26ویں آئینی ترمیم کی گرد ابھی بیٹھی نہیں کہ حکومت 27 ویں آئینی ترمیم لانے کے لیے پَر تولنے لگی ہے۔ شنید ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں وہ شقیں شامل ہو سکتی ہیں جن پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کے سبب حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم سے انہیں حذف کر دیا تھا تاکہ یہ ترمیم بروقت منظور ہو سکے اور نئے چیف جسٹس کا تقرر اس ترمیم میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہو سکے۔27ویں آئینی ترمیم میں ممکنہ طورپرفوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق شقیں بھی شامل ہوسکتی ہیں جنہیں 26ویں ترمیم سے خارج کردیا گیا تھا۔پاکستان دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ اگر دہشت گردی میں ملوث عناصر کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرکے انہیں سخت سزائیں دی جاتی ہیں تو ان عدالتوں کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
26ویں آئینی ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان تقرر عدالتی نظام میں ارتقا کی نشاندہی کرتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں تمام شعبے تبدیلی کے مراحل سے گزرتے آئے ہیں اور گزر رہے ہیں۔ اس بات کو اگر عدالتی نظام تک محدود رکھا جائے تو ہر ملک میں عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتی نظام میں اصلاحات کی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں عام لوگوں کو انصاف کے حصول میں غیرمعمولی تاخیر کی وجہ سے اُن کا نظامِ انصاف سے اعتماد اُٹھ رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عدالتوں پر سیاسی مقدمات کا بوجھ بھی ہے۔ ماضی میں چیف جسٹس صاحبان کے ازخود نوٹس کے اختیارات بھی تنقید کی زد میں آچکے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف قانونی حلقے مختلف آرا رکھتے ہیں مگر اس حقیقت کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ قانونی نظام کو اخلاصِ عمل کے جذبے کے تحت بہتری کی جانب گامزن رہنا چاہیے۔ دھڑا دھڑ ازخود نوٹس لینے کی ابتدا سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں ہوئی تھی۔ پھر ان کے بعد آنے والوں نے بھی اس کا بے دریغ استعمال کیا جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوا۔ اس دوران دو وزرائے اعظم کو برطرف بھی کیا گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف بنایا جانے والا کیس بہت کمزور تھا اور ان کی نااہلی کی بنیاد بھی بہت کمزور تھی لیکن ان کو نااہل قرار دلانے میں ایک اہم شخصیت نے کردار ادا کیا تھا۔ شنید ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے وکلا بھی اسی شخصیت کے حصار میں تھے۔ جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کے پاس پہنچا تو میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی رائے تحریر کیے بغیر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیں‘ اس ریفرنس کو ازخودمسترد کرنے سے آئینی طور پر ان کا موقف کمزور پڑ جائے گا۔ سید یوسف رضا گیلانی کی قانونی ٹیم نے لیکن ان کی غلط رہنمائی کی اور یہ تاثر دیا کہ سپیکر قومی اسمبلی کے اس ریفرنس کو مسترد کرنے سے یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔ مگر سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے یہ ریفرنس مسترد ہوتے ہی عمران خان نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس پر چیف جسٹس افتخار چودھری نے سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیتے ہوئے سپیکر کے ریفرنس کو مسترد کر دیا۔ اگر سپیکر قومی اسمبلی ریفرنس بک الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھجوا دیتیں اور اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیتے تو ان کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکتی تھی جس سے چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے کے خلاف فوری طور پر حکمِ امتناعی حاصل ہو جاتا اور اگر لاہور ہائی کورٹ بھی چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ برقرار رکھتی تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکتی تھی۔ اس طرح حکومتی مدت کی تکمیل تک وزیراعظم گیلانی نااہلی سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اپنے ایڈیشنل سیکرٹری شمعون ہاشمی کے توسط سے میراشکریہ ادا کیااور کہا کہ اگر وہ میری رائے پر عملدرآمد کرتیں تو شاید یوسف رضا گیلانی نااہل نہ ہوتے۔
