بلاشبہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ اور اندھیرے میں روشنی کا چراغ ہے۔
کراچی سنٹرل جیل میں قیدیوں کے کانووکیشن کا انعقاد ہوا۔ 248 طالب علموں میں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے جنہوں نے کمپیوٹر‘ آئی ٹی اور زبان دانی کے کورسز میں کامیابی حاصل کی۔ ان سب کو 25‘ 25 ہزار روپے انعام کے علاوہ تحائف بھی دیے گئے۔ اس کا اہتمام ایک فلاحی تنظیم نے کیا تھا۔ کراچی جیل کی انتظامیہ بھی تحسین کی مستحق ہے جس کی معاونت کے بغیر ایسے کورسز کا اہتمام ممکن نہیں تھا۔ سندھ کے وزیر جیل خانہ جات بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ گویا صوبائی حکومت کی تائید بھی اس نیک کام میں شامل تھی۔ فلاحی تنظیم کی جانب سے کراچی جیل میں سکل ڈویلپمنٹ کے ادارے کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔
اب ایک اور خبر سنیے۔ سات جولائی کو پشاور میں ایک فلاحی تنظیم کے تحت ایک لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کے لیے داخلہ ٹیسٹ کا اہتمام کیا گیا۔ ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات کو آئی ٹی سے متعلق 16 کورسز میں تربیت دی جائے گی۔ اس کے لیے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں بھی ایسے کورسز کا آغاز ہو چکا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نئی نسل ہنر مند بنے تاکہ اس کے لیے روزگار کے مواقع ارزاں ہو سکیں۔
یہ دونوں خبریں امید کے چراغ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں عام اور محروم آدمی کے لیے جو خدمات ان فلاحی تنظیموں نے سر انجام دی ہیں ان کی کوئی مثال نہیں۔ ان اداروں نے عام آدمی کی عزتِ نفس کو مجروح کیے بغیر مستقل اور مستحکم بنیادوں پر سماجی تعمیر کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تعلیم‘ صحت اور محروم طبقے کے لیے یہ منصوبے اگر جمع کیے جائیں تو یہ ایک صوبائی حکومت جتنا کام معلوم ہوتا ہے۔
یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ان فلاحی تنظیموں کا کام اتنا نمایاں ہے کہ مجھ جیسے سماجی سطح پر غیر فعال آدمی کے بھی مشاہدے میں آ جاتا ہے۔ میں راولپنڈی میں رہتا ہوں۔ یہاں شہر کے وسط میں ایک فلاحی تنظیم نے ہسپتال قائم کیا ہے جہاں راولپنڈی ‘اسلام آباد کے بہترین طبی ماہرین میسر ہیں۔ آج ایک عام ہسپتال میں سپیشلسٹ کی اوسطاً فیس پانچ ہزار روپے ہے۔ یہاں ساڑھے چھ سو روپے لیے جاتے ہیں۔ اس ہسپتال میں گزشتہ چند برسوں میں غیرمعمولی وسعت آئی ہے۔ یہاں آپریشن اور ٹیسٹ وغیرہ کی سہولت بھی موجود ہے۔ رنگ‘ نسل‘ مذہب‘ سیاست‘ ہر وابستگی اور امتیاز سے ماورا ہو کر انسانوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
اسی طرح قیدیوں کی تربیت کا یہ منصوبہ بھی بہت شاندار ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارے قید خانے دراصل جرم کی تربیت گاہیں ہیں۔ معمولی چور اگر چند ماہ یہاں گزار جائے تو ایک ڈکیت بن کر نکلتا ہے۔ اس بات کی شدید ضرورت رہی ہے کہ ان قیدیوں کو ہنر سکھایا جائے اور ساتھ ہی ان کی اخلاقی تربیت بھی کی جائے تاکہ جب یہ روز مرہ زندگی کی طرف لوٹیں تو مفید شہری بن کر زندگی گزاریں۔ جرم سے دور ہوں اور ان کی اصلاح ہو چکی ہو۔ ایک خبر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کراچی جیل میں قرآن کی تعلیم کے علاوہ فنونِ لطیفہ کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اس پر کراچی جیل کی انتظامیہ کی بھی تعریف کی جانی چاہیے۔
فلاحی تنظیموں نے نوجوانوں کے ساتھ بھی حقیقی خیر خواہی کا اظہار کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے نوجوانوں کو استعمال کیا‘ ان کے جذبات کا استحصال کیا ہے۔ بعض نے انہیں 20‘ 25 ہزار روپے مہینے کے دے کر دوسروں کی کردار کشی اور دشنام پہ لگا دیا اور اسے شعور کا نام دیا۔ ان کے مستقبل کو سنوارنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ ان کے اخلاق کو بگاڑا گیا اور ان کے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ فلاحی تنظیموں نے ان کو ہنر سکھانے کا اہتمام کیا۔ انہیں اس قابل بنانا چاہا کہ وہ ایک باعزت اور حقیقی آزادی کی زندگی گزار سکیں۔
ہمارے نظامِ تعلیم اور سماج میں بھی یہ کمی ہے کہ وہ نوجوانوں کو اکثر رسمی تعلیم دیتا ہے جس کی کوئی عملی افادیت نہیں ہوتی۔ ہر نوجوان کے لیے لازم نہیں کہ وہ ایم اے‘ بی اے کرے۔ آج کل بی ایس کرایا جا رہا ہے۔ بہت سے نوجوان محض سماجی دباؤ کے تحت پڑھ رہے ہوتے ہیں ورنہ انہیں تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ جیسے تیسے ڈگری تو لے لیتے ہیں لیکن یہ ڈگری عملاً کسی کام کی نہیں ہوتی۔ اگر اس کے بجائے انہیں کوئی ہنر سکھا دیا جائے تو وہ اپنی ذات‘ خاندان اور سماج کے لیے کہیں زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ فلاحی تنظیموں نے انہیں ایک متبادل راستہ دکھایا ہے اور اس کے اچھے نتائج ان شاء اللہ جلد سامنے آئیں گے۔
اگرکسی نے تعصب کی عینک نہیں پہنی ہوئی ہے تو وہ بچشمِ سر دیکھ سکتا ہے کہ اس ملک میں کتنے ہی منصوبے ہیں جو فلاحی تنظیموں نے کامیابی کے ساتھ چلائے ہیں۔ اب تو یہ تنظیمیں ملک سے باہر بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ غزہ کی آباد کاری اور مظلوموں کی مدد کے لیے الخدمت فلسطین پہنچ چکی ہے۔ کچھ لوگ محض ایک آدھ منصوبے کی بنیاد پر آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں مگر اس تنظیم کا کام ملک بھر میں پھیل چکا ہے لیکن دوسروں کی طرح توجہ کا مستحق نہیں ٹھہرا۔ یا یوں کہیے کہ کسی سیاسی تبدیلی کو مہمیز نہیں دے سکا۔ اس کا سبب کیا ہے؟
میں اس کا جواب تلاش نہیں کر پایا۔ جماعت اسلامی کی سماجی خدمات ظاہر و باہر ہیں۔ سیاست میں تجربہ یہی ہے کہ جماعت کے لوگ دوسروں سے بہتر ہیں۔ سیاست جن اخلاقی رزائل سے لتھڑی ہوئی ہے‘ جماعت کے لوگ ان سے بڑی حد تک محفوظ ہیں۔ خدمت اور بہتر کردار کے با وجود اب تک عوام کی نظرِ التفات اس کی طرف نہیں اٹھی۔ کیا خدمت اورکردار سیاست میں بے معنی ہو چکے؟ اب تو لگتا ہے کہ کارکردگی کی بھی عوام کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ پھر عوام کیا چاہتے ہیں؟
اس سوال کا جواب پھر کبھی۔ سرِ دست تو مجھے اس کی خوشی ہے کہ الخدمت سیاست سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف ہے۔ فلاحی کاموں کی روح یہی ہونی چاہیے۔ ایدھی فاؤنڈیشن اور شوکت خانم ہسپتال جیسے فلاحی منصوبوں کی بنیاد ایک فرد نے رکھی۔ میرا احساس ہے کہ عوام کی طرف سے سیاسی جواب نہ ملنے کے با وجود الخدمت کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہو گی کیونکہ یہ کام کرنے والے لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ خدا کے حضور میں جو نیکی بے غرضی کے ساتھ پیش کی جائے وہ ضائع نہیں ہوتی اور آخرت میں اس کا اجر کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔
قیدیوں اور نوجوانوں کی خدمت ایک بہتر مستقبل کے لیے نیک شگون ہے۔ قیدیوں کے ساتھ اگر جیل کے عملے کی بھی اخلاقی اور سماجی تربیت کی جائے تو جیلوں کو اصلاح کے مراکز میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے کو دراز ہونا چاہیے۔ اگر صوبائی حکومتیں اس جانب توجہ دیں اور فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر ان منصوبوں کووسعت دیں تو اصلاحِ سماج کی ایک بڑی تحریک اٹھ سکتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ سماجی تبدیلی کے بغیر سیاست میں بھی کسی اچھی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ فلاحی اداروں کے ان منصوبوں کا خیر مقدم کرنا چاہیے جو مستقبل میں ان شاء اللہ حقیقی سماجی تبدیلی کی بنیاد بنیں گے۔