چھ افراد کو مار دینے کا مطلب ہے پوری انسانیت کو چھ بار قتل کرنا۔ میرا دین‘ اسلام تو یہی کہتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب کا اعلان ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان لی اس نے پوری انسانیت کو مار ڈالا۔
فقیہ اور قانون دان بتائیں گے کہ قتلِ عمد اور قتلِ غیرعمد میں فرق ہوتا ہے۔ یہ قتلِ عمد نہیں‘ محض ایک حادثہ تھا۔ وکیل بڑی بڑی فیسیں لینے کے بعد‘ بڑی بڑی کتابیں اٹھائے عدالت میں پیش ہوں گے اور منصف کو سمجھائیں گے کہ ملزم کم عمر ہے اور اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔ سول سوسائٹی متحرک ہو جائے گی کہ سزائے موت تو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ ان کی مشترکہ کاوشیں اگر کامیاب ہو گئیں تو عدالت ملزم کو باعزت بری کر دے گی۔ کیا اس سے قانون کی منشا پوری ہو جائے گی؟ کیا اسلام کا مقصد یہی تھا کہ یہ خون رزقِ خاک ہو جائے؟ کیا اس سے ریاست کی رِٹ قائم ہو جائے گی؟ کیا اس طرح انسانی حقوق محفوظ ہو جائیں گے؟ کیا تباہ خاندان کو قرار آ جائے گا؟
مذہب زندگی کا محافظ ہے۔ وہ انسان کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ آخرت میں ناکامی ہے۔ اس لیے اس کا سب سے زیادہ اصرار بھی اسی پر ہے‘ تاہم دنیا کو قانون دینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس سے انسان کو تحفظ مل سکے۔ اسی لیے کہا گیا کہ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ اگر چھ افراد مار دیے جائیں‘ پورا معاشرہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہو جائے تو اس سے مذہب کا مقصد ہر گز پورا نہیں ہوتا۔
ریاست قائم ہی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرے۔ قانون کی ضرورت اسی وقت پیش آتی ہے جب کسی کا حق پامال ہوتا ہے۔ سب سے اولین حق زندہ رہنے کا حق ہے۔ اگر چھ افراد کی جان چلی جائے اور اس پر کسی کوکوئی سزا نہ ہو تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ریاست کا وجود بے معنی ہو گیا۔ قانون کی کوئی افادیت نہیں۔ ریاست کو پھر اپنی ناکامی کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ اس معاملے کو اگر متاثرہ خاندان کی آنکھ سے دیکھا جا ئے گا تو یہ ہمارے لیے زیادہ قابلِ فہم ہو گا۔
انسانی حقوق میں زندہ رہنے کا حق سب حقوق پر مقدم ہے۔ چھ افراد کے قاتل کو اگر چھوڑ دیا جائے‘ اس دلیل کی بنیاد پرکہ ملزم کے انسانی حقوق ہیں تو پھر اس سوال کا جواب دینا لازم ہوگا کہ مظلوم کے حقوق کیا ہوں گے؟ کیا اس خاندان کے کوئی حقوق نہیں جو بے گناہ مارا گیا؟ چند ماہ کے اس بچے کا کوئی حق نہیں جس سے جینے کا حق چھین لیا گیا؟ انسانی حقوق ہمیشہ قاتل ہی کے کیوں ہوتے ہیں؟
پھر اس جرم کا ملزم ایک نہیں ہے‘ بہت سے ہیں۔ ایک تو وہ لڑکا ہے جس نے پورے خاندان کو کچل ڈالا۔ کم عمری کا عذر کیا اس کو تحفظ دے سکتا ہے؟ کم عمری کے باوجود وہ گاڑی چلا سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس پر اعتبار کیا جائے تو وہ مقتولوں کو ہراساں بھی کرتا رہا۔ ہماری فقہی تفہیم کے مطابق اس کی یہ عمر تو ہے کہ وہ ایک خاندان کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ جو اتنا ذمہ دار ہے کہ ایک خاندان چلا سکتا ہے‘ کیا وہ قتلِ عمد کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا؟ میرا خیال ہے یہ سوال قانون کے ان ماہرین کے لیے چیلنج ہے جو اسلامی یا سیکولر قوانین کے شارح ہیں۔
اس قتل میں ڈرائیور کا باپ یا سرپرست بھی شامل ہے۔ اس سے دو جرائم سر زد ہوئے۔ ایک تو اس نے اولاد کی درست تربیت نہیں کی۔ اوباش نوجوان دراصل والدین کی ناکامی کا ثبوت ہوتے ہیں۔ جو خواتین کا پیچھا کرتا ہو‘ 160کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آبادیوں میں گاڑی دوڑاتا ہو‘ اس کے باپ نے یقینا اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ قانون کی نظر میں تو شاید یہ کوئی جرم نہ ہو لیکن اخلاق اور سماج کی نگاہ میں یہ ناقابلِ معافی گناہ ہے۔
اس باپ کا دوسرا جرم یہ ہے کہ اس نے کسی قانونی استحقاق کے بغیر گاڑی اس کے حوالے کی۔ اسے یہ بات یقینا معلوم ہو گی کہ بغیر لائسنس گاڑی نہیں چلائی جا سکتی۔ جس کی جوان اولاد ہو‘ اس کی اتنی عمر تو ہوگی کہ ہم اسے جہاں دیدہ کہیں۔ یہ مان لینا عقلاً محال ہے کہ اسے اس قانون اور ضابطے کا علم نہیں۔ اسے معلوم تھا کہ ایک ناتجربہ کار کے ہاتھ میں گاڑی دینے کا مطلب اس کی اور دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس لیے وہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔
اس جرم میں ٹریفک پولیس بھی پوری طرح شریک ہے جو ایسے لوگوں سے صرفِ نظر کرتی ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ میں ہر دن سڑکوں پر ایک سے زیادہ ایسے ڈرائیور دیکھتا ہوں جن کی عمریں بارہ چودہ سال ہیں۔ بچے موٹر سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں۔ اس پہ مستزاد ان کی خرمستیاں۔ ان کو دیکھ کر آدمی اس خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کہیں اس کے ہاتھوں مارا نہ جاؤں۔
پاکستان میں ٹریفک کے حادثات میں جتنے لوگ مرتے ہیں‘ ان کی تعداد دہشت گردی میں مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ محترم اظہار الحق صاحب اس پر کئی بار لکھ چکے۔ یہ خامہ فرسائی بے معنی نہیں ہوتی۔ اس کا مقصد ایسے حادثات کی روک تھام ہے۔ ان حادثات کے ایک سے زیادہ اسباب ہیں۔ ایک بڑا سبب غیر ماہر ڈرائیور ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا حال بھی یہی ہے کہ گاڑیوں کی باگ نااہلو ں کو تھما دی جاتی ہے۔ اس پر نظر رکھنا حکومت کا کام ہے۔ ہماری سڑکیں مقتل بن چکی ہیں اور ہمیں اس کا کوئی احساس نہیں ہے۔
پاکستان میں سڑک پر چلتی زندگی کو محفوظ بنانا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس کو حل کرنا ہے۔ قانون‘ تعلیم‘ تنفیذ... یہ سب شعبے اصلاح طلب ہیں۔ زندگی کا حق سب حقوق پر مقدم ہے۔ اس لیے سول سوسائٹی کو بھی اس حوالے سے شعور پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ تعلیم کے حوالے سے دیکھیں تو اسے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ والدین کی تعلیم بچوں کی تعلیم سے زیادہ اہم ہے۔ جب کسی خاندان میں کوئی فرد جرم کرتا ہے تو اس کی سزا سب کو حسبِ قربت بھگتنا پڑتی ہے۔ جس لڑکے نے چھ افراد کی جان لے لی اس کے والد میں اگر زندگی کی کوئی رمق ہوئی تو ایک پچھتاوا عمر بھر اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔
قانون سازی کے باب میں بھی ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جن والدین کی غفلت سے بچے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں‘ اگر کم سن ہیں تو والدین کو بھی شریکِ جرم سمجھنا ہو گا۔ یہ قانون بنا دینا چاہیے کہ کم عمر کے ہاتھوں ہونے والے جرم میں اس کا والد یا سرپرست شریک ہیں۔ اس کے ساتھ ہر حادثے کو ٹریفک پولیس کی نااہلی سمجھنا چاہیے الا یہ کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کر دے۔
انسانی جان کی حرمت کے بارے میں ہم بحیثیت مجموعی بے حسی کا شکار ہیں۔ سماجی جھگڑے ہوں یا سیاسی اختلافات‘ مذہبی فرقہ بندی ہو یا نسلی تعصبات‘ ہمارے ہاں انسانی جان لینا بہت آسان ہے۔ اس پر مستزاد ٹریفک کے حادثات جنہوں نے انسانی جان کو مزید ارزاں کر دیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس حادثے کے بعد پنجاب حکومت نے زندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اسے ایک مہم بنا دینا چاہیے۔ میڈیا نے اس معاملے کو جس طرح اٹھایا ہے‘ وہ قابلِ تعریف ہے۔ اسی سے سماجی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج لازم ہے کہ معاشرے کو انسانی جان کی حرمت کے بارے میں حساس بنایا جائے۔ ایک مسلمان معاشرہ اس سے بے نیاز کیسے ہو سکتا ہے جس کی کتاب یہ کہتی ہے کہ ایک انسان کی جان لینا پوری انسانیت کی جان لینا ہے۔