"KNC" (space) message & send to 7575

مسلم فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟

مادی و دنیاوی ترقی کے باب میں مسلمانوں کا عمومی زاویۂ نظر دیگر اقوام سے مختلف کیوں ہے؟
گزشتہ تین صدیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیے اور ان اقوام کے احوال کو دیکھیے جن کے عروج و زوال سے دنیا کی تاریخ عبارت ہے۔ ان اقوام کے فکری اختلافات کے باوصف ان کے احوال میں یکسانیت ہے۔ انہوں نے اگر مادی ترقی کی ہے تو ان کی حکمتِ عملی ایک رہی ہے۔ یہ حکمتِ عملی اس زمین پر جاری قوانینِ فطرت سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ جن اقوام نے ایک مرحلے پر قدرے مختلف زاویۂ نظر اپنایا انہوں نے بھی تجربات سے سیکھتے ہوئے خود کو اس نظامِ فطرت سے ہمنوا بنا لیا۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں ہمیں دو بڑے فکری دھارے دکھائی دیے۔ اشترکیت اور سرمایہ داری۔ دونوں میں بحث ومباحثہ جاری رہا۔ دونوں نے دو مختلف نظام ہائے فکر کو اپنایا۔ دونوں میں کشمکش رہی جو سر مایہ دارانہ نظام کی فتح پر منتج ہوئی۔ اس سے اشتراکی قوتوں نے سیکھا اور اس طرزِ عمل کو اپنایا جو سرمایہ داری کی کامیابی کا سبب بنا تھا۔ حال ہی میں چین نے مصنوعی ذہانت کے باب میں امریکہ کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ یہ دراصل اُنہی خطوط پر پیش قدمی ہے جن پر امریکہ آگے بڑھا۔ چین نے امریکہ کو کھلی منڈی کی تجارت میں بھی ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا۔ چین یا روس کے نظامِ فکر میں اس تصورِ معیشت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ چین نے لیکن اس کو اپنا لیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ اس سے جان چھڑا رہا ہے اور چین اس کا پیچھا کر رہا ہے۔
جغرافیے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بیسویں صدی میں دنیا کا جو نقشہ بنا‘ چین کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ مثال کے طور پر ہانگ کانگ کو چین نے اپنا حصہ مانا جبکہ وہ بر طانیہ کے تسلط میں تھا۔ اسی طرح تائیوان ایک الگ ملک کے طور پر موجود ہے مگر چین اس کو اپنا حصہ کہتا ہے۔ گویا یہ نقشہ چین کی مرضی کا نہیں ہے۔ اب چین نے کیا کیا؟ انتظار‘ یہاں تک کہ ہانگ کانگ چین کا حصہ بن گیا۔ تائیوان ابھی تک چین کا حصہ نہیں بن سکا۔ چین کو مگر جلدی نہیں ہے‘ جس دن طاقت کا توازن اس کے حق میں ہو گیا وہ کسی سے مشورہ نہیں کرے گا اور تائیوان چین کا حصہ بن جائے گا۔ چین اس کیلئے عشروں تک انتظار کر سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے بھی یہی کیا۔ اس نے مادی ترقی کے لیے وہی راستہ اپنایا جو دنیا کی دوسری ترقی یافتہ اقوام اپنا چکی تھیں۔ جنگ سے نجات اور ساری توجہ اپنی تعمیر پر۔ یہاں تک کہ جاپان کا شمار دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں ہونے لگا۔
اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ روحانی اقدار کے حوالے سے یہ ملک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جاپان کی اپنی روایت ہے اور چین کی اپنی۔ یورپ کی طرح یہ مسیحی نہیں‘ مقامی ہے۔ ان اقوام نے مادی ترقی کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جو دنیا بھر میں رائج ہے۔ کسی نظریاتی بحث میں نہیں پڑے۔ انہوں نے اس کائنات میں کارفرما فطرت کے اصولوں کو سمجھا جن کا سب پر یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ رہی روحانی اور اخلاقی تعمیر تو اس کے لیے اپنی مقامی روایات پر اعتبار کیا۔
