی بنیادی کام ہونا ہے اور وہ ہے زمین کی تیاری۔ یہ کام سیاستدانوں نے نہیں کرنا۔ جو نظام اہلِ سیاست کے لیے اقتدار کے دروازے کھولے گا‘ وہی ان کے دائرۂ کار کا بھی تعین کرے گا۔
پاکستانی قوم کو ابھی فکری سطح پر بعض معاملات طے کرنے ہیں۔ اللہ کے پیغمبر بھی یہیں سے آغازکرتے ہیں۔ وہ ایک تصورِ حیات دیتے اور پھر اس کے مطابق انسانی ذہن تیار کرتے ہیں۔ جب ابوبکرؓ و عمرؓ تیار ہو جائیں تو پھر جو سیاسی نظم وجود میں آئے گا‘ وہ خلافتِ راشدہ ہی ہو گا۔ یورپ میں بھی تبدیلیاں اسی ترتیب سے آئی۔ ایک تصورِ حیات پر اجتماعی سطح پر اتفاقِ رائے وجود میں آگیا تو نتیجے کے طور پر اس کا نمائندہ نظام بھی تشکیل پا گیا۔
عوام کو انتخابی عمل سے الگ نہیں رہنا چاہیے۔ اس سے جو خیر کشید کیا جا سکتا ہے‘ اس کی ضرورکوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ اس سے غیرحقیقی خواہشات وابستہ نہ کی جائیں۔ اہلِ سیاست خواب فروشی کرتے ہیں۔ اس سے خبر دار رہنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو سب سے پہلے شعوری سطح پر سیاسی عمل کو سمجھنا ہے۔ نظام صرف مقامی نہیں ہوتا‘ عالمگیر بھی ہوتا ہے۔ یہ نظام اہلِ سیاست اور اہلِ حکومت کو کتنی جگہ دیتا ہے‘ اس کو جاننا ہے۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سے اسباب ہیں کہ 75برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی سیاسی حکومت مسئلہ کشمیر حل کر سکی نہ غیرسیاسی حکومت۔ اس بات کو قبول کرنا عقلاً محال ہے‘ کوئی ایک حکومت ایسی نہیں آئی جس نے دیانت داری سے یہ مسئلہ حل کرنا نہ چاہا ہو گا۔
اہلِ سیاست سے وہی توقعات وابستہ کریں جو پوری ہو سکتی ہیں۔ بنجر زمین میں برگِ سبز کہاں؟ ہاں‘ اگر کوئی ایک آدھ ہالی دکھائی دے جائے تو اسے غنیمت سمجھیے۔