نظریاتی بحثیں‘ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ ایک مضمون کی تفہیم کے لیے حجاب بن جاتی ہیں۔
'نظریہ‘ آئیڈیالوجی کا ترجمہ ہے۔ آئیڈیالوجی اگرچہ نظریے سے مختلف تصور ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ اس کے لیے اردو میں یہی لفظ مستعمل ہے۔ آئیڈیالوجی سے مراد تعبیر اور افکار کا ایک مجموعہ ہے جس کی حدود متعین ہیں۔ نظریاتی ذہن ان حدود میں رہ کر سوچتا ہے۔ وہ جب کسی مسئلے کا حل تلاش کرتا ہے تو اپنے نظریاتی دائرے سے باہر نہیں نکلتا۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس دائرے سے باہر کوئی حل موجود نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ خام ہے۔ اس کے لیے یہ جاننا ضروری نہیں کہ وہ حل کیا ہے۔ یہ یقین کافی ہے کہ مسئلے کا درست حل اس کے نظریاتی دائرے ہی میں مقید ہے۔ ایک تصورِ حیات میں کئی نظریات کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک نظریہ‘ دوسرے نظریے کو کم ہی قبول کرتا ہے اگرچہ وہ اس تصورِ حیات کے تحت ہی کیوں نہ وجود میں آیا ہو۔
اس پس منظر میں غیر نظریاتی سوچ یہ ہو گی کہ حقیقی مطلوب‘ مسئلے کا حل ہے۔ جو حل عقل کے لیے قابلِ قبول ہوگا‘ تجربے کے مطابق اور اخلاقی معیارات سے متصادم نہ ہوگا‘ اختیار کر لیا جائے گا‘ قطع نظر اس کے کہ وہ کس نظریے کی دَین ہے۔ یہ طرزِ عمل زندگی کو سہل بناتا ہے اور انسانی ذہن کو بھی محدود نہیں ہونے دیتا۔ تصورِ حیات کی پابندی تو قابلِ فہم ہے کہ اس دائرے کو متعین کیے بغیر مقصدِ حیات اور منزلِ حیات کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ آئیڈیالوجی کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ آئیڈیالوجی غیرضروری بحثوں میں اُلجھا دیتی ہے اور یوں انسانی مسائل لا ینحل رہ جاتے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ ہماری ذہنی گرہ بھی یہی ہے۔
ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں انصاف ہو۔ قانون کی حکمرانی ہو۔ طاقتور کمزور پر ظلم نہ کرے۔ انسان آزاد ہو اور سب شہریوں کو مساوی مواقع اور حالات میسر آئیں۔ امن ہو اور لوگوں کو جان و مال کے زیاں کا خوف نہ ہو۔ ایسا معاشرہ کیسے تعمیر ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم ایک متعین آئیڈیالوجی کی قید میں رہیں اور اس کی حدود میں حل تلاش کریں۔ اب اگر وہ آئیڈیالوجی غلط ہے یا متروک ہو چکی ہے تو ہم کبھی اس سوال کا وہ جواب تلاش نہیں کر پائیں گے جو ہم چاہتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دنیا پر نظر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ کیا کہیں کوئی ایسا معاشرہ یا معاشرے پائے جاتے ہیں جو ہمارے خوابوں کے قریب تر ہوں۔ جہاں وہ سب کچھ ہو جو ہم چاہتے ہیں۔ اگر ہے تو اگلا مرحلہ یہ جاننا ہے کہ انہوں نے یہ مقصد کیسے حاصل کیا؟ وہ کیسے خوشحال ہوئے؟ کیا ان کا لائحہ عمل ہمارے لیے بھی قابلِ عمل ہے؟ یہ ممکن ہے کہ دنیا میں لوگوں کی خوشحالی اور امن کے ایک سے زیادہ اسباب ہوں۔ یہ مطالعہ ہمیں بتائے گا کہ کون سا معاشرہ ہم سے قریب تر ہے اور ہم اس کا ماڈل اپنا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ عرب ممالک میں خوشحالی آئی ہے۔ مزید غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب تیل کی دریافت ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہم اس ماڈل کو قبول نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس تیل نہیں ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم نے جاپان کو برباد کر ڈالا تھا۔ اس کے بعد اس نے ترقی کی۔ اس نے یہ ترقی کیسے کی؟ معلوم ہوا کہ اس نے خود کو غیرضروری جھگڑوں سے بچاتے ہوئے‘ ساری قوت اپنی تعمیر پر لگا دی۔ نہ کسی سے انتقام کا سوچا نہ کسی عالمگیر انقلاب کا خواب دیکھا۔ اپنی چار دیواری کو مضبوط بنایا اور ابتداً ان پابندیوں کو بھی قبول کیا جو جائز نہیں تھیں۔ ہمارے لیے سوال یہ ہو گا کہ کیا یہ ماڈل ہمارے لیے قابلِ قبول ہے؟
نظریاتی ذہن کا زاویہ بالکل دوسرا ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک اشتراکی کیا کرے گا؟ وہ سوویت یونین کو دیکھے گا۔ اس کی نظروں کے سامنے اس کے خوابوں کا قلعہ مسمار ہوا لیکن وہ اس سچائی کو قبول کیے بغیر اس کی تاویلات تلاش کرے گا اور اس پر اصرار کرے گا کہ ترقی کا راستہ وہی ہو سکتا ہے جو لینن اور سٹالن نے اپنایا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے کیا کامیابیاں حاصل کیں ہیں‘ اس کی نظریاتی عینک‘ ان کو دیکھنے میں حجاب بن جائے گی۔ وہ لاطینی امریکہ کی سچی جھوٹی کہانیاں سنائے گا۔ کاسترو اور شاویز کو ہیرو بتائے گا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک ایسے حل پر زور دے گا‘ جس کی ناکامی پر تاریخ اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر چکی ہے۔
ایک مثال دوسری طرف بھی ہے۔ اسلام کو تصورِ حیات ماننے والے مختلف ماڈل پر کام کر رہے ہیں اور نتائج دکھا رہے ہیں۔ ان میں انڈونیشیا اور ملائیشیا ہیں۔ ترکیہ ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کی بربریت پر ترکیہ اس کی مذمت تو کر رہا ہے مگر اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود اس کی مذہبی شناخت قائم ہے۔ انڈونیشیا کی مذہبی جماعتوں نے ریاست کی مذہبی تشکیل کے بجائے سماج کی مذہبی تربیت پر ساری توجہ مرتکز کر رکھی ہے اور اپنا دینی تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ ہمارا نظریاتی ذہن ان میں سے کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس نے ایک نظریاتی عینک لگا رکھی ہے جس نے اس کے دیکھنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔
جب ہم تصورِ حیات کی پابندی کو لازم کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ایک مقصدِ زندگی ہے اور اس سے ماخوذ ایک طرزِ زندگی بھی ہے۔ ہم اس دائرے سے نہیں نکلیں گے۔ اس دائرے کے اندر بھی مگر بڑی وسعت ہے۔ یہ وسعت یہ موقع پیدا کرتی ہے کہ ہم ساری دنیا سے اچھائیوں کو تلاش کر سکتے اور انہیں اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں۔ ہم اگر نظریاتی دائرے سے نکلیں تو ساری دنیا سے سیکھ سکتے ہیں‘ ان سے بھی‘ جن کا نظریہ ہم سے مختلف ہو۔
یہی نہیں‘ ہم ان معاشروں میں بھی خیر تلاش کر سکتے ہیں جن کا تصورِ حیات ہم سے مختلف ہے۔ جیسے یورپ اور امریکہ۔ کیا قانون کا احترام یورپ سے نہیں سیکھا جا سکتا؟ کیا اُن سے ایک پُرامن معاشرے کے خدو خال نہیں لیے جا سکتے؟ کیا ان کے اعلیٰ تعلیمی معیارات کی نقل نہیں کی جا سکتی؟ کیا لیڈروں کے انتخاب کے معاملے میں اخلاقی حساسیت‘ ان سے نہیں لی جا سکتی؟ ہر ذی شعور ان سوالات کے جواب اثبات میں دے گا۔
ہمیں آگے بڑھنا ہے تو اپنے ذہنوں کو کھولنا ہوگا۔ نظریات انسان کی فکری مشقت کا حاصل ہیں۔ بہت سے تصوراتِ حیات کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہم مسلمان البتہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمارا تصورِ حیات الہامی ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے۔ تعبیرات جو نظریات کی صورت میں ڈھلتی ہیں‘ وہ ہماری اپنی ہیں۔ اس لیے ان میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ جب معاملہ عقیدے یا تصورِ حیات کا ہو تو انڈونیشیا ہو یا عرب‘ برصغیر ہو یا ترکیہ‘ کہیں کا مسلمان اس پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ سب کی دینی حمیت ایک جیسی ہے۔
ہمیں ان سب کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر انہوں نے اپنے معاشروں کو پُرامن بنایا ہے اور عوام کو معاشی خوشحالی دی ہے تو ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے۔ غیرمسلم معاشروں سے بھی سیکھنا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب نتائج پر نظر رکھیں گے نہ کہ کسی خاص نظریاتی زنداں میں محدود رہ کر کوئی حل تلاش کریں گے۔