اس کے برخلاف ہمیں مسلم دنیا میں سوچ و فکر کی کوئی ایسی لہر اٹھتی دکھائی نہیں دی جو فطرت میں کارفرما ان اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ ترکی کے استثنا کے ساتھ تمام تر مسلم ذہانت ماضی پرست رہی اور 'پدرم سلطان بود‘ کی نفسیات میں جیتی رہی۔ اس نے اگر مسلمانوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کیا تو وہ تھا ماضی کی بازیافت۔ یہی کہا گیا کہ مسلمانوں کو خلافت کا احیا کرنا چاہیے اور اسی میں ان کی بقا ہے۔ کہیں یہ ادراک موجود نہیں تھا کہ دنیا بدل گئی ہے اور اب ماضی کی طرف لوٹنا ممکن نہیں۔ عالمی سطح پر اقتدار صرف مسلمانوں کا نہیں‘ بر طانیہ جیسی سلطنت کا بھی ختم ہو رہا تھا لیکن برطانیہ میں ایسی کوئی تحریک نہیں اٹھی کہ اسے دوبارہ عظیم تر (Great Britain) بنایا جائے یا دنیا کو ایک بار پھرفتح کیا جائے۔ ماضی کی عالمی طاقتوں نے اگر یہ چاہا بھی کہ دنیا میں ان کا تسلط برقرار رہے تو انہوں نے نئے طریقے ایجاد کیے۔ جیسے اقوامِ متحدہ اور اس میں ویٹو پاور۔
مسلمانوں میں جو مفکر اُٹھا اُس نے سیاسی احیا اور عالمی خلافت کی بحالی کا حل پیش کیا۔ جمال الدین افغانی ہوں یا برصغیر کے مفکرین‘ سب اسی نظامِ فکر کے ساتھ سوچتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی ضروری نہیں سمجھا کہ دنیا میں ترقی کرنے والی اقوام کے احوال ہی پر ایک نظر ڈالیں اور ان کے منہج کو سمجھیں۔ اس فکر میں یہ غلط فہمی کہیں سے در آئی کہ ہم ترکیب میں خاص ہیں اور ہمارے لیے قدرت نے ترقی کا ایک مختلف راستہ منتخب کر رکھا ہے۔ اس سارے عمل کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا مگر ہماری اجتماعی سوچ آج بھی اسی نظامِ فکر کی اسیر ہے۔ وہی خلافت کا احیا۔ وہی جہاد بالسیف۔ وہی موت کو گلیمرائز کرنا۔ کشمیر ہو یا فلسطین‘ آج بھی موت پر خوشی منائی جاتی ہے اور مرنے کو کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔مصطفی کمال نے کسی حد تک اس تبدیلی کو محسوس کیا جو دنیا کے نظامِ فکر میں آ چکی تھی۔ ترکی نے مادی ترقی تو کی مگرکمال ازم نے ملک کو داخلی سطح پر ایک غیر ضرور ی تہذیبی کشمکش میں ڈال دیا‘تاہم جہاں انہوں نے قوانینِ فطرت سے ہم آہنگی پیدا کی وہاں اس کے مثبت نتائج نکلے۔
آج عربوں کے ایک طبقے میں متبادل سوچ کے لیے راستے بن رہے ہیں۔وہاں یہ احساس جڑ پکڑ رہا ہے کہ آپ کوئی خصوصی قوم نہیں ہیں اور اگر آ پ کو ترقی کرنی ہے تو اس کا راستہ وہی ہے جو دوسری اقوام نے اختیار کیا ہے۔اس کے مظاہر بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں یہ معاشی بحالی کا عمل ہے مگر سماجی اور سیاسی تبدیلی کی طرف پیش رفت کو روکنا اب مشکل ہو گا۔اس وقت چین بھی معاشی ترقی کو ایک خاص سماجی و سیاسی ماحول میں کامیابی سے پروان چڑھا رہا ہے۔اس نے فی الحال یورپ اورامریکہ کے سماجی و سیاسی ماڈل کوپوری طرح قبول نہیں کیا۔ممکن ہے عرب بھی کوئی اسی طرح کا ماڈل بنا سکیں جس میں بادشاہت ا ور جدید سماجی و سیاسی رجحانات کو کسی حد تک ایک ساتھ چلا یا جا سکے۔تاہم اس وقت یہ سوچ ایک اعیانی طبقے ہی تک محدود ہے۔ جسے ہم امتِ مسلمہ کہتے ہیں‘اس میں اس کی پذیرائی نہیں ہے۔وہ ابھی تک اسی نظامِ فکر کی اسیر ہے جس کی منزل خلافت کا احیا ہے۔
مسلمانوں میں ایک متبادل نظامِ فکر کا فروغ آسان نہیں۔ ڈیڑھ‘ دو صدیوں کے انسانی تجربے کو کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اگر سوچ کی کوئی متبادل لہر نہ اٹھے تو وعظ و نصیحت سے یہ کیسے ممکن ہو گا؟ جس کو وقت نہ سکھا سکے‘ اسے کوئی فرد کیا سمجھائے گا؟ مجھے یہ انسانی تاریخ کا ایک منفرد تجربہ دکھائی دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس قلیل طبقے میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے‘ اس کا رجحان الحاد کی طرف ہو جاتا ہے۔ گویا اس کے لیے بھی یہ باور کرنا آسان نہیں کہ اپنی روحانی اور اخلاقی اقدار پر کھڑے رہ کر بھی مادی ترقی ممکن ہے۔ اگر چین اور جاپان نے مقامی قدروں کو قربان نہیں کیا تو ہمارے لیے ایسا کرنا کیوں لازم ہے؟
خود کو قوانینِ فطرت سے ہم آہنگ بنانے کے لیے مسلمانوں کو مزید کتنا وقت چاہیے؟ اس سوال کا جواب میر ے پاس نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں