میرا جی جدید اردو شاعری کا ایک ممتاز نام ہے جس نے نظم کی ہیئت‘ موضوعات اور اسلوب میں نت نئے تجربات کیے‘ تنقید میں نئی جہتیں دریافت کیں اور دنیا کے نامور شاعروں کو ترجمے کے ذریعے اردو میں متعارف کرایا۔ میرا جی 25 مئی 1912ء کو لاہور کے تاریخی علاقے مزنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ثنا اللہ ڈار رکھا گیا۔ یہ ایک کشمیری فیملی تھی‘ والد کا نام منشی شہاب الدین تھا جو ریلوے کے محکمے میں کام کرتے تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں انہیں مختلف شہروں میں جانا پڑتا تھا جن میں کاٹھیاوار‘ بوستان (بلوچستان)‘ سانگھڑ‘ سکھر اور جیکب آباد شامل ہیں۔ ثنا اللہ نے بھی والد کے ہمراہ کئی شہروں کی سیر کی۔ پہلے سندھ اور پھر لاہور کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کی۔ ثنا اللہ کو شروع ہی سے ادب اور آرٹ سے دلچسپی تھی۔ سکول ہی میں اس نے شاعری شروع کر دی تھی اور اپنا تخلص ساحری رکھا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ جس کمرے میں رہتا تھا‘ اس کا نام ساحر خانہ تھا۔ وہ ہر چیز کو اسرار کی دھند میں دیکھتا تھا۔ سکول کے زمانے سے ہی اسے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ پیسے بچا بچا کر کتابیں خریدتا اور اپنی ایک چھوٹی سی لائبریری بنائی ہوئی تھی۔ کتابوں کے مطالعے کا شوق بعد میں بھی اس کے ساتھ چلتا رہا۔ کہتے ہیں اُس زمانے میں ایک بنگالی فیملی لاہور میں رہتی تھی۔ خاندان کا سربراہ ایک دفتر میں اکائونٹس آفیسر تھا۔ ان کی ایک بیٹی تھی جس کا نام میرا سین (Meera Sen) تھا‘ جو ایف سی کالج میں پڑھتی تھی۔ معلوم نہیں وہ کون سی ساعت تھی جب نوجوان ثنا اللہ نے اسے دیکھا تو اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ نوجوان ثنا اللہ نے میرا سین کا نام اپنا لیا اور اس دن کے بعد سے میرا جی بن گیا۔ وہ زندگی میں انفرادیت کا قائل تھا‘ فن ہو یا شخصیت وہ سب سے ہٹ کر نظر آنا چاہتا تھا۔ کہتے ہیں نام کسی بھی انسان کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے لیکن اس نے اپنا نام بدل کر سب کو حیرت زدہ کر دیا۔ حیرت اس کے فن اور شخصیت کا بنیادی جزو تھی۔ میرا جی کو حقیقت کو افسانہ بنانے کا فن خوب آتا تھا اور پھر اس نے باقی عمر اس افسانے کو حقیقت سمجھ کر گزار دی۔
میرا جی کی طبیعت کا میلان اسے گھر ٹکنے نہ دیتا تھا۔ وہ اکثر وقت اپنے دوستوں کے درمیان گزارتا۔ میڑک کا نتیجہ آیا تو پتا چلا کہ وہ امتحان میں ناکام ہو گیا ہے۔ والد کو خبر ہوئی تو انہوں نے سخت سرزنش کی اور اسے ہومیو پیتھی کا کورس کرنے کو کہا تاکہ وہ اپنا گزارہ کر سکے۔ میرا جی نے والد کے کہنے پر ہومیو پیتھی کا کورس کر تو لیا لیکن کبھی اس کو بطور پیشہ نہ اپنا سکا۔ شاید اس کی منزل کچھ اور تھی۔ اس کے پاس وسیع مطالعے کا اثاثہ تھا‘ شعر گوئی کی خداداد صلاحیت تھی اور زندگی میں کچھ مختلف کرنے کا جنون تھا۔ عالمی ادب کے مطالعے نے اس پر سوچ کے نئے دروازے کھول دیے تھے۔ اسے موسیقی سے گہری دلچسپی تھی اسی لیے گیت نگاری اس کے دل سے بہت قریب تھی۔
اُس زمانے میں لاہور سے ایک معروف ادبی رسالہ ''ادبی دنیا‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا جس میں معروف ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ رسالے کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد تھے۔ میرا جی کو اس بات کا ادراک تھا کہ اس کی منزل اردو شاعری ہے جس میں اس نے نئے تجربات کرنا ہیں۔ میرا جی مولانا صلاح الدین کے پاس چلا گیا۔ مولانا میرا جی کی فیملی کو بخوبی جانتے تھے اور میرا جی کی صلاحیتوں سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ میرا جی جوان تھا‘ اس نے مغرب کے ادیبوں کو پڑھا تھا‘ خود شاعری کرتا تھا اور زندگی میں کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ مولانا کو رسالے کی تدوین وترتیب میں ایسے ہی معاون کی ضرورت تھی۔ یوں میرا جی ''ادبی دنیا‘‘ کے ساتھ وابستہ ہو گیا جہاں اس کی تنخواہ تیس روپے مقرر کی گئی۔ یہ تنخواہ اُس کام کے عوض بہت کم تھی جو میرا جی نے اپنے ذمے لیا تھا لیکن یہ میرا جی کی دلچسپی کا میدان تھا۔ قسمت اسے انگلی پکڑ کر ایسی جگہ لے آئی تھی جہاں اس کی صلاحیتوں کو اظہار کا موقع ملنا تھا۔ ''ادبی دنیا‘‘ سے منسلک ہونے کے بعد میرا جی نے رسالے میں کچھ نئے سلسلوں کا آغاز کیا جن میں عالمی شعرا کے تراجم اور تعارف شامل تھے۔ ان میں اور ناموں کے علاوہ بودلیر (Baudelaire)‘ ملارمے (Mallarmé)‘ ڈی ایچ لارنس‘ کیتھرین مینسفیلڈ بھی شامل تھے۔ یہ اردو قارئین کے لیے نئے ادبی مناظر سے شناسائی تھی۔
بعد میں یہ مضامین ''مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ مجھے یاد ہے اُن دنوں میں سرسید کالج مال روڈ راولپنڈی میں فرسٹ ایئر میں پڑھتا تھا جب میں نے یہ کتاب پڑھی تھی۔ میرا جی کے مطالعے اور گہرے تنقیدی شعور نے مجھے متاثر کیا۔ میرا جی نے ادبی دنیا میں ایک نئے سلسلے ''اس نظم میں‘‘ کا آغاز کیا‘ جس میں کسی ایک نظم کا تجزیہ کیا جاتا‘ بعد میں یہ مضامین کتابی شکل میں ''اس نظم میں‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میرا جی کا اردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں سے تعارف ہوا‘ کیونکہ رسالے کیلئے وہی لکھنے والوں سے رابطہ کرتا اور آنے والی تخلیقات پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کرتا۔ میرا جی کا بنیادی تعارف اس کی شاعری اور شاعری میں ہیئت‘ موضوعات اور اسلوب کے چونکا دینے والے تجربے تھے۔ جدید اردو شاعری کی تاریخ میں تین نام ایسے تھے جنہوں نے نظم میں ہیئت کے بنیادی تجربے کیے‘ ان میں میرا جی‘ تصدق خالد اور ن م راشد شامل ہیں۔
میرا جی نے نظم کے گھڑے گھڑائے سانچوں کو معانی کے اظہار میں رکاوٹ جانا‘ مر وجہ عروض کے رموز کو ایک طرف رکھا اور قافیے اور ردیف کی تنگنائیوں سے نکل کر نظم کو ایک نیا روپ دیا جہاں ایک مصرع مختصر اور دوسرا طویل ہو سکتا ہے۔ میرا جی نے ڈکشن (Diction) میں ایک نئی راہ اپنائی۔ اردو نظم میں زیادہ تر فارسی الفاظ کا دخل تھا لیکن میرا جی نے اپنی نظم میں سنسکرت الفاظ کا استعمال کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ اس کے موضوعات میں ہندو متھالوجی کا استعمال ہے۔ میرا جی کی شاعری میں استعمال ہونے والی علامتیں اس کی نظموں میں معانی کی تہہ در تہہ تخلیق کرتی ہیں۔ میرا جی کی نظم محض ہیئت کا تجربہ نہیں بلکہ موضوعات اور اسلوب میں بھی نئے پن کا اظہار ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا جی کے ہاں ماڈرن سینس یبلٹی (Modern Sensibility) ہے‘ یہ سب مل کر اسے صحیح معنوں میں ایک ماڈرن شاعر بناتے ہیں۔ میرا جی کے فن اور فکر سے کئی شاعر متاثر ہوئے جن میں قیوم نظامی‘ مختار صدیقی اور مبارک احمد شامل ہیں۔ یہ سب شعرا میرا جی سے Inspired ہو کر جدید نظم لکھ رہے تھے‘ یوں میرا جی جدید نظم کی تحریک کا اہم کردار تھا۔ میرا جی کے فن میں ایک تنوع تھا۔ وہ بنیادی طور پر نظم کا شاعر تھا لیکن اس نے غزلیں بھی لکھیں اور کیا خوبصورت غزلیں لکھیں۔ ایک غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے تیرا‘ کیا ہے میرا‘ اپنا پرایا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا
میرا جی کے گیتوں میں ترنم کا گہرا دخل ہے۔ ہندی الفاظ کا استعمال اور اداسی کی ہلکی آنچ اس کے گیتوں کی پہچان ہے۔ ایک گیت کی چند سطریں ملاحظہ کریں:
رات اندھیری‘ بن ہے سونا‘ کوئی نہیں ہے ساتھ
پون جھکولے پیڑ ہلائیں‘ تھرتھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں یوں کیسے پوری ہوگی رات (جاری)