یہ صلح بے معنی ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مجھے رتی برابر شبہ نہیں کہ فاطمہ کا مقدمہ خدا کی عدالت میں درج ہو چکا۔ اُس دن کی آمد یقینی ہے جب وہ سب اس عدالت میں پیش ہوں گے‘ جنہیں فاطمہ کی آبرو اور جان کی حفاظت سونپی گئی تھی۔ اس میں ریاست کے اربابِ حل وعقد بھی ہیں اور وہ بھی جن کے ہاتھ اس کے لہو سے رنگے ہیں۔
قیامت کیا ہے؟ وہ دن کیسا ہوگا جب خدا کی عدالت لگے گی؟ یہ سوالات قرآن مجید کا خاص موضوع ہیں۔ آخری سورتوں میں تو اس دن کا منظر کئی اسالیب میں اس طرح کھینچا گیا ہے کہ پڑھتے ہوئے زَہرہ آب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ عربی زبان کے ادا شناس ہی کلام کی اس تاثیر کو پا سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان آیات کا اچھا اردو ترجمہ بھی دل ہلا دیتا ہے۔ ایسی ہی ایک سورۃ‘ التکویر بھی ہے۔ اس کے کئی اچھے ترجمے موجود ہیں۔ میں استاذِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کا ترجمہ یہاں نقل کر رہا ہوں:
''جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی‘ جب تارے ماند پڑ جائیں گے‘ جب پہاڑ چلائے جائیں گے‘ جب دس ماہہ گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی‘ جب وحشی جانور (اپنی سب دشمنیاں بھول کر) ایک ہی جگہ اکٹھے ہو جائیں گے‘ جب سمندر ابل پڑیں گے‘ جب جیوں کے جوڑ (اُن کے عمل کے لحاظ سے) بندھیں گے‘ جب اُس سے جو زندہ گاڑ دی گئی‘ پوچھا جائے گاکہ وہ کس گناہ پر ماری گئی؟ جب دفتر کھولے جائیں گے‘ جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی‘ جب دوزخ دہکائی جائے گی‘ جب بہشت قریب لے آئی جائے گی‘ اُس وقت (لوگو‘ تم میں سے) ہر شخص یہ جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے‘‘۔
اس سورۃ میں ایک بچی کا ذکر ہے جو زندہ گاڑ دی گئی۔ ''پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی؟‘‘ یہ کون ہے؟ یہ اُس عہد کی 'فاطمہ‘ تھی۔ قرآن مجید کا اسلوب بتا رہا ہے کہ یہ سوال ہر دور کی 'فاطمہ‘ کے بارے میں ہو گا۔ یہ رانی پور کی فاطمہ بھی ہے۔ جاوید صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''اس سے مقصود اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے داد رسی کے مستحق وہ معصوم ہوں گے جو اُن لوگوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئے جنہیں خدا نے اُن کا محافظ بنایا تھا‘‘۔ فاطمہ کا محافظ کسے بنایا گیا؟ اُس پیر کو جس کے گھر میں وہ رہتی تھی۔ وہ عدالت جہاں اس کے قتل کا مقدمہ سنا گیا۔ وہ ریاست‘ جس میں وہ پیدا ہوئی۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ آج جو لوگ اقتدار میں ہیں‘ یہ ان کی کوشش اور طلب سے ان کو ملا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے جانتے بوجھتے کروڑوں افراد کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حالات نے انہیں سونپی ہے۔
فاطمہ جیسی کتنی ہیں جو قتل ہوتی ہیں‘ ہم ان کی تعداد نہیں جانتے۔ فرق یہ ہے کہ رانی پور کی فاطمہ پر ہونے والے ظلم کے شواہد محفوظ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور قتل کی وڈیو موجود ہے۔ میڈیکل رپورٹس موجود ہیں جو جرائم کی تصدیق کر رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے قدرت نے اس معاملے میں کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا۔ اس کا مقدمہ سب کے لیے آزمائش بن چکا۔ کیا اتنے بڑے بڑے جرائم کو جو ایک معصوم جان کے ساتھ ہوئے‘ محض اس لیے معاف کر دیا جا ئے کہ غریب ماں نے مجرموں سے صلح کر لی؟ کیا ہم نہیں جانتے یہ صلح کیسے ہوتی ہے؟ کیا اس صلح کے بعد‘ ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں؟
