پس ثابت ہوا کہ سیاست میں کبھی انتہا پسندانہ موقف نہیں اپنانا چاہیے۔ اور یہ بھی کہ عوام کسی سیاستدان کی بات کو سنجیدہ نہ سمجھیں۔ اقتدار کی سیاست میں حریف دائمی ہوتے ہیں نہ حلیف۔
ایک قلم کار لکھ لکھ کر جو بات سمجھا نہ سکا‘ اہلِ سیاست کے ایک اُٹھتے قدم نے سمجھا دی۔ 'عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام‘۔ یہ الگ بات ہے کہ مقلدین و متاثرین اسے بھی اسلام کی سربلندی کے لیے بصیرت کا مظہر اورکرپشن کے خلاف جدوجہد کے راستے میں ایک بڑی کامیابی قرار دیں گے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ ان دونوں باتوں کا گزر‘ اقتدار کی سیاست میں نہیں ہوتا۔ تقلید کا پہلا حملہ ذہن پر ہوتا ہے۔ دل خود بخود مسخر ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں سیاستدان وہی کچھ کرتے ہیں جو دنیا بھر میں کرتے ہیں۔ حصولِ اقتدار کی کوشش۔ اس کے ساتھ مشترکہ اہداف کے لیے معاصر اہلِ سیاست سے مکالمہ اور ان کے ساتھ مل کر اجتماعی جدوجہد۔ وہ عوام کو یہ تاثر نہیں دیتے کہ وہ حق و باطل کا کوئی معرکہ لڑ رہے ہیں جس میں تمام تر حق ان کے ساتھ ہے۔ فرق اگر ہے تو سماج کی اخلاقی بُنت اور ذہنی ساخت میں ہے۔ جہاں عوام ذہنی طور پر بالغ اور اخلاقی سطح پر توانا ہیں‘ وہاں سیاستدان عوامی ردِعمل کو سامنے رکھ کر مؤقف اپناتے اور زبان استعمال کرتے ہیں۔ جمہوریت وہیں کسی ضابطے کی پابند ہوتی ہے جہاں سماج میں ضابطے کی حکمرانی ہو۔ عوام ضابطے کی خلاف ورزی کو ناپسند کرتے ہوں۔ سیاستدان کو اس کی خبر ہوتی ہے‘ وہ اس ماحول میں جو سیاسی چال چلتا ہے‘ ایک ضابطے میں رہ کر چلتا ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ سیاستدان عوامی ردِعمل سے بے نیاز ہو کر طرزِ عمل اپناتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عوام شخصیت پرست ہیں۔ وہ اپنے اپنے راہ نما کو معیارِ حق مانتے ہیں۔ لیڈر کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے تو وہ اسے محبِ وطن مان لیں گے۔ کسی کو میر جعفر کہے تو اُسے غدار مان لیں گے۔ کرپٹ کہے تو کرپٹ مان لیں گے۔ اس لیے سیاستدان نتائج سے بے پروا ہو کر جو منہ میں آئے کہہ گزرتا ہے‘ وہ جانتا ہے کہ یہاں الفاظ اس کا پیچھا نہیں کرتے کہ تقلید ذہن ہی کو نہیں یادداشت اور سماعت کو بھی متاثر کرتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ یہاں کسی سیاسی جماعت کو عوام کے سیاسی شعور سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کسی نے اقتدار میں آ کر تعلیمی نظام میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کی جو ایک طالبعلم کے ذہنی افق کو وسیع کرے۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ایک نوجوان نہیں جانتا کہ آئین کیا ہوتا ہے؟ جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کی کیا اہمیت ہے؟ منشور کیا ہو تا ہے؟جو اقتدار میں نہیں ہیں‘ وہ بھی اس کا اہتمام نہیں کرتے۔ ان کی تمام تشہیری مہم شخصیت پرستی اور کلٹ کے دائرے میں ہوتی ہے۔ وہ عوام کی نظر بندی کرتے اور سامری کے بچھڑے کی پرستش سکھاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ذہنی طور پر اتنا مفلوج بنا دیتے ہیں کہ وہ کھلے تضادات کے زہر کو امرت سمجھ کر پی جاتے ہیں۔
نظریاتی جماعتیں اس بات کا اہتمام کرتی تھیں کہ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی اور کمیونسٹ پارٹی اس کی مثال ہیں۔ مسلک کی بنیاد پر قائم ہو نے والی جماعتوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی کہ ان میں شمولیت کی اساس کوئی سیاسی پروگرام یا منشور نہیں‘ صرف مسلکی وابستگی ہے۔ مسلم لیگ کبھی نظریاتی جماعت نہیں تھی۔ متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں اس کا ایک سیاسی مؤقف ضرور تھا جسے نظریے کا متبادل سمجھا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ تکلف بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ پیپلز پارٹی ابتدا میں اشتراکی میلان کی وجہ سے ان لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی جو نظریاتی بنیاد رکھتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پارٹی نے اس بوجھ سے بھی نجات حاصل کر لی۔ آج تو سیاست ویسے ہی کسی نظریے کے تابع نہیں ہے۔
دنیا بھر میں نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہو گیا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ کوئی خلا واقع ہوا ہو۔ سرمایہ دارانہ نظام نے‘ جو غالب ہوا‘ اپنی سیاسی اخلاقیات متعارف کرائیں۔ اس دوران میں چونکہ سماجی سطح پر آزادیٔ فکرکو ایک قدر کے طور پر مان لیا گیا تھا‘ اس لیے سیاست عوامی ذوق اور اخلاقیات کے تابع ہوگئی۔ جو سیاستدان اس پر پورا نہ اترتا‘ وہ سیاست میں کھڑا نہ رہ سکتا۔ اب نکلسن ہو یا کارٹر‘ ایک سکینڈل ان کی سیاسی موت کے لیے کفایت کرتا ہے۔
پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ترقی ٔ معکوس ہے۔ شخصیت پرستی میں اتنا اضافہ ہوا کہ قائداعظم ثانی کا بت تراشتے تراشتے‘ سیاسی جماعتیں کلٹ بن گئیں۔ جو عوام کے جذبات سے بہتر کھلواڑ کر سکتا ہے‘ وہ عوام کا بڑا لیڈر ہے۔ 2024ء کی تمام انتخابی مہم شخصیات کے گرد گھومتی رہی۔ بے پناہ نفرت اور بے حساب عقیدت۔ نہ مسائل کا شعور نہ ان کا کوئی حل۔ ہماری سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی اس کے سوا نہیں آئی کہ بعض لوگوں نے سوشل میڈیا جیسے جدید ابلاغی ذرائع میں مہارت حاصل کر لی اور اسے سیاسی شعور کا نام دیا۔
اسی لیے میں ہمیشہ اس بات کا داعی رہا ہوں کہ ریاست نہیں‘ سماج بدلو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جاری سیاسی عمل سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا جائے۔ جب ہم ایک معاشرے میں فعال ہیں تو اس کے امور سے لاتعلق نہیں ہو سکتے۔ اگر انتخابات ہوں گے تو ہم ووٹ دیں گے۔ میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ اس عمل میں شریک ہوں‘ لیکن یہ ذ ہن میں رکھتے ہوئے کہ اس سے کوئی جوہری تبدیلی نہیں آ سکتی‘ جب تک سماجی تبدیلی نہ آئے۔
انتخابات نے ملک کو ایک بار احتجاج میں جھونک دیا ہے۔ اس کا مطلب نیا عدم استحکام ہے۔ احتجاج کچھ لوگوں کا پسندیدہ میدان ہے کہ اسی میں ان کے جوہر کھلتے ہیں۔ ان کی نشو و نما کے لیے یہی فضا سازگار ہے۔ عوام کی سیاسی ناپختگی کا فائدہ اسی فضا میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ رہی ریاست تو اس کا معاملہ بھی کسی طور سیاسی جماعتوں سے مختلف نہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ریاست کی عطا ہے۔ سیاست بھی اور سیاستدان بھی۔
ملک ایک بھنور میں پھنس چکا۔ اہلِ سیاست وہی کچھ کر رہے ہیں جو وہ دنیا بھر میں کرتے ہیں۔ اگر فرق ہے تو عوام کا ہے۔ جب تک وہ باشعور نہیں ہوں گے‘ ان کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا۔ انہیں شخصیت پرستی میں پختہ کیا جا ئے گا۔ سیاسی جماعتیں انہیں باور کرا ئیں گی کہ ان کا لیڈر ہی وہ مسیحا ہے جس کا انتظار تھا۔ پہلی بار میں انتخابی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کی آہٹ بھی سن رہا ہوں۔ ایک خطرناک رجحان جو پورے عالمِ اسلام پر اثر انداز ہو گا۔
بچت کی صرف ایک صورت ہے۔ کوئی ایک سیاستدان گروہی‘ خاندانی اور شخصی مفادات سے بلند تر ہو کر‘ صرف اپنی اخلاقی قوت کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ اس سے ملک نہیں بدلے گا لیکن شاید وہ راستہ دکھائی دینے لگے جس پر چل کر ریاست کو بھنور سے کسی حد تک نکالا جا سکتا ہے۔ میں اس کا امکان کم دیکھتا ہوں۔ آج صرف اتنی گزارش کی جا سکی ہے کہ سیاست میں انتہاپسندانہ مؤقف سے گریز کیا جائے کہ کبھی اس سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور پھر اپنا سامنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ عوام تو شاید اس کا ادراک نہ کریں کہ تقلید کے خوگر ہیں۔ وہ پھر بھی آپ کو نجات دہندہ مانیں گے اور آپ کا احتساب نہیں کریں گے۔ ایک محتسب مگر اوپر بھی ہے جو دلوں میں چھپے عزائم کو بھی جانتا ہے۔ اس کی پکڑ بہت شدید ہے۔