آج پوری دنیا کے نگاہیں امریکہ میں ہونے والے انتخابات پر مرکوز ہیں۔ امریکی صدارت کے لیے اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان ہے۔ عالمی منظر نامے پر امریکی صدر ایک طاقتور شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ منصب اپنے ساتھ بہت سی ذمہ داریاں لاتا ہے‘ اس لیے اس عہدے پر کسی ایسی شخصیت کا انتخاب ہونا چاہیے جو نہ صرف امریکی مفادات کا خیال رکھے بلکہ عالمی سطح پر امن کا داعی بھی ہو۔ آج امریکی یہ فیصلہ کرلیں گے کہ اُن کے اگلے صدر غیرروایتی رویے کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے یا کملا ہیرس عالمی طاقت کی صدارت کے عہدے پر براجمان ہوں گی۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب کا طریقہ کار تھوڑا مختلف بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پیچیدہ ہے۔ امریکی ووٹر براہِ راست اپنے صدر کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے ووٹ سے ریاستی نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر یہ ریاستی نمائندے‘ جنہیں الیکٹورل کالج کہا جاتا ہے‘ امریکی صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ امریکی عوام جب ووٹ کاسٹ کرتے ہیں تو انہیں پولنگ کے دن ملنے والے بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدوار کا نام نہیں لکھا ہوتا بلکہ الیکٹر برائے فلاں صدارتی امیدوار لکھا ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے ۔ ہر ریاست کے لیے آبادی کے تناسب سے الیکٹورل ووٹ مختص کیے گئے ہیں۔ کسی امیدوار کے لیے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے لیے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنا‘ یا کم از کم 270ووٹ حاصل کرنا لازم ہے۔ قطع نظر اس کے کہ عوام نے کس پارٹی کے امیدوار کے لیے ووٹ کاسٹ کیا ہے‘ الیکٹورل کالج کے ووٹ ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کا امیدوار صدارت کے منصب پر فائز ہوگا۔ اس کی تازہ ترین مثال 2016ء کے امریکی انتخابات ہیں جن میں ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ کے مقابلے میں مجموعی طور پر زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ الیکٹورل کالج کے 306ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہو گئے ۔ ہیلری کلنٹن الیکٹورل کالج کے 227ووٹ حاصل کر سکی تھیں۔
اس پیچیدہ انتخابی نظام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی امیدوار کو کیسے کیسے پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ اسی لیے اُس کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کے پاس کئی غیرمعمولی اختیارات ہوتے ہیں‘ وہ دو ایوانوں کو خصوصی معاملات میں بائی پاس بھی کر سکتا ہے لیکن عموماً اسے کوئی بل پاس کرنے کے لیے کانگریس اور سینیٹ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ خارجہ امور اور فوجی معاملات میں امریکی صدر کے اختیارات غیرمحدود ہوتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں صدر کی تبدیلی سے امریکی خارجہ پالیسیوں میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما نہیں ہوتی‘ خارجہ پالیسیاں اکثر ملکی مفاد کے تابع ہی رہتی ہیں۔
میں2008ء میں ہونے والے امریکی انتخابات کے وقت واشنگٹن میں موجود تھا۔ مجھے امریکی انتخابات کے مشاہدے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔واشنگٹن میں قیام کے دوران میری ملاقات امریکی چیف الیکشن کمشنر اور اعلیٰ حکام سے ہوتی رہی۔ اُس وقت جو سب سے حیران کن بات میرے مشاہدہ میں آئی وہ یہ تھی کہ امریکی الیکشن کمیشن کے اختیارات بہت محدود ہیں اور یہ کہ صدارتی انتخاب کرانے کی اصل ذمہ داری امریکی محکمہ آثارِ قدیمہ کی ہے۔ امریکی الیکشن کمیشن ووٹرز کی رجسٹریشن اور دیگر مالی معاملات اور ضابطہ اخلاق پر نظر رکھتا ہے جبکہ انتخاب کرانے کی ذمہ داری محکمہ آثارِ قدیمہ نبھاتا ہے۔ امریکی انتخابی نظام ریاست کی وحدت کو برقرار رکھتا ہے۔ اتنے پیچیدہ نظام کے بعد ہارنے والا امیدوار خندہ پیشانی سے اپنی ہار کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن 2020ء کا صدارتی انتخاب ہارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے وہی طرزِ عمل اختیار کیا جو اکثر ہمارے ہاں انتخابات ہارنے والی جماعتیں اختیار کرتی ہیں۔
امریکہ کا انتخابی نظام بنیادی جمہوریت کے نظام پر استوار ہے۔ صدر ایوب خان نے بھی اس طریقہ کار سے متاثر ہو کر پاکستان میں بنیادی جمہوریت پر مبنی صدارتی انتخابات کا طریقہ کار متعارف کرایا تھا۔ امریکہ میں الیکٹورل کالج 538 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ صدر ایوب خان نے 1960ء میں جو انتخابی نظام متعارف کرایا تھا اس کے تحت 80 ہزار ارکان الیکٹورل کالج تشکیل دیتے تھے‘40ہزار مغربی پاکستان سے اور 40 ہزار مشرقی پاکستان سے۔ پہلے عوام اپنے براہِ راست ووٹوں سے ان 80 ہزار ارکان کا انتخاب کرتے اور بعد ازاں یہ 80 ہزار ارکان صدرِ مملکت اور اراکینِ قومی اسمبلی کا انتخاب کرتے تھے۔
عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے پر سینیٹر مشاہد حسین سید کی زیر صدارت پاک چائنا انسٹیٹیوٹ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس ''China at 75: A journey of progress‘‘ کا انعقاد کیا تھا جس کا مقصد چین کے قومی دن کو ریاستی سطح پر منانا اور دونوں ممالک کے لازوال تعلقات کی مضبوطی کا اظہار تھا۔ اس موقع پر ہونے والی بیان بازی کی وجہ سے کچھ بدمزگی پیدا ہوگئی۔ویسے تو پاکستانی حکام نے اس صورتحال کو بطریق احسن سنبھال لیا اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے چار نومبر کو طے شدہ دورۂ چین سے سی پیک معاہدوں کے مستقبل کے حوالے سے سوال اٹھانے والوں کی مزید تشفی ہو جاتی لیکن دبئی میں جہاز سے اُترتے ہوئے صدرِ مملکت کے پاؤں میں فریکچر کی وجہ سے ان کا دورۂ چین ملتوی ہو گیا۔ پاک چین دوستی کی مثال پوری دنیا دیتی ہے۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے لیکن حالیہ کچھ عرصہ کے دوران چینی باشندوں کو پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کے بعد چینی حکام پاکستان میں اپنے شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے بہت فکرمند ہیں۔ اس حوالے سے نہ صرف پاکستان میں چین کے سفیر بلکہ چینی صدر کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جاچکا ہے۔ حالیہ بدمزگی کے بعد پاکستانی قیادت کا دورۂ چین پاکستان میں چینی باشندوں کے حفاظت کے حوالے سے موجود خدشات کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔صدرِ مملکت کی صحت یابی کے بعد ان کا دورۂ چین جلد دوبارہ شیڈول کیا جانا چاہیے۔
اُدھر پاکستان تحریک انصاف ابھی تک اپنی مزاحمتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے 9 نومبر کو صوابی میں بڑا اجتماع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جس میں اُن کے مطابق ملک کو بند کرنے کا لائحہ عمل دیا جائے گا۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہم سرپر کفن باندھ کر نکلیں گے‘ یہ ہماری آخری کال ہوگی‘ لوگ اپنے گھروں میں بتا کر آئیں۔ علی امین گنڈاپور شاید پارٹی کی مزاحمتی پالیسی پر کاربند ہونے کی وجہ سے یہ بھول چکے ہیں کہ اگر بطور صوبائی سربراہ وہ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کی کوشش کریں گے تو صوبے میں گورنر راج بھی نافذ ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں پی ٹی آئی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت سیاسی محاذ آرائی پی ٹی آئی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ جلد مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلہ آنے والا ہے۔ اگر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں مل جاتی ہیں تو پارلیمان میں اس کی پارٹی پوزیشن مزید مضبوط ہو گی۔اس لیے پی ٹی آئی رہنماؤں کو ہر قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