خیال تھا کہ سلامتی کے اداروں سے وابستہ اُن اٹھارہ جواں سال شہدا کے مرثیے اور قصیدے لکھے جائیں گے جنہوں نے ایک دن میں اس قوم کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے متاعِ جاں لٹا دی۔ وہ کسی سرحد پر کام نہیں آئے بلکہ اپنے ملک کے اندر مار ڈالے گئے۔
میں اخبارات کے کالم دیکھتا رہا۔ کسی قابلِ ذکر اخبار میں کسی قابلِ ذکر کالم نگار نے ان شہادتوں کو موضوع نہیں بنایا۔ کسی نے ان جوانوں کے بنیادی حقوق کی بات نہیں کی۔ گزشتہ دنوں‘ بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں یہ جوان بلاناغہ جامِ شہادت پیتے رہے۔ کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ کوئی قلم حرکت میں نہیں آیا‘ الّا ماشاء اللہ۔ اس پس منظر میں یہ بات مزید حیرت کا باعث ہے کہ مشکوک کرداروں کے انسانی حقوق کی دہائی دینے والے مکمل خاموش رہے۔ مجھے تو سب کے حقوق کا احترام ہے اور قانون کے سامنے سب کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ میں مگر یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ وہ حساسیت جو دوسروں کے حقوق کے بارے میں ہے‘ وہ فوجی جوانوں کے لیے کیوں نہیں؟
دنیا کا سب سے مشکل کام عصبیتوں سے بلند ہونا اور سچ کا عَلم اٹھانا ہے۔ ہم لوگ مذہبی‘ سیاسی‘ سماجی‘ کئی طرح کی عصبیتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ عصبیتیں ہمیں اپنے حصار میں اس طرح لے لیتی ہیں کہ ہم ان کے زیرِ اثر پیدا ہونے والے خیالات ہی کو واحد سچ مان لیتے ہیں۔ انسان کی سب سے بڑی آزمائش یہی ہے۔ تکبر کی تعریف بھی یہی ہے کہ انسان حق کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دے۔ ایک طلبہ تنظیم کی نسبت سے یہ لطیفہ مشہور ہے کہ ٹریفک کے ایک حادثے میں کئی طلبہ جاں سے گئے۔ ان میں اس تنظیم سے وابستہ طلبہ کے علاوہ دیگر طالب علم بھی شامل تھے۔ تنظیم کی طرف جو خبر جاری کی گئی‘ اس میں بتایا کہ اس حادثے میں ہمارے اتنے ساتھی شہید ہوئے اور مزید اتنے طلبہ ہلاک ہو گئے۔ شہادت اور ہلاکت کا یہ فرق‘ واقعہ یہ ہے کہ کسی ایک طلبہ تنظیم کا مسئلہ نہیں۔ ہم سب‘ افراد کو اسی طرح تقسیم کرتے ہیں اور یہی وہ عصبیت ہے جس سے ہمارے پیغمبرﷺ نے ہمیں منع کیا ہے۔
پاک فوج کا ایک کردار وہ ہے جو سیاسی ہے۔ ایک وہ ہے جو ملک و قوم کی حفاظت کے لیے فوج ادا کرتی ہے۔ پہلے کردار پر تنقید بجا ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں۔ رہا دوسرا کردار تو اس کی نہ صرف تحسین ہونی چاہیے بلکہ قوم کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ ایسی ہی ایک جنگ ہے جو فوج آج دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ہمارے جتنے جوانوں نے اپنی جان دی ہے‘ ان کی تعداد‘ سرحد پر شہید ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کچھ عرصے سے ان شہادتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ رپورٹ بھی ہو رہا ہے۔ یہ لازم تھا کہ ان قربانیوں کا کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا جاتا۔ ان ماؤں‘ بہنوں‘ بھائیوں اور بچوں کے دکھ کو محسوس کیا جاتا جن کے بچے‘ بھائی اور باپ ملک پر قربان ہو گئے۔ رشتوں پر موت کے اثرات ایک طرح کے ہوتے ہیں۔ جو اعلیٰ مقصد کے لیے مرتے ہیں ان کی موت کو مذہب بھی خاص موت قرار دیتا ہے۔ اس سے اچھی موت کیا ہو گی کہ کوئی دوسروں کی جان کی حفاظت کے لیے اپنی جان دے دے۔
مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس معاملے میں ہمارے رائے ساز فی الجملہ توازنِ فکر کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ فوج کے شہدا کے بارے میں ان کا رویہ ہمدردانہ نہیں ہے۔ انہوں نے فوج کے سیاسی اور قومی کردار میں فرق کو بھی نظر انداز کیا۔ یہی نہیں‘ وہ حقوق کے نام پر لڑنے والوں میں بھی فرق نہیں کر سکے۔ انہوں نے پُرامن جدوجہد کرنے والوں اور ریاست اور عوام کے خلاف بندوق اٹھانے والوں میں بھی فرق نہیں کیا۔ وہ ان کی حمایت میں اتنے دور نکل گئے کہ بلوچستان میں مزدوری کرنے والے ان عام پنجابیوں کی لاشیں بھی اُن کو متاثر نہیں کر سکیں جو بے گناہ مارے گئے۔ ان کا نوحہ بھی کم ہی لکھا گیا۔ ان کے لہو کو بھی کم تر سمجھا گیا۔
