کیلگری سے ایڈمنٹن جاتے ہوئے معمول کا راستہ اختیار کیا جو تقریباً تین سو کلو میٹر پر مشتمل تھا اور برفباری کے باوجود لگ بھگ تین گھنٹوں میں طے ہو گیا۔ اگلے روز واپسی کیلئے مختلف راستے کا انتخاب کیا۔ یہ راستہ گزشتہ راستے کی نسبت طویل لیکن انتہائی خوبصورت تھا۔ ایڈمنٹن سے جیسپر 365 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ جیسپر سے بینف (Banff) 290 کلو میٹر اور بینف سے کیلگری 125 کلو میٹر‘یہ کل 780 کلو میٹر بن جاتے ہیں۔ اگر بغیر رُکے اس راستے سے واپس آئیں تو یہ تقریباً نوگھنٹے کا سفر ہے مگر ہم نے راستے میں ہر اُس جگہ رکنے کا ارادہ کیا ہوا تھا جہاں خوبصورتی ہمیں اپنا اسیر کر لیتی۔ دن کا وقت زیادہ سے زیادہ تصرف میں لانے کیلئے صبح جلدی نکلنے کا ارادہ کیا۔ صبح سات بجے جب ہم نے سفر شروع کیا تو ہر طرف اندھیرا تھا‘ ستارے اپنی چھب دکھارہے تھے مگر دھند کے پردے نے سارے منظر نامے کو آنکھوں سے اوجھل کر رکھا تھا اور سڑک کے دونوں کناروں پر صرف برف دکھائی دے رہی تھی۔ جب تک سورج نکلا تو ہم سو کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ طے کر چکے تھے۔ایڈمنٹن کا موسم کیلگری کی نسبت زیادہ سرد ہوتا ہے اور اس کی وجہ صرف جغرافیائی ہے کہ ہم جتنا شمال کی جانب جائیں گے سردی میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ اور ایڈمنٹن جو کینیڈا کے صوبے البرٹا کا صدر مقام ہے‘ کیلگری کے شمال میں واقع ہے۔ کیلگری اور ایڈمنٹن راکی ماؤنٹینز کے دائیں طرف واقع ہیں جبکہ جیسپر راکی ماؤنٹینز کے درمیان میں واقع ہے۔ راکی ماؤنٹینز شمالی امریکہ کا سب سے طویل پہاڑی سلسلہ ہے اور تقریباً 4800کلو میٹر کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا اور البرٹا سے ہوتا ہوا امریکہ میں داخل ہوتا ہے اور امریکی ریاستوں واشنگٹن‘ اڈاہو‘ مونٹانا‘ وائی یومنگ‘ یوٹاہ اور کولوراڈو سے ہوتا ہوا نیو میکسیکو میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ تاہم اس کا بیشتر اور زیادہ بلند حصہ کینیڈا اور امریکی ریاست کولوراڈو میں ہے۔
یہ بڑا عجیب پہاڑی سلسلہ ہے جو زیر زمین دوسنگی پرتوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔ زلزلے یا کسی اور سبب سے زیر زمین دو پتھریلی پرتوں کے ایک دوسرے کی جانب کھسکنے اور باہم ٹکرا کر زمین کی سطح کو پھاڑ کر اوپر آ جانے کے باعث یہ پہاڑی سلسلہ وجود میں آیا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ ہمارے سلسلہ ہائے کوہ قراقرم‘ ہندوکش اور ہمالیہ جیسا بلند تو نہیں لیکن اپنی طوالت کے اعتبار سے ان تینوں سلسلہ ہائے کوہ کی مجموعی لمبائی سے بھی زیادہ طویل ہے۔ کوہ ہمالیہ 2400کلو میٹر‘ ہندوکش 800 کلو میٹر اور کوہ قراقرم کی لمبائی صرف 500 کلو میٹر ہے۔ راکی ماؤنٹینز میں سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ البرٹ 14438 فٹ بلند ہے جبکہ صرف ہندو کش کی بلند ترین چوٹی ترچ میر کی بلندی 25289 فٹ ہے۔ دنیا بھر میں کل 14 عدد آٹھ ہزاری یعنی آٹھ ہزار میٹر (26246 فٹ) سے زیادہ بلند چوٹیاں ہے۔ پاکستان کے سلسلہ ہائے قراقرم میں چار عدد چوٹیاں آٹھ ہزار میٹر سے بلند ہیں جن میںK2‘ جو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے‘ بھی شامل ہے۔ کوہ ہمالیہ کے سلسلے میں نانگا پربت واحد ایسی چوٹی ہے جو پاکستان میں ہے۔ تاہم پاکستان میں سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108اور چھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 4555ہے‘ جبکہ پانچ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کی درست گنتی بھی دستیاب نہیں ہے۔
سارا راستہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور ایک دو اقسام کے ہر موسم میں سبز رہنے والے درختوں کے علاوہ سارے کے سارے درخت ٹنڈ منڈ دکھائی دے رہے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں سڑک کی دونوں طرف ساتھ بھاگتے دکھائی دیتے بے برگ شاخوں والے میل ہا میل تک پھیلے ہوئے جنگل اس موسم میں عجب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ سفر لمبا تھا اور جگہ جگہ ٹھہرنا ممکن نہ تھا مگر تیزی سے گزرتے ہوئے ان درختوں کا اپنا ایک حسن تھا۔ سردی اور جنگل کا شوقین یہ مسافر اس تیزی سے گزرتے ہوئے منظر نامے کو نیچے اُترے بغیر اپنے اندر سمونے کی کوشش تو کر رہا تھا مگر سچی بات ہے کہ بات بن نہیں پا رہی تھی۔ دل کرتا تھا کہ ادھر کوئی چھوٹا سا ہٹ ہو اور اس میں دو تین دن گزارے جائیں۔ ایڈمنٹن سے جیسپر کی طرف جاتے ہوئے درمیان میں تقریباً ساٹھ ستر کلو میٹر کا ایک ٹکڑا بھی آیا جس میں نہ تو فون کے سگنل آ رہے تھے اور نہ ہی انٹرنیٹ کام کر رہا تھا مگر مسافر اس نظارے میں ایسا گم تھا کہ اسے سگنل گم ہونے کی خبر طاہر علوی نے دی وگرنہ فون پر سگنل چیک کرنے کا کس کے پاس فالتو وقت تھا۔
جیسپر ایک چھوٹا لیکن انتہائی خوبصورت شہر ہے۔ سردی کی وجہ سے سیاحوں سے خالی تھا۔ سڑکیں گاڑیوں سے اور دکانیں خریداروں سے قریب قریب خالی تھیں۔ ہم نے ایک سوونیئر شاپ سے ایک دو چھوٹی چھوٹی یادگاری چیزیں خریدیں اور آگے روانہ ہو گئے۔ جیسپر سے کیلگری چار سو کلو میٹر کا سفر باقی تھا اور ہماری کوشش تھی کہ ہم سورج غروب ہونے سے پہلے کیلگری پہنچ جائیں۔ جولائی 2004ء میں لگنے والی جنگل کی آگ کی باقیات جلے ہوئے درختوں کے سیاہ تنوں کی صورت میں سڑک کی دونوں طرف میل ہا میل تک ہمارے ساتھ تھیں۔ یہ سارا سفر راکی ماؤنٹینز کے درمیان تھا۔ اونچائی میں پاکستانی پہاڑوں سے کہیں کم لیکن برف سے ڈھکے ہوئے زیادہ تر پہاڑ ایسے عمودی اور چوٹیاں ایسی نوکدار تھیں کہ ناقابلِ رسائی دکھائی دیتی تھیں۔ بعض چوٹیاں تو ''پاسوکونز‘‘ کی مانند تھیں لیکن وہ خوبصورتی‘ تسلسل اور اکثریت مفقود تھی۔ جیسپر سے بینف نیشنل پارک تک سڑک کی دائیں طرف تقریباً چھ سات جھیلیں ہیں لیکن سب کی سب جم کر برف کا میدان بن چکی تھیں۔ اس دوران بھی تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر کا ایسا ٹکڑا آیا جس میں فون اور انٹرنیٹ کے سگنل بالکل غائب ہو گئے تاہم اس راستے میں ہر بیس پچیس کلو میٹر کے بعد نہایت ہی صاف ستھرے ٹوائلٹ موجود تھے۔ ہمارے ہاں کسی کو ایسے علاقوں میں صاف ٹوائلٹس کی فکر ہو یا نہ ہو فون اور انٹرنیٹ کے سگنلز کی بڑی فکر لاحق ہوتی ہے۔جیسپر سے نکلتے ہی ایک جمی ہوئی ندی کے تنگ سے پل پر دس پندرہ بگ ہارن شیپ کا پورا خاندان چہل قدمی میں مصروف تھا۔ میں نے طاہر علوی کو گاڑی کی رفتار کم کرنے کا کہا اور فٹا فٹ فون نکال کر انکی وڈیو بنانا شروع کر دی۔ اس خاندان کا سربراہ (یہ میرا ذاتی خیال ہے) ایک بہت بڑے سینگوں والا نر تھا۔ سینگ ایسے بڑے کہ اگر یہ سر دیوار پر لگا ہوتا تو ان کی لمبائی اسے ٹرافی ہیڈ بنا دیتی مگر یہ جانور سڑک کے کنارے پہاڑوں سے نیچے اُتر کر سبزے سے پیٹ پوجا کر رہا تھا۔ بگ ہارن شیپ اس علاقے کا خاص جانور ہے اور اسکے شکار کا پرمٹ تمام جانوروں از قسم مُوس‘ ایلک اور کیرابو وغیرہ سے کافی مہنگا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسکے شکار کی فیس پانچ سے دس ہزار ڈالر ہے مگر یہ فیس صرف شکار کا بندوبست کرنیوالی پرائیویٹ کمپنیوں کی ہے جبکہ بگ ہارن شیپ کے شکار کیلئے گورنر ٹیگ لینا پڑتا ہے جو مزید ایک بہت مشکل مرحلہ ہے۔
پاکستان میں بھی اب شمالی علاقہ جات میں مارخور‘ آئی بیکس اور بلیو شیپ وغیرہ کے شکار کا پرمٹ بہت زیادہ قیمت پر دیا جاتا ہے جو اِن جانوروں کی بقا اور بڑھوتری میں بڑا معاون ثابت ہو رہا ہے لیکن یہ پرمٹ کی رقم میں مقامی کمیونٹی کو حصہ دار بنانے کے باعث ممکن ہو سکا ہے۔ وگرنہ پہلے مقامی لوگ ہی شکاریوں کو ناجائز شکار میں معاونت اور مدد فراہم کرتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ چند سال میں پاکستان میں مسلسل کم ہوتے ہوئے مارخور‘ آئی بیکس اور بلیو شیپ کی تعداد میں قابلِ ذکر بہتری آئی ہے۔ عوام کو مشکلات کے بجائے فوائد میں شامل کیے بغیر بہتری کسی طور بھی ممکن نہیں۔ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ اگر واقعتاً شفاف انداز میں ہو تو اسکے نتائج بہت اچھے نکل سکتے ہیں۔ اس ایک مثال کے باوجود ہماری سول و ملٹری بیوروکریسی عوام کو ریاستی فوائد میں حصہ دار بنانے کی سرے سے قائل ہی نہیں۔