ردِعمل کی نفسیات ہمیں کبھی درست نتیجے تک نہیں پہنچنے دیتی۔ ردِعمل سوچ کا ماخذ بن جائے تو انسان ہر واقعے کو ایک خاص تناظر میں دیکھتا اور خود کو اس کی تعبیر پر مطمئن پاتا ہے۔
پاکستان میں آج ایک بڑا طبقہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اسی نفسیات میں مبتلا ہے۔ یہ رویہ اتنا پختہ ہو گیا ہے کہ ہر واقعے کو اسی کے زیرِ اثر دیکھا جاتا ہے۔ ہر واقعے کے اسباب پر انفرادی غور وفکر کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی حادثہ ہوتا ہے‘ اس کی پہلے سے ایک تاویل موجود ہوتی ہے اور اس کو سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی قرار دے کر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کاحصہ بنا دیا جاتا ہے۔ چند دن پہلے پنجابیوں کو بے دردی کے ساتھ بلوچستان میں شہید کر دیا گیا۔ اس حادثے کو بھی اسی نفسیات کے تحت دیکھا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا ایک ایسا جواب موجود ہے جس سے اس رویے کی تفہیم ممکن ہے۔ ریاست کے بناؤ اور بگاڑ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اتنا نمایاں‘ بھرپور اور قائدانہ رہا ہے کہ تاریخ کے کسی طالب علم کے لیے اس کا انکار محال ہے۔ ہر بڑے واقعے کے پیچھے اس کا ہاتھ صاف دکھائی دیتا ہے۔ مارشل لاء میں تو یہ ہاتھ ظاہر وباہر ہوتا ہے۔ جب مارشل لا ء نہ ہو تو بھی اس کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ اس تاریخ کی موجود گی میں اگر ہر بڑے واقعے کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو یہ قابلِ فہم ہے۔ ہر قابلِ فہم بات مگر لازم نہیں کہ درست بھی ہو اور ہر واقعے پر اس کا یکساں اطلاق ہو۔
دوسرا پہلو استمرار کا ہے۔ فرد یا ادارہ‘ دور اندیش نہ ہو تو پیش پا افتادہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ اس کی نظر یہ نہیں دیکھ سکتی کہ آنے والا کل‘ آج کے حقائق سے کتنا ہم آہنگ ہو گا اور مستقبل کتنا مختلف ہو سکتا ہے۔ 1978-79ء میں ریاست کی سلامتی کا جو بیانیہ بنایا گیا‘ اس کا ایک جزو 'نجی جہاد‘ بھی تھا۔ اس کے نتیجے میں جہادی تنظیمیں قائم کی گئیں۔ پھر داخلی سیاست کیلئے اس اثاثے کو استعمال کیا گیا۔کچھ مخصوص تنظیمیں اور کچھ سیاسی جماعتیں بھی کسی دور اندیشی کے بغیر‘ سیاسی حریف کو شکست دینے کیلئے میدان میں اتاری گئیں۔ ایک وقت آیا کہ بت‘ بت گروں کی طاقت کو چیلنج کر نے لگے۔ مخلوق خالق سے جا الجھی۔ ان تنظیموں کے ہاتھوں ہمارے جتنے جوان شہید ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کی آبرو جس طرح بازیچہ اطفال بنی‘ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ خالق کے کردار میں تسلسل نہیں رہ سکتا تھا۔ آج جو واقعات ہو رہے ہیں‘ اسے خالق و مخلوق کا 'مشترکہ منصوبہ‘ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
ردِعمل کی نفسیات چونکہ واقعات کے معروضی جائزے میں مانع ہوتی ہے‘ اس لیے وہ ان دونوں پہلوئوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ یہی سبب ہے کہ آج جب بلوچستان میں پنجابیوں کا قتلِ عام ہوتا ہے تواس کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے سر ڈال دی جاتی ہے۔ اس طرح پنجابیوں کے لہو کی قدر کو کم کیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ واقعات بلوچستان اور بلوچوں کے دکھوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ گویا بلوچستان میں تو محبت کا زم زم بہہ رہا ہے اور پنجاب کے بارے میں کوئی تعصب موجود نہیں اور یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے۔ ردِعمل کی اس نفسیات نے درست تجزیے کی صلاحیت چھین لی ہے۔
اس نفسیات کے بہت سے اسباب سیاسی اور گروہی ہیں۔ 'نئے پاکستان‘ میں‘ جو 1971ء میں وجود میں آیا‘ یہ ردِعمل پہلے پیپلز پارٹی میں پیدا ہوا جب 'ریاست‘ نے اسے حریف جانا اور اس کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ کیا۔ پھر یہ پنجاب میں اور (ن) لیگ میں پیدا ہوا جب وہ ریاست کے حریف بنے۔ آج کل تحریک انصاف بھی اسی ردِعمل کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ آہستہ آہستہ اس نفسیات سے نکلے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے وابستگان کو ابھی وقت لگے گا۔ اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت شرط ہے۔ جس دن یہ ہو گئی‘ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی طرح‘ اس کا بیانیہ بھی بدل جائے گا اور ساتھ تجزیہ بھی۔ دانشور طبقے سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ ردِعمل کی نفسیات میں کوئی رائے قائم نہیں کرتا۔ اس کاتجزیہ معروضی ہوتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج کل بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس میں ریاست اور اس کے ادارے بی ایل اے کا ہدف ہیں۔ بی ایل اے ایک حقیقت ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ وہ علیحدگی کی ایک تحریک ہے۔ اس تحریک کی بنیاد پنجاب کے ساتھ نفرت پر رکھی گئی ہے۔ فوج کو اس کا نمائندہ قرار دے کر‘ اس کے جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور اب وہ عام پنجابیوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔ اس کا ریاست کی ان پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں جو بلوچستان میں اپنائی گئیں۔ بلوچستان میں اس وقت حقوق کی کوئی حقیقی تحریک موجود نہیں۔ یہ جس دن کھڑی ہوگئی‘ اس کا پہلا ہدف وہ سرداری نظام ہو گا جو صدیوں سے ان پر مسلط ہے۔ جو تنظیمیں ہمیں دکھائی دے رہی ہیں‘ بادی النظر میں بی ایل اے کا سیاسی بازو ہیں۔ چونکہ انہوں نے ریاست کو بعنوان 'اسٹیبلشمنٹ‘ اپنا ہدف بنایا ہے‘ اس لیے ردِعمل کی نفسیات ان کی حامی ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اسے پنجابیوں کا خون بے قیمت دکھائی دے رہا ہے۔
پی ڈی ایم کے عنوان سے قائم ہو نے والا اتحاد اپنے اندر یہ جوہر رکھتا تھا کہ وہ ملک کو بلوچ اور پنجابی کی تقسیم سے اٹھا کر اصل مسائل کو سامنے لاتا۔ بدقسمتی سے جماعتوں کے گروہی مفادات غالب آئے اور وہ قائم نہ رہ سکا۔ اس سے پہلے ایم آر ڈی کے اتحاد میں بھی یہ جوہر موجود تھا۔ آج ملک کو قومی سیاسی جماعتوں کا کوئی اتحاد ہی ان بحرانوں سے بچا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں مسائل کا سیاسی حل تلاش کرتی ہیں۔ انقلاب اور مسلح جدوجہد کی باتیں لہو گرم رکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت‘ فطری طور پر موجود نہیں۔
قوم کو بلوچ اور پنجابی یا اسٹیبلشمنٹ اور عوام میں تقسیم کرنے کے بجائے‘ لازم ہے کہ اسے متحد کیا جائے۔ یہ کام اہلِ دانش اور سیاسی جماعتیں کر سکتی ہیں۔ اہلِ دانش ردِعمل کی نفسیات سے اٹھ سکتے ہیں اور سیاسی جماعتیں سیاسی حل تلاش کرتی ہیں۔ حقوق کی نام نہاد تحریکوں میں کوئی خیر نہیں ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کی بات ہو یا اقلیتوں کی‘ بلوچوں کے حقوق کا نعرہ ہو یا مہاجروں کے حقوق کا‘ ان سے صرف خلفشار اور فساد پیدا ہوا ہے۔ کسی گروہ کو اس کا کوئی حق نہیں ملا۔ نوجوانوں میں چونکہ یہ جذباتی نعرے مقبول ہوتے ہیں‘ اسی لیے یہ لوگ ان نعروں کے سہارے نوجوان نسل میں ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ دانش اور سیاست قوم کو اس ہیجان سے نکال سکتے ہیں۔
بلوچستان کے معاملات کو گرد وپیش سے الگ کر کے سمجھنا بھی کم نظری ہے۔ ایران‘ بھارت‘ افغانستان‘ چین‘ سی پیک‘ اَن گنت عوامل ہیں جو اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بلوچستان بھی پاکستان اور ایران میں منقسم ہے۔ اس کے پس منظر میں جنرل ایوب خان کا ایک تباہ کن فیصلہ بھی ہے جو انہوں نے پاکستانی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا۔ ردِعمل کی نفسیات ان پہلوئوں کو خاطر میں نہیں لا رہی۔
ان تمام مسائل کا دائمی حل یہی ہے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار سیاسی قوتوں کے پاس ہو۔ سیاسی حل سے مگر ہم کوسوں دور ہیں۔ اُس وقت تک ہم کم ازکم اپنا تجزیہ تو درست کر لیں۔ اس کایہ فائدہ ضرور ہو گا کہ ہم دوست دشمن میں تمیز کر سکیں گے۔ ردِعمل کی نفسیات میں رہتے ہوئے یہ نہیں ہو سکتا۔