"KDC" (space) message & send to 7575

مئی کے انتخابات اور حقائق

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 11مئی کے انتخابات کو متنازعہ بننے کی لہر سے بچنے کے لئے اعلان کیا کہ انتخابات میں ووٹروں کے انگوٹھے کے لئے مقناطیسی سیاہی استعمال نہ کرنے والے انتخابی عملے کے خلاف کارروائی ہو گی اوران کی سزا کا تعین الیکشن ٹربیونلز کریں گے۔دراصل الیکشن کمیشن کے اختیارات کے تعین کے بارے میں 1973ء کے دستور میں واضح حکمت عملی طے ہی نہیں ہوئی۔الیکشن کمیشن کو بڑی گہری رازداری سے تہہ در تہہ آئینی آرٹیکلز اور قوانین میں جکڑے رکھاگیا ہے۔ اس کے تمام فیصلے الیکشن ٹربیونلز ، الیکشن ایپلیٹ ٹربیونلز، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز، عدالت عالیہ اور عدالتِ عظمٰی کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دینے، بعض پولنگ سٹیشنوں پر ازسرنو پولنگ کرانے، الیکشن عملے کا تقرر کرنے، پولنگ سٹیشنوں کے لئے جگہ کا تعین کرنے، ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے، کاغذاتِ نامزدگی منظوریا نا منظورکرنے کے تمام مراحل، الیکشن کا رزلٹ تیار کرنے یا کسی حلقے میں از سر نو گنتی کرانے کے فیصلے کرنے کاازخود مجاز نہیں۔اسے ریٹرننگ افسروں سے رپورٹ منگوانی ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ عدلیہ کے یہ جونیئرافسرالیکشن کمیشن کی طرف دیکھنے کے بجائے متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مقررکردہ ریٹرننگ افسرکے فیصلوں کے خلاف اپیل کی سماعت الیکشن ایپلیٹ ٹربیونل کرتا ہے،اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ ان کے صاف و شفاف ہونے پر ضرور انگلیاں اٹھیں اور سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں نے الیکشن میں دھاندلیوں کے الزامات لگائے۔ 11مئی کے انتخابات کو ہر قسم کے نقائص سے پاک کرنے کی کوشش صرف کاغذی اور بیانات کی حد تک ہی رہی۔ چیف الیکشن کمشنر کی یونٹی کمان کے نیچے تقریباً 750ریٹرننگ افسرنادرا کی جانب سے تجویز کردہ مقناطیسی سیاہی کی سپلائی کے عمل کو نظر انداز کر کے الیکشن کمیشن کو شفافیت اور اعتراضات کی زد میں لے آئے۔ ان انتخابات کے لیے پہلی بار مقناطیسی سیاہی متعارف کرائی گئی لیکن قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں56ہزار سے زائد ووٹوں کی تصدیق نہ ہو سکی کیونکہ یہاں ووٹروں نے یہ سیاہی استعمال ہی نہیں کی۔ اس بات کی تحقیقات وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے کرائی جارہی ہے کہ وافر مقدار میں مقناطیسی سیاہی فراہم ہونے کے باوجود متعلقہ انتخابی عملے نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کی روشنی میں اس ارادی یا غیر ارادی بے قاعدگی کے بارے میں اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک مشینوں کے استعمال کے لئے حکمت عملی طے کر رہے ہیں جس کے تحت الیکشن کمیشن دو سال میں یہ مشینیں خریدلے گا اور آئندہ قومی،صوبائی اور بلدیاتی انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ کی بنیاد پر ہو سکیں گے ۔اس نظام کو اپنانے کے لئے آئین میں ترمیم بھی کرنا ہو گی کیونکہ اس کے ضمنی اثرات( Side Effects)بہت گہرے ہیں۔بعض سیاسی پارٹیوں کے حواری جوپولنگ سٹیشنوں پرقبضہ کرکے اپنے امیدوارکے حق میں جعلی انگوٹھوں کے ذریعے ووٹنگ کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان سے خدشہ ہے کہ وہ حسب روایت پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کرنے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بٹن دبائے رکھ کر جعلی ووٹ بھگتا سکتے ہیں۔ مئی کے انتخابات میں عمران خان، اسفند یار ولی ، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن اور بلوچستان کے قوم پرست رہنمائوں نے اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر انتخابات قبول کر لئے اور عوام کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دھاندلی قبول نہ کرنے کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کویاد رکھنا چاہیے کہ کسی جمہوری ملک میں عام انتخابات متنازعہ اور مشکوک ہو جائیں توحکمران جماعت کا سیاسی کردار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پاکستان کے وہ سیاسی رہنما جو قومی انتخابات کے نتائج کو حیران کن قرار دے رہے ہیں انہیں قومی سطح پرتحقیقات کرانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔یہ تحقیقات بھی کرنی پڑے گی کہ الیکشن کمیشن نے نادرا کی تجویزکردہ انگوٹھے کی سیاہی تقسیم کرنے کی ذمہ داری کس کو سپرد کی تھی اوراس میں تبدیلی کس سطح پر ہوئی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسی تبدیلی نا ممکن ہے۔ حساس نوعیت کی سٹیشنری فوج کی حفاظت میں ریٹرننگ افسروںکو بھجوانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات شفاف کروانے کے بلند بانگ دعوے بھی کئے مگرجسٹس فخر الدین ابراہیم کی معصومیت کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔ جن ممالک کا جغرافیہ جتنااہم ہوتا ہے ان کا استحکام اتنا زیادہ خطرے میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں عالمی طاقتوں کے مفادات کے ٹکرائوکااندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں یہ ممالک اندرونی اور بیرونی سازشوں کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان 1947ء میں جمہوریت کے ذریعے وجود میں آیا جو اب بکھر رہا ہے لیکن ملکی اشرافیہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھ رہی۔ جمہوریت کا تصور اسلام سمیت کسی مذہب کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ قرآن پاک میں شوریٰ یعنی مشورے سے معاملات انجام دینے کی ہدایت کی گئے ہے۔بدقسمتی سے حالیہ انتخابات میں دنیا کے کئی ممالک کی ایجنسیاں سرگرم عمل رہیں۔میڈیا کے بعض کالمسٹ سیاسی و لسانی اختلافات بڑھانے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں جن کا ایک مقصد طالبان کے ساتھ حکومت کے معاملات طے کرنے کے عمل کو مضحکہ خیز بنانا ہے۔طالبان سے فیصلہ کن مذاکرات کے لیے نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔دوسری جانب محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف مذاکرات کے ذریعے قومی مفادات کا تحفظ کرنے سے زیادہ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام بنانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو گئے تو خدا نخواستہ پاکستان سنگین مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں پنجاب کے مفادات کو بچاتے بچاتے پاکستان کی فیڈریشن کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ غیر ملکی ماہرین نے نادرا رپورٹ کی تصدیق کر دی ہے۔ حالیہ انتخابات میں کراچی کے حلقہ این اے258اور این اے256میں 84ہزار میں سے 57ہزار ووٹ اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 114سے 80ہزار ووٹ غیر مصدقہ قرار دیے گئے ہیں،صرف 27ہزار ووٹوں کی تصدیق ہو سکی۔ کراچی کے ان دو حلقوں میں ووٹوں کا تنازع طے کرنے کے لئے نادرا نے فرانسیسی ماہرین سے رابطہ کیا تھا۔ نادرا کو ان ماہرین کی رپورٹ موصول ہو گئی ہے جنہوں نے نادرا رپورٹ کو درست قراردیا ہے۔ فرانس کی مورفوانڈسٹریزکو انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کے لئے عالمی شہرت حاصل ہے۔ نادرا نے کراچی، پشاور اور سکھر سمیت دیگر حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کے لئے بھی غیر ملکی ماہرین سے رابطہ کر رکھا ہے ۔ادھر متحدہ عرب امارات کے اخبار خلیج ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں 100سے زائد ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی ہو سکتی ہیں۔ ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 50، تحریکِ انصاف کے 24، پیپلز پارٹی کے تقریباًایک درجن، جمعیت علمائے اسلام کے 4 جب کہ دو آزاد ارکان شامل ہیں۔ ارکان اسمبلی کی تعلیمی اسناد کو عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو قومی اور صوبائی اسمبلی سے تعلق رکھنے والے سو سے زائد ارکان کی تعلیمی اسنادموصول ہوئیں جو مبینہ طور پر جعلی ہیں جن کی تصدیق ہونی چاہیے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترجمان عائشہ اکرام نے تصدیق کی ہے کہ انتخابات کے بعد 107جعلی یا مشکوک اسناد کے کیس موصول ہوئے جن میں سے کچھ کی تصدیق کر لی گئی ہے اورباقی پر کارروائی جاری ہے۔ مارچ 2014ء تک تمام نتائج سامنے آنے پر ملک میں7مارچ1977ء کی طرز پر تحریک کا آغاز ہونے کا قوی امکان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں