جب بدتہذیبی اور بدتمیزی کو ''سیاسی شعور‘‘ کا نام دے کر اس کی حو صلہ افزائی کی جا رہی تھی تو اس کوتاہ نظری کی طرف جن لوگوں نے متوجہ کیا‘ میں بھی ان میں شامل تھا۔ یہ سیاسی شعور اب اُس گھر کے دروازے پر دستک دینے لگا ہے جہاں اس نے جنم لیا تھا۔
محترمہ علیمہ خان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا‘ اس کی اسی طرح مذمت ہونی چاہیے جس طرح نواز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ پر آوازے کسنے والوں کی مذمت کی گئی تھی۔ کوئی شریف آدمی دونوں میں فرق نہیں کر سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ اس کے باوصف اس روش میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ سیاسی شعور کے یہ مظاہر جاری رہیں گے اور یہ یاد دہانی ایک بار پھر صدا بصحرا ثابت ہو گی۔ یہ ''شعور‘‘ اس طرح رگ و پے میں اُتر چکا ہے کہ کم از کم شعور کے بس میں نہیں کہ وہ اس نشے کو اتار سکے۔
کالم مگر محض تذکیر نہیں۔ اس کے سوا بھی کچھ ہے۔ یہ تجزیہ ہے‘ تاثر ہے اور رائے ہے۔ مجھے یہ لکھنا ہے کہ میرے فہم کے مطابق کس رویے کے سماجی اثرات کیا ہوں گے۔ مجھے بتانا ہے کہ سیاسی شعور کس چڑیا کا نام ہے۔ مجھے یہ تجزیہ کرنا ہے کہ سماج میں پھیلنے والے شر کو محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ وبا کی طرح ہے جو نیک و بد سب کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔ اس لیے ردِ عمل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مجھے وہی لکھنا ہے جسے میں درست سمجھتا ہوں۔
میں جب کسی کی سرِ عام توہین کرتا ہوں یا کسی کو مامور کرتا ہوں کہ وہ دوسروں کی تضحیک کرے تو مجھے تیار رہنا چاہیے کہ کل بازار میں میرا بھی تماشا لگ سکتا ہے۔ میری پگڑی بھی سرِ بزم اچھل سکتی ہے۔ میں بھی رسوا ہو سکتا ہوں۔ میرے استثنا کے لیے آسمان سے کوئی فیصلہ نہیں اترا۔ یہ ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ نشہ بیچنے والوں کے اپنے بچوں کو یہ لت لگ جاتی ہے۔ دھول اڑانا جب فیشن بن جائے تو ہر چہرہ گرد آلود ہوتا ہے۔ یہ سب ہمارا آنکھوں دیکھا ہے مگر ہم نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ مشاہدے سے کچھ سیکھنا ہے نہ تجربے سے۔
دعویٰ ہم سب کا یہی ہے کہ ہم ریاستِ مدینہ بنانے چلے ہیں۔ اسلام کی خدمت کے لیے ہمہ وقت رطب اللسان رہتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ کے اخلاق سے مگر ہمیں کوئی نسبت نہیں۔ پیغمبروں کو انسانی تاریخ میں جو امتیاز حاصل ہے وہ کردار اور اخلاق کا اُجلا پن ہے۔ ان کی بعثت بھی اسی لیے ہوتی ہے کہ لوگ اخلاق اور کردار میں ان کو نمونہ بنائیں۔ کسی فلسفی اور کسی مفکر کا یہ معاملہ نہیں اگر وہ الہامی ہدایت سے دور ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ پیغمبروں کے ماننے والے دوسرے گروہوں میں ممتاز تر ہوں۔ افسوس کہ اس کا ادراک لیڈروں کو ہے نہ ان کے پیچھے چلنے والوں کو۔
ہم اس احساس سے محرومِ محض نہیں‘ اس سے بھی ایک ہاتھ آگے ہیں۔ ہم بدتمیزی کو اپنے لیے باعثِ شرف سمجھتے ہیں۔ میں اپنے کالم پرکیے جانے والے تبصروں کو دیکھتا ہوں کہ غلاظت کا ایک ڈھیر جمع ہوتا ہے۔ یہ سب اس سیاسی شعور کے مظاہر ہیں جو ہم نے نئی نسل میں پیدا کیا ہے اور جس پر فخر کیا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ لوگ صبح اس غلاظت کو منہ اور ہاتھوں میں جمع کر کے نکلتے ہیں اور حسبِ توفیق اس سیاسی شعور کو‘ جہاں سے گزرتے ہیں‘ بانٹتے پھرتے ہیں۔ یہ کلچر اب اتنا عام ہو گیا کہ دینی موضوعات پر بات کرنے والے جب تنقید کرتے ہیں تو جوتوں کے ساتھ اخلاق کی عبا اتار کر اس حرم میں داخل ہوتے ہیں۔ انہیں بھی القاب سے پکارنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کا حوالے پہ حوالہ دیں گے مگر سورۂ حجرات کی آیات کو نظر انداز کر دیں گے۔ یہ اسی شعور کا فیضان ہے جو سیاست تک محدود نہیں رہا‘ اب کلچر بنتا جا رہا ہے۔
علیمہ خان صاحبہ کے ساتھ ہونے والے واقعے کو اگر سیاسی فرقہ واریت کا موضوع بنایا گیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ اس ''سیاسی شعور‘‘ کو تقویت ملے گی جس پر اب ایک سیاسی جماعت کی اجارہ داری نہیں رہی۔ سیاست میں کسی محاذ پر شکست گوارا نہیں کی جاتی‘ یہاں تک کہ بدتمیزی میں بھی نہیں‘ اِلّا یہ کہ کسی کو خوفِ خدا ہو۔ انسان کی نفسیات یہ ہے کہ وہ دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ سیاست میں یہ بات تو بدرجہ اتم سچ ہے۔ لگتا یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اب پیچھے نہیں رہے گی۔
یہ جانتے ہوئے کہ اس بات کاکوئی فائدہ نہیں‘ میں اسے دہرانا چاہتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو کسی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کر لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ریاست کو بھی اس حوالے سے سنجیدگی دکھانا ہو گی۔ علیمہ خان صاحبہ پر جنہوں نے انڈے پھینکے‘ انہیں پکڑ لیا گیا۔ لازم ہے کہ ان کے چہرے عوام کے سامنے لائے جائیں۔ اگر ایسے لوگوں کے بارے میں قانون بھی حرکت میں آئے تو اس کلچر کے فروغ کو رو کا جا سکتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ سماج میں اخلاقی اقدار کا کوئی بھرم باقی رہے تو لازم ہے کہ اس کے لیے سب متحد ہوں۔
ہمیں سماج اور ریاست میں فرق کرنا ہے۔ اخلاقی قدروں کو بچانے کا مطلب سماج کو بچانا ہے۔ ریاست کی حفاظت کے لیے بہت سے ادارے قائم ہیں اور اپنا کام بھی کر رہے ہیں۔ سماج کو بچانے والا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ ہمیں اس کی فکر کرنی ہے۔ سیاسی جماعتیں اصلاً سماجی ادارے ہیں۔ وہ سیاسی رویوں کی تربیت کرتے ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت کا لہجہ اور ذدق نیچے تک سرایت کر جاتا ہے۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے سیاسی قیادت کے رویوں میں بہتری آتے دیکھی ہے۔ یہ سیاسی عمل میں حرکت کا نتیجہ ہے جو بدقسمتی سے تعطل کا شکار ہے۔ تعطل نے سیاست کو جوہڑ میں بدل دیا ہے۔ برسرِ اقتدار سیاسی جماعتیں عوام سے غیر متعلق ہیں‘ جو متعلق ہیں ان کا حال ہم سے چھپا نہیں۔
میری دلچسپی ہمیشہ سماج سے رہی ہے۔ ہمیں یہاں رہنا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے۔ اس کا تعلق ہمارے رویے سے ہے۔ ہم چاہیں تو اس سماج کو جہنم بنا دیں اور چاہیں تو جنت نظیر۔ اگر عوامی سطح پر ایک دوسرے کے احترام کی روایت آگے بڑھے تو ہمارے اختلافات سیاسی ہوں یا مذہبی‘ ہمارے لیے مسئلہ نہ بنیں۔ عدم برداشت اخلاقی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ یہ اخلاقی رزائل میں شامل ہے۔ اس سے نجات تعلیم اور تربیت سے ہو سکتی ہے۔ اس کے تمام راستے ہم نے بند کر دیے ہیں اور پوری قوم اس وقت ان وی لاگرز کے قبضے میں ہے جن کا کام ہی اشتعال کا فروغ ہے۔ ان کے زیرِ اثر لوگ اپنا اخلاقی اثاثہ کھو رہے ہیں اور انہیں اس کا کوئی احساس نہیں۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ علیمہ خان صاحبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر سوچا جاتا۔ سیاسی قیادت غور کرتی کہ یہ دائرے کا سفر ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم پہ انڈے نہ پھینکے جائیں تو پھر ضروری ہے کہ ہم بھی دوسروں پر گالیوں کی برسات نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹے خداؤں کو برا کہنے سے منع کیا کہ جواباً وہ سچے خدا پر زبان درازی کریں گے۔ اگر ہم تجربات سے نہیں سیکھیں گے تو پھر یہ کاروبار جاری رہے گا‘ یہاں تک کہ کوئی گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکے گا۔ یہ بات ان کے لیے ہے جن کے کان نصیحت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جو اس سے بے نیاز ہیں‘ ظاہر ہے کہ یہ کالم ان کے لیے نہیں ہے۔ ان کو ''سیاسی شعور‘‘ مبارک۔