انتہا پسندی کیا ہے؟ توازن کا کھو دینا۔ اس ملک میں لوگوں کو آج پہلی بار فوج سے شکایات پیدا نہیں ہوئیں۔ کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی نہیں جسے شکوہ نہ ہو۔ جو لوگ اس ملک کی تاریخ جانتے ہیں‘ وہ اس سے باخبر ہیں۔ شکایات کا یہ دائرہ سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں۔ اہلِ صحافت بھی شکوہ کناں ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی شکایت ہے۔ یہ فوج کی طرف سے سیاسی مداخلت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اسی لیے فوج کے ساتھ خیر خواہی رکھنے والے ہمیشہ فوجی قیادت کو اس جانب متوجہ کرتے رہے ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ اس مقدمے کا لیکن یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ فوج کی دیگر خدمات کو بیک جنبشِ قلم مسترد کر دیا جائے۔ فوج کو استہزا کا ہدف بنایا جائے اور اس ادارے کے باے میں عوام میں اور بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈا کیا جائے۔ یہاں تک کہ اس کے شہدا کے ذکر سے بھی گریز کیا جائے اور ان کی قربانی کو نظر انداز کیا جائے۔ یہی انتہا پسندی ہے جو توازن کھونے سے پیدا ہوتی ہے۔
یہ بات میں نے پہلے بھی لکھی ہے کہ جب کرکٹ کی تاریخ کا ذکر ہو گا‘ عمران خان صاحب کا ذکر ناگزیر ہے۔ یہ مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے کہ پی ٹی وی یا کسی دوسرے چینل پر کرکٹ موضوع ہو اور انہیں دانستہ نظر انداز کیا جائے۔ اس سے عمران خان کو فرق نہیں پڑتا‘ ان لوگوں کی اخلاقی حیثیت متاثر ہوتی ہے جو اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جو لوگ ملک و قوم کے لیے جان دیتے ہیں‘ ان کے لیے محبت کے چراغ خود بخود جل اٹھتے ہیں۔ انہیں کسی روغن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رائے سازوں کی مگر یہ ذمہ داری ہے کہ توازنِ فکر کا مظاہرہ کریں اور فوج کے سیاسی اور قومی کردار میں فرق کریں۔
ماضی میں یہ فرق باقی تھا۔ ایوب خان کے عہدِ اقتدار میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ جماعت اسلامی نے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ جب بھارت کے ساتھ جنگ چھڑ گئی تو یہی جماعت اسلامی فوج کے شانہ نشانہ نظر آئی۔ یہی معاملہ دیگر سیاسی جماعتوں اور اہلِ صحافت کا بھی رہا۔ یہ زبانِ حال سے پیغام تھا کہ قوم سیاسی معاملات میں مختلف الخیال ہو سکتی ہے مگر قومی مفاد میں یک زبان ہے۔ فوج بطور قومی ادارہ‘ سب کے لیے محترم ہے اور دشمن کے خلاف جنگ میں عوام اور فوج ایک ساتھ ہیں۔
آج بھی فوج بظاہر دو مگر حقیقتاً ایک دشمن کے خلاف لڑ رہی ہے جو بے گناہ پاکستانی شہریوں اور جوانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ جو ملک کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ جو پاکستان کو فساد کا گھر بنانا چاہتا ہے۔ جب فوج ان کے خلاف میدان میں کھڑی ہے تو قوم کا فریضہ ہے کہ وہ بھی فوج کے ساتھ کھڑی ہو۔ رائے سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو اس محاذ پر یکسو کریں جہاں فوج کے جوان صفِ اوّل میں کھڑے جامِ شہادت نوش کرر ہے ہیں۔ قوم کو آج جس توازنِ فکر کی ضرورت ہے‘ وہ ہمارے اہلِ صحافت ا ور اہلِ دانش پیدا کر سکتے ہیں۔ اس طبقے میں سنجیدہ لوگوں کی کمی نہیں۔ دہشت گردی اور فساد فی الارض کے محاذ پر‘ لازم ہے کہ قوم یک جان ہو اور اپنے جوانوں کی قربانی کے اعتراف میں بخل سے کام نہ لے۔