امکانات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ ایک آسانی ہر مشکل کے ہم قدم ہوتی ہے۔
اسرائیل کے مظالم پر احتجاج کا ایک طریقہ اُن تجارتی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے جو اس معرکے میں اسرائیل کی ہم نوا ہیں۔ کہیں بالواسطہ‘ کہیں بلا واسطہ۔ بعض نے اعلانیہ اسرائیلی فوج کی تائید کی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اہلِ تجارت کا خدا سرمایہ ہے۔ اگر انہیں اس کے زیاں کا خوف ہو تو وہ اسرائیل سے اعلانِ برات بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے اس حکمتِ عملی کے موثر ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہ امکان امرِ واقع کیسے بن سکتا ہے؟
ہم مغربی مصنوعات کیوں خریدتے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا تعلق ایسی ضروریاتِ زندگی سے ہے جن کا کوئی متبادل ہمارے پاس موجود نہیں۔ جیسے ادویات۔ جیسے اسلحہ۔ دوسری وہ جن کا متبادل تو ہمارے پاس ہے مگر معیار میں کمتر۔ ہم بہتر معیار کی وجہ سے مغربی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں‘ اگرچہ وہ مہنگی ہوتی ہیں۔ ہم اگر ان وجوہات کا تدارک کر لیں تو مغرب پر ہمارا انحصار کم سے کم تر ہو جائے گا۔ کیا فوری طور پر ایسا ممکن ہے؟
پہلی وجہ کا تدارک تو شاید نہ ہو سکے۔ ادویات کی ہمیں فوری ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ اس کا تعلق اضطرار سے ہے۔ رہا اسلحہ تو اس کا فوری متبادل فراہم کرنا بھی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ہماری ایئر فورس میں ایف سولہ کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔ ہم اس کے پرزوں اور مرمت وغیرہ کے معاملے میں امریکہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ عالمی منڈی میں بھی کوئی متبادل موجود نہیں۔ یوں بھی امریکہ اور مغرب ٹیکنالوجی کے معاملے میں دنیا سے کوسوں آگے ہیں۔ ان سے بے نیازی ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ بھی اضطرار کا معاملہ ہے۔
اب رہیں وہ مصنوعات جن کے متبادل ہمارے ہاں موجود ہیں‘ اگرچہ کم معیاری ہیں۔ اس معاملے میں ہم ہمت دکھائیں تو بائیکاٹ کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس میں ایک کردار عوام کا ہے اور ایک اہلِ تجارت کا۔ عوام چاہیں تو فی الوقت معیار پہ سمجھوتا کر سکتے ہیں۔ اس میں ایک نفسیاتی پہلو بھی ہے جس کا تعلق 'برانڈ‘ سے ہے۔ یہ ایک عارضہ ہے جو دولت مندوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ برانڈ معیار کی علامت بھی ہے لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ ان مصنوعات کی خریداری کی ایک بڑی وجہ نفسیاتی کم تری ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد یہ خیال کرتی ہے کہ ان کی معاشرتی حیثیت کا تعین ان کے جوتوں اور لباس کے انتخاب سے ہو گا۔ بدقسمتی سے بہت سے سنجیدہ افراد بھی اسی احساسِ کم تری کا شکار ہیں۔
یہی طبقہ ہے جس میں مغربی مصنوعات کی زیادہ کھپت ہے۔ عام آدمی کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ برانڈ کی بحث میں اُلجھے‘ تاہم پرانے کپڑوں کا کاروبار بھی اربوں میں ہوتا ہے۔ عام آدمی ان کو خریدنے پر مجبور ہے۔ یوں وہ بھی بالواسطہ مغربی 'مصنوعات‘ کے خریداوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جس میں اہلِ تجارت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس میں خود ان کے لیے بھی وسیع امکانات پوشیدہ ہیں۔
کاسمیٹکس اور دیگر اشیائے ضرورت کے باب میں اگر ہمارا کاروباری طبقہ چاہے تو مغربی مصنوعات کا بہتر متبادل فراہم کر سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گارمنٹس کے میدان میں عالمی شہرت رکھنے والے تمام برانڈ ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ سے اپنا مال تیار کراتے ہیں۔ امریکی مارکیٹس ہوں یا ہمارے بازار‘ یہاں فروخت ہونے والے کم و بیش تمام کپڑے ویتنام‘ بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ملکوں میں تیار ہوتے ہیں۔ ان پر ان ممالک کے نام بھی لکھے ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ چاہیں تو اپنے اپنے معاشروں کو اسی معیار کا مال کم قیمت پر فراہم کر سکتے ہیں۔