اسی طرح نواز شریف کو پاناما کیس میں نااہل قرار دینے کی دلیل بھی بہت کمزور تھی۔ دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے کسی شخص کو تاحیات نااہل قرار دینے کے اختیارات آئین سے ماورا تھے۔ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62(ون)(ایف)کی غلط تشریح کی تھی جسے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کالعدم قرار دیا۔ 27ویں آئینی ترمیم اگر منظور ہوتی ہے تو اس میں یہ شق بھی شامل کرنی چاہیے کہ ماضی میں جن چیف جسٹس صاحبان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ان کے خلاف خصوصی کمیشن کے ذریعے کارروائی کرتے ہوئے ان سے مراعات واپس لینی چاہئیں۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے واضح ہو جائے گا کہ کس کس چیف جسٹس نے حکومت کو فائدہ پہنچایا اور بدلے میں حکومت سے مراعات حاصل کیں۔یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ عدالتی نظام ان کے غلط فیصلوں سے متاثر ہوا اور ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا۔
بدقسمتی سے پاکستان کا دستور بنیادی ڈھانچے سے محروم ہے۔ پاکستان کے موجودہ دستور میں ایسا کوئی آرٹیکل نہیں ہے جو دستور کے بنیادی ڈھانچے کے زمرے میں آتا ہو۔ اس کے برعکس بھارتی دستور میں ایک بنیادی ڈھانچہ موجود ہے جسے پارلیمنٹ تبدیل نہیں کر سکتی۔اس حوالے سے انڈین سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ بھی موجود ہے کہ انڈین دستور کے بنیادی ڈھانچے کو پارلیمنٹ تبدیل نہیں کر سکتی۔ اگر بنیادی ڈھانچہ میں ترمیم کرنا مقصود ہو تو پارلیمنٹ کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کے لیے ازسر نو الیکشن کرائے جائیں گے اور آئین ساز اسمبلی کے ذریعے اس بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کی جائے گی۔ جبکہ پاکستان میں کوئی بھی پارٹی دو تہائی اکثریت سے آئین میں کوئی بھی ترمیم کر سکتی ہے۔ یہاں تک کہ پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ مارچ 1977ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو اور جولائی 2018ء کے انتخابات میں عمران خان دو تہائی اکثریت حاصل کر کے ملک میں صدارتی نظام لانے کے خواہاں تھے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔فروری 2024ء کے انتخابات میں نواز شریف بھی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے خواہاں تھے لیکن وہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکے۔
اُدھر سپریم کورٹ میں نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے بعد حکومت بظاہر مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ حامد خان گروپ کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف کی امید کی آخری کرن بھی دم توڑ گئی ہے۔ 26ویں ترمیم کے خلاف تحریک بھی اپنی افادیت کھو بیٹھی ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف اندرونی طور پر تقسیم کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی طاقت کھوتی جا رہی ہے۔ ہرپارٹی رہنما بانی پی ٹی آئی کے سامنے اپنے نمبر ٹانکنے کے چکر میں مرضی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔عمران خان کو ایسے مشیروں کی ضرورت ہے جو انہیں اصل زمینی حقائق سے باخبر رکھ سکیں۔ دوسری جانب اگر معیشت کی بات کی جائے تو ایس آئی ایف سی اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کامیاب حکمت عملی سے پاکستان خطرناک معاشی بحران سے نکل چکا ہے اور ایک مستحکم معیشت کی راہ پر گامزن ہے‘ لیکن اس کیلئے موروثی سیاست کا خاتمہ ازبس ضروری ہے۔
اگر امریکی انتخابات کی بات کی جائے تو آئندہ چند روز میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ امریکہ کا اگلا صدر کون ہوگا۔ اور یہ بھی کہ امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ لیکن یہ امیدیں بر نہیں آ سکتیں کیونکہ اگر ٹرمپ امریکہ کے نئے صدر منتخب ہوتے ہیں تو 20 جنوری 2025ء کو حلف اٹھانے کے بعد ان کی توجہ اسرائیل‘ ایران‘ لبنان اور غزہ کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ پاکستان کے ساتھ معاملات کو وہ امریکی مقتدرہ پر چھوڑ دیں گے۔