مسلم دنیا میں جمہوری تجربات کیوں ناکام ہوئے؟
انڈونیشیا کے استثنا کے ساتھ‘ کوئی مسلمان ملک ایسا نہیں ہے جہاں جمہوریت اُس طرح ثمر بار ہوئی ہے جیسے یورپ اور امریکہ میں ہوئی۔ جہاں بظاہر جمہوریت ہے اور ایک پہلو سے کامیاب ہے‘ وہاں بھی خالص نہیں ہے۔ اس میں آمریت کی آمیزش ہے۔ جیسے ملائیشیا‘ جیسے ترکیہ اور جیسے بنگلہ دیش۔ یہی تین مسلم ممالک ہیں جہاں کسی حد تک جمہوریت موجود ہے۔ دیگر میں بادشاہت ہے یا مذہبی پیش وائیت۔
ملائیشیا میں 22برس مہاتیر محمد کی حکومت رہی۔ انہوں نے ملائیشیا کو اقتصادی اعتبار سے ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک ماڈل بنا دیا۔ ان کے طرزِ حکمرانی میں مگر آمریت کی آمیزش تھی۔ سیاسی مخالفین کے خلاف انہوں نے عدلیہ اور ریاستی مشینری کو جس طرح استعمال کیا‘ اس کی داستان سب نے سن رکھی ہے۔ طیب اردوان نے بھی ترکیہ کو ترقی کے راستے پر ڈالا مگر اُن کی خو بھی مسلسل اپنا رنگ دکھاتی رہی۔ بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کو بدترین ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج اس کی معیشت اور سیاسی استحکام دونوں خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ انتخابات سر پر ہیں اور قابلِ ذکر مخالف جماعتوں نے ان کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ عملاً وہاں ایک جماعت کی آمریت ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی ظاہر و باہر ہے۔
مصر میں جمہوریت کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کا انجام بہت درد ناک ہوا۔ عراق میں انتخابات ہوئے لیکن سیاسی استحکام نہیں آ سکا۔ عرب بہار کے نام سے مشرقِ وسطیٰ میں بیداری کی جو لہر اُٹھی تھی‘ اب قصۂ پارینہ بن چکی۔ بالآخر آمریت نے ان معاشروں کو استحکام بخشا۔ پاکستان مسلسل عدم استحکام کے راستے پر گامزن ہے۔ آج تک اس کا مستقبل واضح نہیں۔ مایوسی جھلک رہی ہے اور کوئی نہیں جانتا کل کیا ہو گا؟
جمہوریت مسلم دنیا میں کامیاب نہیں لیکن غیرمسلم دنیا میں ایک اور ماڈل بھی ہمارے سامنے ہے جو غیر جمہوری ہے اور ترقی کی ضمانت ہے۔ یہ چین ہے۔ چین ایک عالمی قوت بن چکا لیکن وہاں مروجہ معنوں میں جمہوریت نہیں۔ ایک ملغوبہ سا ہے جس میں سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت‘ دونوں نظاموں کے اجزا پائے جاتے ہیں۔ جمہوریت جو سرمایہ داری کا حصہ ہے‘ وہاں دکھائی نہیں دیتی لیکن معاشی لبرل ازم اس نظام کا حصہ ہے۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کے بارے میں جو تصورات قائم کیے گئے تھے اور اسے جس طرح انسانی نشوونما کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا‘ وہ درست مقدمہ نہیں تھا؟ لوگ یہاں ترقی کی تعریف کا سوال اٹھاتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر انسان کو آزادیٔ رائے میسر نہیں یا وہ اپنی مرضی کے مطابق جی نہیں سکتا تو یہ اس کے شخصی ارتقا میں مانع ہے۔ اس لیے ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ذہنی و فکری نشو و نما کو بھی اس کا پیمانہ مانا جائے۔
اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ چین میں اس کی بھی آزادی ہے۔ فنونِ لطیفہ ترقی کر رہے ہیں اور سائنس و ٹیکنالوجی میں نئی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ یہ وہیں ممکن ہے جہاں انسان آزاد ہو۔ گویا شخصی آزادی کا یہ تصور دراصل مغرب کا دیا ہوا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جائے۔ چین میں اگر کسی کی سیاسی رائے ہے تو وہ کمیونسٹ پارٹی کے فورم پر کہے۔ اس کے لیے یہ کیوں لازم ہے کہ وہ الگ سے اپنی سیاسی جماعت بنائے؟
میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں عموی بحث نہیں اٹھانا چاہتا۔ میں خود کو اس بات تک محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ مسلم دنیا میں جمہوریت کیوں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس سے سیاسی استحکام آیا نہ معاشی استحکام۔ پاکستان میں جب بھی سیاسی خلفشار پیدا ہوا‘ یہ کہا گیا کہ اہلِ سیاست کا پیدا کردہ تھا۔ 1970ء میں یہ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن تھے جو کسی سیاسی تصفیے پر آمادہ نہ ہوئے۔ وہ ہو جاتے تو جنرل یحییٰ خان من مانی نہیں کر سکتے تھے۔ 1977ء میں اگر پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کی قیادت بصیرت کا مظاہرہ کرتی تو مارشل لا کا راستہ روکا جا سکتا تھا۔ یہ کہانی بار ہا دہرائی گئی اور ہر بار اہلِ سیاست اسکا کردار تھے۔ آج پھر اسی کہانی کو دہرایا جا رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ کچھ امور وہ ہیں جو مسلم دنیا کے حوالے سے مشترکہ ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو انفرادی ہیں۔ جیسے بادشاہت عرب کلچر کاحصہ ہے۔ پس منظر کے اعتبار سے ایک قبائلی معاشرے میں بادشاہت قابلِ قبول ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد عرب دنیا میں جو سیاسی نظام قائم ہوا‘ وہ تدریجاً آمرانہ ہو گیا اور اسے قبول بھی کر لیا گیا۔ اگر ایک بادشاہت کے خلاف کوئی تحریک اٹھی تو وہ بھی کسی دوسری بادشاہت ہی کے لیے تھی۔ وہاں کے علما نے بھی اسے دینی اعتبار سے قابلِ قبول قرار دے دیا۔ اسی کے زیرِ اثر ہمارے ہاں جو مذہبی ذہن پیدا ہوا‘ وہ خلافت کو ملوکیت کے معنوں میں لیتا ہے۔ مسلم تاریخ کے باب میں ہمارے ہاں جو بحثیں ہوئیں‘ ان میں ملوکیت کم ہی زیرِ بحث آئی ہے۔ چونکہ دوسری طرف مذہبی حوالے سے جلیل القدر لوگ تھے‘ اس لیے تقابل میں غلط صحیح کا فیصلہ ہوا۔
اس کے برخلاف پاکستان جمہوری جد و جہد سے قائم ہوا۔ اس کے پس منظر میں کوئی قبائلی معاشرت ہے نہ بادشاہت۔ اس لیے یہاں آمریت کی ایک دوسری صورت سامنے آئی جو عسکری تھی۔ اسے عوامی شعور نے قبول نہیں کیا۔ یہاں جب دین کی تعبیر پر بات ہوئی اور تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیا گیا تو پہلی مرتبہ ان تاریخی کرداروں کے غلط صحیح کا فیصلہ اصولی بنیاد پر کیا گیا۔ یعنی یہ کہا گیا کہ فلاں کا حقِ اقتدار اس لیے ثابت نہیں کہ اسے عوامی تائید میسر نہیں تھی۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ''خلافت و ملوکیت‘‘ جمہوری حوالے سے اسلامی تاریخ کا پہلا مطالعہ ہے۔ اس کتاب پر ہونے والی اکثر تنقید میں اس کے اصل مقدمے کو نظر انداز کیا گیا اور اسے تاریخی واقعات کا ایک مجموعہ سمجھ کر ہدفِ تنقید بنایا گیا۔
مولانا مودودی کی یہ تنقید‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اسی لیے لکھی جا سکی کہ یہاں کے عوام کا شعور جمہوری تھا۔ پاکستان عالمِ اسلام کا پہلا ملک ہے جس میں قومی ریاست کے ماڈل کو قبول کرتے ہوئے اسے اسلامی بنانے کی کوشش ہوئی جس میں جمہوریت کو اس کا بنیادی ستون مانا گیا۔ روایتی مذہبی طبقے کو بھی اسے قبول کرنا پڑا جو قدیم فقہا کی تعبیر کو درست سمجھتا تھا۔ اس حوالے سے دیکھیں تو اس سرزمین پر کوئی غیرجمہوری نظام جڑ نہیں پکڑ سکتا۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف یہاں کا خمیر ہے اور دوسری طرف اہلِ سیاست ہیں جن کے رویے جمہوریت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اس فضا میں جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے‘ تاہم اتنی بات میری سمجھ میں آتی ہے کہ اگر معاشرہ جمہوری نہ ہو تو سیاست میں بھی جمہوری عمل ثمر بار نہیں ہو سکتا۔ ایسے معاشروں میں 'ریاست‘ ہرکام اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ اس کے پس منظر میں سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہی ریاست کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔ اسے عوام پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
میں یہ سطور لکھ چکا تو خبر آئی کہ سینیٹ نے انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ اس سے وہ مقدمہ مزید مضبوط ہوا جو میں نے قائم کیا ہے۔ پاکستان کو لگتا ہے کہ ابھی مزید تجربات ا ور آزمائشوں سے گزرنا ہے۔ ان حالات میں صرف دعا کی جا سکتی ہے۔ میں نے گزشتہ کالم بھی دعا پر ختم کیا تھا۔ دعا کا مفہوم عالمِ اسباب سے مایوسی بھی ہے۔