قرآن مجید نے بتایا ہے کہ قصاص مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی پر فرض کیا گیا ہے۔ (البقرہ: 178 تا 179) انسانی جان کی حرمت کے بارے میں عالم کا پروردگار اتنا حساس ہے کہ قدیم اقوام کے لیے بھی قصاص کو فرض قرار دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے کو بھی اس معاملے میں اسی طرح حساس دیکھنا چاہتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس سبق کی طرف متوجہ کرتے ہیں جو اس آیت سے ہمیں ملتاہے: ''ہر حادثۂ قتل پوری قوم میں ایک ہلچل پیدا کر دے۔ جب تک اُس کا قصاص نہ لے لیا جائے‘ ہر شخص یہ محسوس کرے کہ وہ اُس تحفظ سے محروم ہو گیا ہے جو اُس کو اب تک حاصل تھا۔ قانون ہی سب کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر قانون ہدم ہو گیا تو صرف مقتول ہی قتل نہیں ہوا‘ بلکہ ہر شخص قتل کی زد میں ہے‘‘۔ (تدبرِ قرآن)
قرآن مجید نے دوسرے فریق کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے‘ اسے یہ حق دیا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے مجرم کو معاف کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مقتول کے وارثوں کی مرضی کے بغیر‘ قاتل سے رعایت نہیں کر سکتی۔ اگر وہ معاف کر دیں تو اس سے قصاص کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے لیکن ریاست کا اختیار ختم نہیں ہوتا۔ جاوید غامدی صاحب اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ''قرآن کو اس بات پر تو یقینا اصرار ہے کہ وارثوں کی مرضی کے بغیر قاتل کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جا سکتی‘ لیکن اس بات پر ہرگز اصرار نہیں ہے کہ وہ نرمی برتنے پر تیار ہو جائیں تو اُسے چھوڑنا ضروری ہے۔ یہ فرق نہایت حکیمانہ ہے۔ دوسری بات پر اصرار کیا جائے تو معاشرے کا حق تلف ہوتا ہے اور وہی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے جس کا ہم ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی کے معاملے میں ماتم کر رہے ہیں اور پہلی بات پر اصرار نہ کیا جائے تو وارثوں کا حق تلف ہوتا ہے اور وہ حکمت باطل ہو جاتی ہے جو اس پورے قانون میں ملحوظ ہے کہ مقتول کے وارثوں کی آتشِ انتقام بجھا دی جائے اور اُن کے زخم کا اس طرح اندمال کیا جائے کہ اگر وہ کوئی نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اُس کے خاندان پر یہ ان کا براہ راست احسان ہو جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع ہو سکتی ہے‘‘۔ (مقامات)
رانی پور کی فاطمہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ صلح کیسے ہوئی۔ کسی غریب اور کمزور کے پاس‘ اس کے علاوہ کوئی راستہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ریاست کا معاملہ مگر یہ نہیں ہے۔ وہ کمزور نہیں ہوتی اور اگر کوئی فرد اس سے زیادہ زور آور ہو جائے تو اس کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ جب یہ ثابت ہو جائے کہ صلح دباؤ کے ساتھ کروائی گئی تو جرم کی سنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں ریاست پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دے۔ بصورتِ دیگرصلح کے نام پر اسی طرح ظلم جاری رہے گا۔ فاطمہ کا معاملہ محض قصاص کا نہیں ہے۔ یہ کم سن کی آبرو ریزی کاجرم بھی ہے جس میں صلح نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے 17 فروری کو اس صلح کے مقدمے کی سماعت کرنی ہے۔ یہ حکم سنانے سے پہلے‘ یہ واضح رہنا چاہیے کہ زمین کے ساتھ ہر مقدمہ خدا کی عدالت میں بھی درج ہو تا ہے۔ مجھے رتی برابر شبہ نہیں کہ یہ مقدمہ بھی د رج ہو چکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ فاطمہ کو یہاں انصاف ملتا ہے یا اُس دن ملنا ہے ''جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی‘ جب تارے ماند پڑ جائیں گے‘ جب پہاڑ چلائے جائیں گے‘ جب دس ماہہ گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی‘ جب وحشی جانور (اپنی سب دشمنیاں بھول کر) ایک ہی جگہ اکٹھے ہو جائیں گے‘ جب سمندر ابل پڑیں گے‘ جب جیوں کے جوڑ (اُن کے عمل کے لحاظ سے) بندھیں گے‘ جب اُس سے جو زندہ گاڑ دی گئی‘ پوچھا جائے گاکہ وہ کس گناہ پر ماری گئی؟‘‘۔