شعور کا ارتقا زمانی ہوتا ہے‘ مکانی نہیں۔ پاکستان کا معاملہ مگر دنیا سے الگ ہے۔
انسان کا تہذیبی ارتقا‘ اس کے فکری ارتقا کا مظہر ہے۔ فرد ہو یا اجتماع‘ وقت کیساتھ ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ انسان کی تہذیبی تاریخ اسی لیے عہد بہ عہد لکھی اور بیان کی جاتی ہے۔ ایک عہد (Age) پھر دوسرا عہد۔ ہر عہد کا ایک نام ہے۔ پتھر کا عہد (Age of Stone)‘ مذہب کا عہد (Age of Faith)۔ صنعتی عہد۔ انسان کا شعوری ارتقا اسی طرح ہوا ہے۔ یہ تو ہوا کہ اس شعوری سفر میں بعض معاشرے دوسرے معاشروں سے بچھڑ گئے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ کوئی سماج ایک جگہ شعوری ارتقا کی منازل طے کر رہا ہو اور دوسری جگہ کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو۔ پاکستان میں لیکن ایسا ہی ہوا ہے۔
پاکستان میں سیاسی شعور کے اولین آثار مشرقی پاکستان میں پائے گئے۔ یہ شعور پہلی بار وہاں نمودار ہوا کہ پاکستان جمہوری جد وجہد کا حاصل ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ اسکے فیصلے عوام کریں۔ جب بنگالیوں میں یہ شعور پروان چڑھ رہا تھا‘ ملک کے دوسرے علاقے اس سے بے خبر رہے۔ اس نے ارتقا کے کئی مراحل طے کیے۔ اس کی بازگشت مغربی پاکستان میں بھی سنی گئی۔ کراچی میں اسمبلی کے اجلاس ہوتے اور بنگالی اراکین اپنا مقدمہ پیش کرتے۔ یہاں مگر کسی نے اس کا اثر نہیں لیا۔
یہ شعور پختہ ہوکر جب غصے میں ڈھلنے لگا‘ تب بھی مغربی پاکستان اس سے لاتعلق رہا۔ کمال یہ ہوا کہ یہ غصہ جب ایک بڑے احتجاج میں بدلا تو نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے جمہوریت پسند نے بھی اپنی راہیں نیشنل عوامی پارٹی سے الگ کر لیں۔ مغربی پاکستان میں متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوا تو شیخ مجیب الرحمن کا کسی نے ساتھ نہیں دیا یا انہیں ساتھ رکھنے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ مشرقی پاکستان نے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کے بعد بھی کسی کو احساس نہیں ہوا۔ اب مغربی پاکستان کے ایک حصے بلوچستان میں‘ جو ایک الگ صوبہ بن چکا تھا‘ وہی جذبات پیدا ہوئے جو مشرقی پاکستان میں ابھرے تھے۔ وہی عوام کے حقوق اور عوام کا اقتدار۔ اب ملک کے دوسرے حصے بلوچستان سے لاتعلق ہو گئے۔ بلوچوں کو بھی ریاستی قوت سے دبانے کی کوشش ہوئی۔ بھٹو صاحب کے دور میں ملٹری ایکشن ہوا۔ بلوچ آبادیوں سے نکلے اور پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ جو حل مشرقی پاکستان میں ناکام ہو چکا تھا‘ اسی کو بلوچستان میں آزمایا گیا اور اس بار ایک جمہوری راہنما کے ہاتھوں۔ بلوچوں کے ساتھ خیبرپختونخوا کے راہنماؤں پر بھی غداری کے مقدمات قائم کیے گئے۔ اس بار ملک کے دوسرے حصوں‘ بالخصوص پنجاب اور سندھ کے عوام اور راہنما اس سے بے خبر اور لا تعلق رہے۔
پھر جنرل ضیاالحق تشریف لے آئے۔ اب سندھ کے راہنما ریاستی جبر کی زد میں تھے۔ سندھ کے عوام اور سیاسی راہنماؤں نے عوام کے اقتدارکا نعرہ بلند کیا تو پنجاب اہلِ جبر کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ پنجاب نے بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھانے تک جبر سے بھرپور تعاون کیا۔ تاریخ نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اب پنجاب کی باری آگئی۔ اس سفر کا ایک پڑاؤ 12اکتوبر 1999ء بھی تھا۔ اب پنجاب سے بھی وہی آوازیں اٹھنے لگیں جو کبھی مشرقی پاکستان‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور سندھ سے اٹھی تھیں۔ اس بار کسی نے پنجاب کا ساتھ نہیں دیا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے پرویز مشرف کا خیر مقدم کیا جس طرح نواز شریف صاحب اور پنجاب کی سیاسی قیادت نے جنرل ضیاالحق کو 'جی آیاں نوں‘ کہا تھا۔ مشرف صاحب نے جب بے نظیر صاحبہ اور نواز شریف یا یوں کہیے کہ سندھ اور پنجاب کی قیادت کو ایک ساتھ ہدف بنایا تو اس وقت شعور کی وہ آنکھ کھلی جو پہلے مکانی تھی۔ 'میثاقِ جمہوریت‘ اس کا مظہر ہے۔ پہلی مرتبہ عوام کی حاکمیت کا تصور مکانی حدوں سے نکلا۔ افسوس کہ اس کا دورانیہ زیادہ نہ رہا۔ اب عمران خان سیاست کے اُفق پر طلوع ہو گئے اور وہی کھیل پھر شروع ہو گیا۔
اس بار پنجاب کو دو حصوں میں منقسم کیا گیا۔ ایک حصے کو خیبرپختونخوا کے ساتھ کھڑا کر کے اسے پنجاب کے ایک دوسرے حصے کے بالمقابل لایا گیا۔ یہ لوگ بخوشی تعاون پر آمادہ ہو گئے۔ تاریخ کا سفر جاری رہا اور پھر 2022 ء آ گیا۔ اس بار وہی دھڑا عوام کے حقوق کا پرچم لیے کھڑا تھا جو 2014ء میں عوام کے فیصلے کے خلاف اہلِ جبر کا ہتھیار بن گیا تھا۔ اب وہ گروہ بھی وہی بات کہہ رہا ہے جو سب سے پہلے بنگال کے لوگوں نے کہی۔ پھر بلوچستان اور خیبرپختونخوا نے۔ پھر سندھ نے۔ پھر پنجاب نے۔ آج یہ عمل مکمل ہو چکا اور عوام کی حاکمیت کے مسئلے پر سب لوگ یک زبان ہو گئے۔ ایک مسئلہ مگر ابھی باقی ہے۔
ہر گروہ کا تصورِ تاریخ ادھورا ہے۔ یہ تاریخی عمل کو ایک تسلسل میں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان میں سب سے پسماندہ گروہ تحریکِ انصاف کا ہے جو آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ 2018ء سے شروع ہوئی اور پہلا مارشل لاء 2022ء میں لگا۔ وہ ابھی تک ضیا الحق‘ پرویز مشرف‘ قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید میں یکسانیت کو تلاش نہیں کر سکا۔ جس دن اس نے اس یکسانیت کو دریافت کر لیا‘ اس دن اسے نیشنلسٹ جماعتوں‘ پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ اور تحریک انصاف میں بھی یکسانیت دکھائی دینے لگے گی۔
سیاسی جماعتوں میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ لیکن چند نکات میں وہ ایک دوسرے سے متفق ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم نکتہ عوام کا حقِ حاکمیت ہے۔ کرپشن جیسے مسائل سیاسی عمل کا حصہ ہیں جسے سیاسی عمل ہی سے ختم یا کم کیا جا سکتا ہے۔ اہلِ سیاست وسیع تر سیاسی پس منظر میں ایک دوسرے کے حلیف ہوتے ہیں۔ ایسی فضا کا ہونا مقدم سمجھا جاتا ہے جس میں اہلِ سیاست بروئے کار آسکیں۔ ماضی میں اسی اصول پر متصادم نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں اتحاد بناتی رہی ہیں۔
عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کو یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی۔ سیاسی شعور کا جو عمل صوبائی‘ جماعتی اور مکانی سطح پر پروان چڑھتے ہوئے اب ایک قومی اتفاقِ رائے کی صورت اختیار کر چکا‘ انہیں ابھی تک اس کا شعور نہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی حالت بھی مثالی نہیں ہے مگر ان کا سیاسی شعور ان کے مقابلے میں کہیں ترقی یافتہ ہے۔ خود کو صالحین کا گروہ سمجھنا اور باقی معاشرے کو فاسق قرار دینا نظریاتی جماعتوں کے خواص میں سے ہے۔ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے لیکن اس کے رویے انقلابی اور نظریاتی گروہوں جیسے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ شعوری ارتقا کا جو عمل زمانی ہے‘ وہ ہمارے ہاں مکانی کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے سیاست کو گروہ بندی سے بلند تر ہو کر اجتماعی تناظر میں سمجھنا ہو گا۔ تحریکِ انصاف کے سیاسی شعور کے ناپختہ ہونے کا ایک مظہر یہ ہے کہ عوام کی حاکمیت کے مطالبے کو مثبت طور پر پیش کرنے کے بجائے اسے ردِعمل کی نفسیات کے حوالے کر دیا گیا ہے اور سارا زور ایک ریاستی ادارے کے خلاف لگایا جا رہا ہے جس کا وجود ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ لازم ہے کہ فوج کے خلاف نفرت پھیلانے کے بجائے ساری توانائی جمہوری عمل کو مضبوط کرنے پر صرف کی جائے۔ اس کے نتیجے میں ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں مقید ہو سکیں گے۔
نفرت ایک منفی عمل ہے جس کا نتیجہ مثبت نہیں ہو سکتا۔ یہی رویہ پہلے سیاستدانوں کے حوالے سے اپنایا گیا اور اسی کو اب اداروں پر آزمایا جا رہا ہے۔ اس کا پہلا نتیجہ بھی غلط نکلا اور اس بار بھی اس کا نتیجہ مثبت نہیں ہو سکتا۔ نہ ملک کے لیے نہ تحریکِ انصاف کے لیے۔