یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی ملک گیر احتجاج سے عالمی بالخصوص امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ احتجاجی سیاست سے حکومت پر عالمی دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے بعد شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب انہیں کسی بھی طرف سے کوئی ریلیف ملنے کا امکان نہیں ہے‘ اسی لیے انہوں نے اپنے پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کو 24 نومبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی 'فائنل کال‘ دی ہے تاکہ وہ فیصلہ سازوں پر دباؤ ڈال سکیں۔ پی ٹی آئی نے اس لانگ مارچ کا مقصد چار مطالبات کی منظوری قرار دیا ہے جن میں 26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ‘ جمہوریت اور آئین کی بحالی‘ مینڈیٹ کی واپسی اور تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔دیکھا جائے تو ان چاروں مطالبات کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ 24 نومبر کے احتجاج کی تیاریوں کے لیے بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کافی متحرک دکھائی دیتی ہیں۔بشریٰ بی بی نے بانی پی ٹی آئی کا پیغام پی ٹی آئی عہدیداروں تک پہنچاتے ہوئے 24 نومبر کو احتجاج میں ہر حلقے سے ایم این اے کو 10 ہزار اور ہر ایم پی اے کو پانچ ہزار افراد ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔بہر حال یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ تحریک انصاف اپنے مطالبات کی منظوری میں کامیابی حاصل کر پاتی ہے یا نہیں۔
دوسری جانب امریکی کانگریس کے 46 ارکان نے صدر بائیڈن کو ایک خط لکھ کر بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔مذکورہ خط میں کہا گیا ہے کہ مقبول رہنما کو مسلسل پابند سلاسل رکھا گیا ہے‘ تحریک انصاف کو فروری 2024ء کے انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش بھی کی گئی‘ توقع ہے کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہری آزادی سلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے‘ اس لیے امریکی ایوان میں منظور کردہ قرارداد نمبر 901 کے مطابق امریکہ پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔خط میں پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات میں انتخابی دھاندلی اور بے قاعدگی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے گزشتہ ماہ بھی امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا جس میں بانی پی ٹی آئی سمیت پاکستانی جیلوں میں موجود دیگر سیاسی قیدیوں کو رہا کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اُس خط پر بھی پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔
اگر امریکی کانگریس کے اراکین کے صدر بائیڈن کو لکھے گئے خطوط کا جائزہ لیا جائے تو ان مراسلوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ امریکی انتظامیہ قبل ازیں پی ٹی آئی کی طرف سے امریکہ کے خلاف تشکیل دیے گئے سائفر بیانیے سے بخوبی آگاہ ہے۔ تب پاکستان میں امریکہ کے سفیر نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی ان الزامات کو غیرحقیقی قرار دیا تھا جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صدر بائیڈن کانگریس اراکین کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے لکھے گئے خطوط کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے اور ٹرمپ بھی اس جانب زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔ اور جہاں تک برطانیہ میں لیورپول ریور سائیڈ کے رکن پارلیمنٹ کم جانسن کے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کو عمران خان کی رہائی کے لیے لکھے گئے خط کا تعلق ہے تو برطانوی وزیر خارجہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستانی حکام کی طرف سے بانی پی ٹی آئی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے اشارے نہیں ملے‘ حکام نے صورتحال پر مکمل نظر رکھی ہوئی ہے۔اس موقع پر برطانوی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ عدالتی معاملات ملک کا اندرونی مسئلہ ہے‘ تاہم بین الاقوامی ذمہ داریاں اور بنیادی آزادی کا احترام ضروری ہے‘ سیاسی مخالفت‘ آزادیٔ اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی جیسے مسائل پر تحفظات ہیں۔
دوسری جانب عمران خان نے 24 نو مبر کے لانگ مارچ کی کال دیتے ہوئے پارٹی کے اہم رہنماؤں سے مشاورت نہیں کی ہے۔ شاہ محمود قریشی بھی گلہ کر چکے ہیں کہ پارٹی قیادت نے اس حوالے سے ان سے ملنا بھی گوارا نہیں کیا۔ گوکہ یہ خوش آئند ہے کہ عمران خان کی اہلیہ ان کی رہائی کی خاطر متحرک ہو چکی ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی کو ادراک ہونا چاہیے کہ عوام اتنے بڑے فیصلے میں صرف بشریٰ بی بی کی اپیل پر دھیان نہیں دیں گے۔ کامیاب لانگ مارچ کے لیے پارٹی کے اہم رہنماؤں سے مشاورت بہت ضروری ہے۔ جب ستمبر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے پارٹی چیئرمین شپ بیگم نصرت بھٹو کے سپرد کر دی تھی کیونکہ بیگم نصرت بھٹو کا پاکستان کی سیاست میں اہم کردار تھا۔ قبل ازیں جب نومبر 1968ء میں حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا تھا تب بیگم نصرت بھٹو کی سیاسی مہم جوئی کی کوشش بقول حنیف رامے ناکام ہو گئی تھی۔ حنیف رامے کے بقول تب انہوں نے ایئرمارشل اصغر خان سے رابطہ کیا اور انہیں ایبٹ آباد سے لاہور لانے میں کامیاب ہو گئے جہاں ایئرمارشل اصغر خان نے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے پُرزور مہم چلائی جس سے صدر ایوب خان کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا اور لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس مشتاق حسین نے ان کی ضمانت منظور کر لی۔ شایدپی ٹی آئی کے لیے حالات ایسے نہیں ہیں۔ کسی ایک فرد کی اپیل پر نوجوان اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگائیں گے۔ اس سے قبل نوجوان وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی کال پر باہر نکل کر دیکھ چکے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت تقسیم رہی اور پارٹی رہنما کسی حکمت عملی پر متفق نہ ہوئے تو جماعت کا بیانیہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔پی ٹی آئی تو پتا نہیں 24 نومبر کے لانگ مارچ کی تیاری کر رہی ہے یا نہیں‘ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اس لانگ مارچ کو ناکام بنانے کی خاموشی سے بھرپور تیاری کر رہی ہے۔
یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے عالمی دباؤ نہیں آئے گا۔ جہاں تک ٹرمپ کی طرف سے اس حوالے سے حکومت پر دباؤ ڈالے جانے کا امکان ہے تو حکومت ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل اس حوالے سے بھی کوئی توڑ کر لے گی۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے اور 24 نومبر کے لانگ مارچ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس موقع پر پارٹی کارکنان اور حکومتی اہلکاروں کے درمیان کوئی تصادم ہو جائے اور تحریک انصاف کو عالمی توجہ حاصل کرنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کا کوئی موقع مل جائے۔ لیکن حکومت بھی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہے اور اب تک بڑی ہوشمندی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی کال دیے جانے کے بعد سے منظر سے غائب ہیں۔ بلوچستان کے معاملات میں محمود خان اچکزئی کا اہم کردار رہا ہے اور وہ پشتون حلقوں میں بہت فعال ہیں۔ اُن کے سیاسی منظر سے یوں غائب ہونے سے حکومت مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح وحدت المسلمین کے راجہ ناصر عباس اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا کی خاموشی سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ بھی 24 نومبر کے لانگ مارچ میں تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کیا اس صورتحال میں تحریک انصاف کا احتجاج کامیابی سے ہمکنار ہو پائے گا‘ یہ چند روز میں واضح ہو جائے گا۔