اگر ہم یہ کام کر گزریں تو اس کے تین فائدے ہوں گے۔ ایک ہم اپنا احتجاج اسرائیل نواز قوتوں تک پہنچا دیں گے۔ دوسرا یہ کہ وہ زرِ مبادلہ بچ جائے گا جو ہم ان مصنوعات کو خرید کر ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے جو اس طرح حل ہو سکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ مقامی تاجر مضبوط ہو گا اور اسے مقامی طور پر ایک بہتر مارکیٹ میسر ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس پر برآمدات کا دروازہ بھی کھلا رہے گا۔
کیا ہماری صنعت میں یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ مغرب کے مقابلے کا کپڑا تیار کرے؟ کیا وہ بہتر جوتا نہیں بنا سکتی؟ کیا مشروبات نہیں بنا سکتی؟ میرا خیال ہے یہ سب ممکن ہے‘ اگر عزم اور دیانت ہو۔ عزم سے وہ ہمت پیدا ہوتی ہے جو ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتی ہے۔ دیانت سے وہ اعتبار پیدا ہوتا ہے جو گاہک کو آپ سے جوڑ دیتا ہے۔ اگر اس کا اعتبار قائم ہو جائے تو وہ صدیوں تک تعلق نبھاتا ہے۔ لارنس پور کا کپڑا اگر کل عالمی سطح پر معیار کی علامت تھا تو آج کیوں نہیں ہو سکتا؟
حالات مشکل ہیں لیکن انہوں نے ایک موقع بھی پیدا کر دیا ہے۔ ہمارے تاجر چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ اس خلا کو بھر سکتے ہیں جو مغربی مصنوعات کی کمی سے پیدا ہو گا۔ وہ اپنے لیے مستقل مارکیٹ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ شرائط وہی ہیں: عزم اور دیانت۔ میں یہاں لیکن اس خدشے کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان شرائط کا پورا ہونا مجھے محال لگتا ہے۔ ہمارا تاجر ساری قوم کی طرح مطالبے کی نفسیات میں جیتا ہے۔ جب بھی اُس سے یہ کہا جا ئے گا‘ وہ مطالبات کی ایک تیار شدہ فہرست جیب سے نکالے گا اور سامنے رکھ دے گا۔ پہلے حکومت ہمیں سستی گیس دے۔ ہمیں سستی بجلی فراہم کی جائے۔ ہمیں فلاں ٹیکس کی چھوٹ دی جائے۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ۔
یہ تجارتی مزاج کا اظہار درست ہے نہ اس میں کوئی عصبیت یا اخلاقی جذبہ کار فرما ہے۔ اگر وہ خالص کاروباری حوالے سے دیکھے تو اس کے لیے ایک موقع پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اس مارکیٹ میں مغربی مصنوعات کی جگہ لے لے۔ اور اگر پیش نظر ان اداروں کو جھنجھوڑنا ہے جو اس ظلم میں اسرائیل کے معاون ہیں تو کسی شرط کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ اخلاقی تقاضا سمجھا جائے تو اسے کسی شرط کے ساتھ کبھی مشروط نہیں ہونا چاہیے۔
بائیکاٹ کو کامیاب اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جب یہ ایک سوچی سمجھی سکیم میں ڈھل جائے۔ جو سماجی تنظیمیں بائیکاٹ کی مہم چلا رہی ہیں‘ انہیں چاہیے کہ صنعت و تجارت کے ایوانوں سے مشاورت کریں اور ایک حکمتِ عملی بنائیں۔ وہ سول سوسائٹی کی طرف سے تاجروں کو یقین دہانی کرائیں کہ جہاں مقامی مصنوعات موجود ہوں گی‘ عوام وہی خریدیں گے۔ تاجر اس کی یقین دہانی کرائیں کہ وہ جو متبادل دیں گے‘ وہ قیمت میں کم ہو گا مگر معیار میں مغربی مصنوعات کے مساوی ہو گا۔ اگر یہ کوشش عالمِ اسلام کے ممالک کے مابین کسی معاہدے میں ڈھل جائے تو یہ مغربی مصنوعات کی کمر توڑ سکتی ہے۔ تجارتی سفارت کاری کے ذریعے مختلف ممالک کے ایوان ہائے صنعت و تجارت ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ عالمِ اسلام کی سطح پر یہ تعاون ممکن ہے۔
عوام کو اگر بہتر متبادل فراہم نہ کیا جا سکا تو یہ بائیکاٹ چند روز سے زیادہ نہ چل سکے گا۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا۔ گاہک کی ایک نفسیات ہے کہ وہ مارکیٹ میں بہتر چیز کی طرف لپکتا ہے۔ اس نفسیات کو سامنے رکھے بغیر بائیکاٹ کی کوئی حکمتِ عملی نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔ اہلِ تجارت ہمت کریں گے تو یہ ممکن ہے۔ ہر مشکل کے ساتھ ایک امکان چھپا ہوا ہے۔ وہ چاہیں تو اسے تلاش کر سکتے ہیں۔