"KNC" (space) message & send to 7575

کس کاجشن؟ کیسا یومِ تشکر؟

کیسا معاہدہ ہے کہ ظالم بھی جشن منا رہے ہیں اور مظلوم بھی۔ جارح بھی اور مجروح بھی۔ ضارب بھی اور مضروب بھی۔ فاتح بھی اور مفتوح بھی۔ اسرائیل بھی اور حماس بھی۔ امریکہ بھی اور 'امتِ مسلمہ‘ بھی۔ اسلامی تحریکیں بھی اور غیر اسلامی جماعتیں بھی۔
عوام کی خو شی تو قابلِ فہم ہے کہ جنگ کبھی عام آدمی کا نتخاب نہیں ہوتی۔ اسے تو ایندھن ہی بننا ہے‘ فاتح کی فوج میں ہو یا مفتوح کی صف میں۔ اسرائیل میں ہو یا فلسطین میں۔ وہ غیر محارب ہونے کے باوجود حرب سے متاثر ہونے والوں میں سرِفہرست ہوتا ہے۔ وہ مگر کیوں خوش ہیں جن کا نعرہ تھا کہ 'دشمن کی بربادی تک: جنگ رہے گی‘ جنگ رہے گی‘۔ دشمن تو برباد نہیں ہوا۔ برباد تو کوئی اور ہوا ہے۔ لہو تو کسی اور کا بہتا رہا۔ بستی تو کسی اور کی اُجڑی۔ قیادت تو کسی اور کی مار ڈالی گئی۔ قیامت تو اس کی سرزمین پر برپا ہوئی۔ اس کے جلتے ہوئے خیمے میں خوشی کا سماں کیسا؟ جس کے پچاس ہزار افراد شہید ہو گئے‘ وہ کس بات کا جشن منا رہا ہے؟ جس کی بستی کھنڈر بن گئی‘ وہ آج خوش کیوں ہے؟ جس دن جنگ بندی کا اعلان ہوا‘ اسی دن اس کے بارہ افراد شہید کیے گئے۔ اس کی شادمانی کا جواز کیا ہے؟
یہ سوالات اگر مظلوم یا اس کے ساتھی کے سامنے ہوتے تو اس کی خوشی دکھ میں بدل جاتی۔ اس کے گھر میں ان پچاس ہزار بے گناہوں کا ماتم ہو تا جنہیں بلامقصد جنگ میں جھونک دیا گیا۔ اس کی بستی میں سوگ ہوتا۔ ان بیس لاکھ کے دکھ میں آنسو رواں ہو جاتے جو بے گھر ہو گئے۔ ان بچوں کی موت اس کا سکون برباد کر دیتی جنہوں نے ابھی اس دنیا کو دیکھنا تھا۔ اس قوم کا غم اسے پگھلا دیتا جو اپنی سرزمین میں اجنبی بنا دی گئی۔ وہ قوم جو بر سوں سے صرف ایک کام کر رہی ہے: اپنے صحن سے پیاروں کی لاشوں کو اٹھانا اور سپردِ خاک کر دینا۔ وہ پچاس ہزار لاشوں کے سرہانے کھڑے ہو کر 'یومِ تشکر‘ منانے کے بجائے 'یومِ غم‘ مناتا۔ وہ دفترِ عمل پر نظر ڈالتا اور دیکھتا کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اس نے صرف کھویا ہے‘ پایا کچھ نہیں۔ اس کے لیے یہ تشکر اور مسرت کا نہیں‘ افسوس کا دن ہے۔ ایسا دن جب ظالم اور مظلوم کا وزن‘ ثالث کے ترازو میں ایک جیسا ہے۔
مزید حیرت اس بات پر ہے کہ جشن منانے والوں نے اس دن کا ماتم کیا تھا جس دن یاسر عرفات نے اوسلو معاہدہ کیا۔ یہ پی ایل او اور اسرائیل کی طرف سے جنگ کی تھکاوٹ کا اظہار تھا۔ اس کے نتیجے میں مغربی کنارے اور غزہ کا اقتدار نہیں‘ انتظام فلسطینیوں کو سونپا گیا۔ غزہ کے علاقے سے اسرائیلی فوج کے انخلا کا فیصلہ ہوا۔ دونوں اطراف کے انتہا پسندوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ آج کا اسرائیلی وزیراعظم اس پر تنقید کرتا ہے۔ یہ معاہدہ 1993ء میں ہوا۔ فروری 1994ء میں ایک جنونی صہیونی ابراہیمی مسجد پر حملہ آور ہوا اور 29عبادت گزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ دوسری طرف سے حماس نے خودکش حملے شروع کر دیے۔ اس معاہدے میں شریک اسرائیلی وزیراعظم رابن کو 1995ء میں انتہا پسند یہودیوں نے قتل کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر جنگ بندی کا اوسلو معاہدہ جشن کے بجائے ماتم کا موقع تھا توآج کی جنگ بندی پر جشن کا کیا جواز ہے؟ اگر وہ فلسطینیوں کی کمزوری کا اظہار تھا تو جنگ بندی کا یہ معاہدہ طاقت کا اظہار کیسے ہے؟ کیا فلسطین آزاد ہو گیا ہے؟ آزادی تو ایک طرف‘ کیا اسرائیل ایک انچ سے بھی دست بردار ہوا؟ کیا اس نے اپنے ظلم کا اعتراف کر لیا؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر جشن کس بات کا؟
اکتوبر 2023ء میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا اور بارہ سو افراد کو ہلاک کر ڈالا۔ اسرائیل کا اس سارے عرصے میں قابلِ ذکر نقصان یہی ہوا۔ اس کا ایک انچ فتح ہوا نہ اسے کوئی اور نقصان اٹھانا پڑا۔ نقصان کیا ہونا تھا‘ اسرائیل کو اربوں ڈالر ملے اور اس کی فوجی قوت میں اضافہ ہو گیا۔ دوسری طرف کیا ہوا؟ پچاس ہزار افراد مار ڈالے گئے۔ بیس لاکھ بے گھر ہو گئے۔ غزہ کھنڈرات میں بدل گیا۔ حماس کی قیادت ختم کر دی گئی۔ حزب اللہ کو ایسا نقصان پہنچایا گیا کہ اب اس کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا آسان نہیں رہا۔ ایران میں گھس کر حملہ کیا گیا۔ اس کی دفاعی واقتصادی صلاحیت کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ فلسطینی اس سارے عرصے میں اسرائیل کے رحم وکرم پر رہے‘ جس نے انہیں بے دردی سے قتل کیا اور ہر اخلاقی ضابطے کو پامال کیا۔ حماس کی قیادت نے فلسطینیوں کو یہاں پہنچا دیا کہ امن ان کے لیے خواب بن گیا۔ جنگ بندی کی صورت میں انہیں اس خواب کی تعبیر دکھائی دی تو وہ ہر غم کوبھلا کر خوش ہو گئے۔ مکمل آزادی کے عنوان سے جو جنگ چھیڑی گئی‘ اس کی آخری منزل جنگ بندی قرار پائی۔ یہ ناکام حکمتِ عملی کی انتہا ہے۔ اس پر بھی یہ سوال ہے کہ یہ 'خوشی‘ بھی کتنی پائیدار ہو گی؟
میں دعا کرتا ہو کہ اہلِ فلسطین‘ ظالم سے اللہ کی پناہ میں رہیں مگر میں اس کی پائیداری کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں۔ مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ اب فلسطینیوں کو وہ کچھ بھی نہیں ملے گا جو اوسلو معاہدے کے نتیجے میں ملا تھا۔ یہ ایک چال معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ہے۔ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا نہیں اور ابھی سے ان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دھمکی پر اتر آیا۔ اسرائیلی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ معاہدہ کے اعلان کے باوصف فلسطینیوں کے قتلِ عام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ میرے لیے یہ خوشی سے زیادہ تشویش اور خدشات کا موقع ہے‘ اگر میں فلسطینیوں کے جان ومال کا تحفظ چاہتا ہوں۔
فلسطینیوں کو آج ایک طویل وقفۂ امن کی ضرورت ہے۔ جنگ بندی کے اس معاہدے میں غزہ کی تعمیرِ نو کا وعدہ ہے۔ امن کایہ وقفہ کم ازکم اس وقت تک ناگزیر ہے جب تک یہ بستی نئے سرے سے تعمیر نہیں ہو جاتی۔ اس کے لیے انہیں ایک حکیم قیادت کی ضرورت ہے‘ جو افسوس یہ ہے کہ انہیں میسر نہیں۔ ان کی مزید بدقسمتی یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے نام کی جگالی کرنے والا نادان دوستوں کا ایک گروہ ہے جو اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے تو دن رات ایک کیے ہوئے ہے مگر فلسطینیوں اور کشمیریوں کے لیے موت کو گلیمرائز کرتا رہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس طرح وہ ان کے دکھوں میں شریک ہو کر ایک امت ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں کو ایسے نادان اور خود غرض دوستوں سے بچائے۔ وہ دوست جو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب فلسطین میں کوئی مقتل آباد ہو اور وہ مرہم پٹی لے کر ایک امت ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔ یہی لوگ اس جنگ بندی کو فلسطینیوں کی فتح قرار دے رہے ہیں۔
آج فلسطینیو ں کا حقیقی دوست وہی ہے جو ان کو اس مقتل سے نکال کر پُرامن بستی کا مکین بننے میں ان کا مدد گار ہو۔ جو فلسطینی بچوں کے لیے اس زندگی کی خواہش کرے جو وہ اپنے بچوں کے لیے پسند کرتا ہے۔ ایک نئی قیادت امتِ مسلمہ کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی قیادت جو دماغ کو بھی ایک قابلِ استعمال شے سمجھتی ہو۔ جو دنیا اور آخرت‘ دونوں میں اہلِ اسلام کے لیے خیر اور بھلائی کا درس دے۔ آج غزہ میں بچ جانے والوں کے لیے ہمیں زندگی کا پیغام دینا ہے۔ انہیں نئے مقتل کے لیے تیار نہیں کرنا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں