"RKC" (space) message & send to 7575

پی آئی اے کا تماشا

سوموار کو قائمہ کمیٹی کے دو اجلاسوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک اجلاس صبح ساڑھے گیارہ بجے تھا تو دوسرا دو بجے‘ اور دونوں اہم موضوعات پر تھے۔ پہلا اجلاس اس موضوع پر تھا کہ پی آئی اے کیوں نہ بک سکی اور اس کا تماشا کس نے لگایا اور یہ مذاق کیسے بنا کہ پی آئی اے کی بولی دس ارب روپے لگائی گئی ‘جس پر پورا ملک صدمے کی حالت میں چلا گیا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ کیا ہماری اتنی بری حالت ہو چکی ہے کہ آج اسلام آباد میں ایک کمرشل پلاٹ کی قیمت کے برابر بھی کوئی پی آئی اے کی بولی دینے کو تیار نہیں ہے۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ آخر ایسا کیا ہوا۔ دوسری کمیٹی کا موضوع بھی اسی طرح جاندار تھا کہ اس وقت انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جو پابندیاں لگی ہیں اور اب وی پی این پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے‘ اس سے جو تماشا بن رہا ہے وہ کس کا کام ہے اور اس کے ملک پر اثرات کیا ہوں گے۔
پی آئی اے سے متعلقہ اجلاس میں وفاقی وزیر نجکاری علیم خان صاحب نے بغیر لگی لپٹی رکھے بات کی۔ کوئی ایسی بات نہ تھی جو انہوں نے چھپائی ہو۔ جب سے پی آئی اے کی ناکام نجکاری پر شور شرابہ اٹھا اور ان پر بھی تنقید ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ بہتر ہوگا کہ اس کھیل میں شریک سب کرداروں کو بے نقاب کیا جائے۔ تاہم ایک بات افسوسناک تھی کہ اتنا اہم اجلاس تھا لیکن اس کمیٹی میں سینیٹرز کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ دس ممبرانِ کمیٹی میں سے صرف تین سینیٹر موجود تھے۔ علیم خان اجلاس میں وقت سے پہلے پہنچ کر انتظار کرتے رہے تاکہ کورم پورا ہو اور کارروائی شروع ہو۔ جب تین لوگ پورے ہوئے تو کارروائی شروع ہوئی۔ سات سینیٹرز اس اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے جس پر خود علیم خان کو بھی حیرت ہوئی اور پوچھا کہ اب وہ کیا کریں۔ ان کا مطلب تھا کہ وہ اتنی تیاری اور محنت کے ساتھ آئے ہیں تو اب کیا ان دو‘ تین سینیٹرز کو ہی بریف کرنا ہے۔ ان کا مطلب تھا یہ تو ایک طرح سے سب کی محنت ضائع کرنے کے برابر ہے۔ خیر طے ہوا کہ بریفنگ دی جائے۔ پھر انہوں نے ایک ایک کر کے سارے پردے ہٹانا شروع کیے تو احساس ہوا کہ اس ملک کی کسی کو کوئی پروا نہیں۔ بس چند طاقتور لوگوں کی مدد سے نگران وزیر لگ جاؤ اور پھر جو کھلواڑ کر سکتے ہو‘ کر لو۔
اگرچہ علیم خان نے احتیاط سے کام لیا اور اُس نگران وزیر کا نام نہیں لیا جو‘ ان کے بقول‘ سب کچھ طے کر کے گیا تھا۔ علیم خان کا کہنا تھا کہ ان کا کام پی آئی اے بیچنا تھا‘ اسے چلا کر منافع بخش بنانا نہیں تھا۔ پی آئی اے اُسی وقت اچھی قیمت پر بک سکتی تھی جب یہ منافع میں چل رہی ہوتی۔ اگر آپ کسی دکان یا ادارے کو نقصان میں دکھا کر مارکیٹ میں بیچنے جائیں گے تو اسے کون خریدے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ وزیر بنے تو انہیں کہا گیا تھا کہ آپ نے پی آئی اے کے نجکاری عمل کو نہیں چھیڑنا‘ یہ آپ کا کام نہیں ہے یا یوں کہ لیں یہ آپ کا مینڈیٹ نہیں۔ آپ سے پہلے فواد حسن فواد جو نجکاری کا ماڈل تیار کر گئے تھے‘ وہی چلے گا۔ لہٰذا ان کی باتوں سے لگا کہ اس پورے عمل میں علیم خان کے ہاتھ بندے ہوئے تھے۔ انہوں نے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو ناکام بنانے والے دو اہم عناصر کی نشاندہی کی جس وجہ سے پی آئی اے نہ بک سکی۔ ان کی باتوں سے لگا کہ وہ نگران دورِ حکومت کے چند فیصلوں سے ناخوش تھے جس وجہ سے پی آئی اے نہ بک سکی۔ سب سے پہلا فیصلہ جو یقینا نگران وزیر فواد حسن فواد کے دور میں ہوا‘ وہ پی آئی اے کے لیے گھاٹے کا سودا تھا۔ پی آئی اے کو اگر بیچنا تھا تو اس کا سارا قرض؍ نقصان حکومت نے اپنے ذمے لینا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک اور کمپنی بنا کر اس میں پی آئی اے کا چھ سو ارب روپے خسارہ ٹرانسفر کر دیا جائے۔ یہ قرض نئی کمپنی کو ٹرانسفر کرنے کے بعد پی آئی اے کا بقیہ خسارہ 40 ارب روپے بچ گیا۔ یہ خسارہ ایک دفعہ پھر پی آئی اے کی بیلنس بک میں شیئر کر دیا گیا۔ یوں جب بولی اوپن ہوئی تو جس نے پی آئی آے خریدنی تھی اسے وہ خسارہ بھی ساتھ اٹھانا تھا۔ اسی طرح ایف بی آر نے بھی جی ایس ٹی کے نام پر تیس ارب سے زائد بل بنایا ہوا تھا۔ بولی دینے والی پارٹیوں نے کہا کہ حکومت 40 ارب کا خسارہ اور ایف بی آر کا بل اس میں سے نکال کر اسے بیچے۔ لیکن یہ دونوں کام نہ ہو سکے جس پر پر بولی دینے والے پیچھے ہٹ گئے۔
اب علیم خان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جب چھ سو ارب روپے کا خسارہ پی آئی اے سے نکال کر الگ کمپنی میں ڈالا جارہا تھا تو اس میں مزید یہ 50‘ 60ارب بھی ڈال دیے جاتے تاکہ پی آئی اے کلیئر ہو کر بولی کے لیے پیش کی جاتی اور اس کے اچھے پیسے مل جاتے۔ ان کو اس سائنس کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ 40‘ 50ارب نیگٹو ایکویٹی کیوں دکھائی گئی جب ایک الگ کمپنی بنائی ہی اس کام کے لیے تھی کہ سب خسارہ وہاں شفٹ ہو جائے۔ مجھے ان کی باتوں سے لگا کہ وہ اس سارے عمل سے خوش نہیں تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ انہیں اس فیصلے کی سمجھ نہ آئی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے حکومت سے بھی کہا تھا کہ یہ خسارہ اور ایف بی آر کا جی ایس ٹی کا بوجھ حکومت خود اٹھائے لیکن حکومت نے بھی ان کی نہیں سنی۔ اس پر سینیٹر طلال چودھری‘ جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ بولے کہ خان صاحب آپ عام وزیر نہیں ہیں‘ آپ ایک تگڑے وزیر ہیں‘ آپ کی حکومت میں چلتی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کی اپنی حکومت نے بھی آپ کی نہیں سنی۔ جس پر ان کا کہنا تھا کہ بس یہی سمجھ لیں۔
اس اجلاس میں ایک اور کہانی بھی سننے کو ملی۔ اُس لاڈلے نگران وزیر کے دور میں ایک کنسلٹنٹ ہائر کیا گیا تھا جسے ڈالروں میں پاکستانی دو ارب روپے فیس دی جانی تھی۔ اب جس کنسلٹنٹ کو دو ارب روپے دیے گئے اس کی بنائی ہوئی رپورٹ پر کُل بولی دس ارب روپے لگی۔ مطلب دو ارب کنسلٹنٹ لے گیا اور اگر پی آئی اے دس ارب میں بک جاتی تو صرف آٹھ ارب روپے حکومتِ پاکستان کو ملتے۔ اگر بغیر کنسلٹنٹ کے بولی لگتی تو شاید پندرہ‘ بیس ارب زیادہ ملتے۔ اب پی آئی اے بکے یا نہ بکے‘ کنسلٹنٹ دو ارب روپے لے گیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا کہ پی آئی اے بیچنے کا پروگرام فائنل ہو گیا اور یہ نہ بک سکی۔ 2015ء میں نواز شریف حکومت کا نجکاری کمیشن پی آئی اے بیچ رہا تھا‘ اُس وقت محمد زبیر متعلقہ وزیر تھے۔ اُس وقت بھی یقینا کنسلٹنٹ ہائر کیا گیا ہو گا‘ اُسے بھی ڈالروں میں فیس دی گئی ہوگی۔ وہ پراسیس بھی روک دیا گیا تھا۔ اب پھر ایک اور کنسلٹنٹ ڈالروں میں فیس لے گیا ہے اور پی آئی اے وہیں کی وہیں ہے۔
پی آئی اے کی فروخت کا ہر دفعہ ڈھول پیٹنے کا مقصد جہاں اس ایئر لائن کو بیکار اور خراب بنا کر پیش کرنا ہے وہیں اس کا مطلب ان غیرملکی کنسلٹنٹس کی نوکریوں اور ڈالروں میں فیس کا کھاتا بھی کھلا رکھنا ہے۔ لگتا ہے خدا نے ان غیرملکی کنسلٹنٹس کی روزی روٹی ڈالروں کی شکل میں پی آئی اے میں ہی لکھ رکھی ہے۔ یقینا خدا نے ہر انسان سے اس کی روزی روٹی کا وعدہ کیا ہوا ہے چاہے وہ کنسلٹنٹس اپنے ملک میں کمائیں یا ہماری پی آئی اے سے کمائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں