صدر آصف علی زرداری کا دورۂ چین کئی حوالوں سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ صدرِ مملکت کے ساتھ وفاقی اور صوبائی قیادت موجود تھی۔ یہ خوش آئند ہے کہ صوبوں میں مسابقتی عمل جاری ہے۔ اس سے قبل دسمبر 2024ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے آٹھ روزہ دورۂ چین کے دوران چینی کمپنیوں اور پنجاب حکومت کے درمیان آئی ٹی‘ ماحولیات اور گرین انرجی جیسے اہم شعبوں میں 13 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدے طے پائے۔ صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ‘ شرجیل میمن اور دیگر صوبائی رہنما تھے جس کا مقصد چین کے ساتھ صوبائی سطح پر روابط قائم کرنا تھا۔ اس موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان توانائی‘ کوئلے اور سیمنٹ کے 300 ملین ڈالر کے معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط ہو ئے۔ پاکستان کی ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی اور چین کے چنگ گانگ کنسٹرکشن گروپ کے مابین ایم او یو پر دستخط کیے گئے‘ معاہدے کے تحت پاکستان میں سیمنٹ کی پیداوار میں 5000ٹن یومیہ اضافے کیلئے پروڈکشن لائن لگائی جائے گی۔ سندھ حکومت کے وفد نے چینی کمپنی نو رِنکو‘ بیبن ٹرکس‘ چائنہ نارتھ وہیکل کو‘ جنگسو ٹریڈ الیکٹرو میکینکل کے حکام سے ملاقاتیں کیں‘ کراچی سرکلر ریلوے‘ تھر کول انرجی‘ الیکٹرک بسوں‘ الیکٹرک ٹیکسیوں اور دیگر منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیوں کی جدید ٹیکنالوجی اور تجربے سے ہمارے ترقیاتی اقدامات میں تیزی آئے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں جو مضبوط سیاسی حمایت‘ اقتصادی تعاون اور مشترکہ ترقی پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر علاقائی امن‘ استحکام اور خوشحالی کے لیے کام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر اور مختلف شعبوں میں تعاون اس کی واضح مثال ہے۔ چینی دوستوں سے جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے احساس دلایا کہ چینی قیادت پاکستان کے لیے وہی پسند کرتی ہے جو ہمیں اپنے لیے پسند ہے۔ صدر زرداری کا چین میں پُرتپاک استقبال کیا گیا‘ بھرپور استقبال اور گرمجوشی سے ملاقاتوں سے پاک چائنہ تعلقات میں جمود کا تاثر زائل ہوا مگر چینی اپنے اہلکاروں پر مسلسل حملوں اور کاروباری سکیورٹی کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ اس لیے صدر زرداری سے ملاقات میں چینی باشدوں کی حفاظت سرفہرست مطالبہ تھا۔ چینی صدر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مشترکہ مستقبل قرار دیتے ہیں جس سے دونوں ممالک کے عوام کو مزید فوائد حاصل ہوں گے اور علاقائی امن‘ استحکام اور خوشحالی میں اضافہ ہو گا۔ صدر شی جن پنگ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک تزویراتی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور پاکستان کے لیے چین کی دوستانہ پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ چین پاکستان کی خودمختاری‘ آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ‘ دہشت گردی سے نمٹنے اور قومی حالات کے مطابق ترقی کی راہ پر چلنے میں ہمیشہ کی طرح مضبوطی سے حمایت کرے گا۔ چینی صدر چاہتے ہیں کہ ترقیاتی حکمت عملیوں کے گہرے تعلق اور حکمرانی کے تجربے کے تبادلے کو فروغ دے کر چین پاکستان تعلقات کی سیاسی بنیادوں کو مستحکم کیا جائے۔ چین پاکستان کا ان اولین ممالک میں سے ایک بننے کا خیرمقدم کرتا ہے جو چین کی جانب سے جامع طور پر اصلاحات کو وسعت دینے سے مستفید ہوں گے۔ چین مختلف شعبوں میں پاکستان کے ساتھ عملی تعاون کو گہرا کرنے‘ سی پیک کے تعاون کو اَپ گریڈ کرنے اور پاکستان کو اپنی ترقی کی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اس کی ترقی کی صلاحیت کو اجاگر کرنے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینی صدر نے امید ظاہر کی کہ پاکستان چینی اہلکاروں‘ منصوبوں اور اداروں کے لیے حفاظتی اقدامات کو مزید تیز کرے گا اور دوطرفہ اور کثیر جہتی انسداد دہشت گردی تعاون کو مضبوط کرے گا۔
اگلے سال چین اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ ہے‘ یہ موقع دونوں ممالک سے ثقافت‘ تعلیم اور میڈیا پر تبادلے اور تعاون کو گہرا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ چین پاکستان دوستی کو نسل در نسل منتقل کیا جا سکے۔ صدر زرداری سے ملاقات کے وقت صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چین عالمی اقدامات کے لیے پاکستان کی فعال حمایت اور متعلقہ تعاون میں شرکت کو سراہتا ہے اور پاکستان کے ساتھ مل کر پُرامن بقائے باہمی کے اہم اصولوں پر عمل کرنے‘ یکطرفہ اور تسلط پسندانہ طریقوں کی مزاحمت کرنے‘ کثیر جہتی ہم آہنگی کے مضبوط بنانے اور ترقی پذیر ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے تیار ہے۔
چین نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کی ہے اور اس دورے کے دوران بھی اس عزم کا اعادہ کیا گیا۔ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی ایک مشترکہ خطرہ ہے اور اس کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ مشترکہ اعلامیے میں افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں ممالک نے افغانستان کے معاملے پر قریبی رابطے اور ہم آہنگی برقرار رکھنے اور افغانستان کو مستحکم ترقی حاصل کرنے اور عالمی برادری میں ضم ہونے میں مدد دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا۔ دہشت گردی کی تمام صورتوں اور مظاہر میں زیرو ٹالرنس رویے کے ساتھ مقابلہ کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں مقیم تمام دہشت گرد گروپوں کو ختم کرنے اور ان کے خاتمے کے لیے واضح اور قابلِ تصدیق اقدامات کرے جو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے بدستور سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس دورے کے فوری اثرات یہ سامنے آئے ہیں کہ پاکستان نے چین سے سرحدی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی و آلات خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر زرداری کے دورے کے دوران معاہدوں کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ صدر زرداری کے دورۂ چین سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں‘ یہ دورہ علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے بھی اہم ثابت ہو گا۔
صدر زرداری کے دورے میں پاکستان کے قرضوں کو رول بیک کرنا دوسرا اہم پہلو رہا۔ یو ایس ایڈ کی بندش سے چین کے لیے بڑا موقع ہے کہ ''چائنہ ایڈ‘‘ کو وسعت دے کر پاکستان سمیت تیسری دنیا میں عوامی رابطوں اور حمایت میں آسانی سے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا کی کوئی مارکیٹ میڈ اِن چائنہ سے خالی نہیں مگر یہ سفر آسانی سے طے نہیں ہوا‘ اس کامیابی میں گزشتہ دو دہائیوں کی محنت شامل ہے‘ ٹیکنالوجی سمیت چین ہر میدان میں اپنی بالادستی منوا رہا ہے۔اے آئی ٹیکنالوجی کمپنی ڈیپ سیک کی مقبولیت چینی بالادستی کی جیتی جاگتی واضح مثال ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور انفراسٹرکچر کی ترقی میں مہارت اسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک پُرکشش شراکت دار بناتی ہے۔ مغربی ممالک کے مقابلے میں چین کے پاس ترقی پذیر ممالک کو قرضے اور امداد دینے کے لیے زیادہ وسائل موجود ہیں۔ چین ترقی کا ایک متبادل ماڈل پیش کرتا ہے جس میں کم سیاسی مداخلت اور زیادہ اقتصادی تعاون پر زور دیا جاتا ہے اس لیے چینی تعاون مغربی ممالک کے تعاون کا ایک اہم متبادل ہو سکتاہے۔اگر چین ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تعاون میں بھی کامیاب ہوتا ہے تو مغربی بالادستی کا سحر ٹوٹ جائے گا۔