"KDC" (space) message & send to 7575

اختر مینگل کی حکومت کیوں ٹوٹی؟

نومبر1998ء میں بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی صوبائی حکومت کے خاتمے میں پاکستان مسلم لیگ کی وفاقی حکومت کاعمل دخل تھا نہ وزیراعظم نواشریف کو اس پراظہارتاسف کرنا چاہیے۔ان کی حکومت اپنی جماعت، بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی) کے اندرونی اختلافات اوردھڑے بندی کی وجہ سے ختم ہوئی۔ میں بلوچستان کی انتخابی سیاست کے بعض اندرونی واقعات سے اس لیے واقف ہوں کہ میں اس صوبے کا الیکشن کمشنر تھا۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ انہیں مینگل حکومت گرائے جانے کا افسوس ہے،وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں،انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ دراصل اس کا پس منظر یہ ہے کہ نومبر1998ء میں سرداراختر مینگل صوبے کے وزیراعلیٰ تھے۔ پارٹی انتخابات کے دوران ان کی جماعت دو گروپوںمیں تقسیم ہو گئی۔ ایک گروپ کی قیادت مہم بلوچ کر رہے تھے جبکہ دوسرے کی سردار عطاء اللہ مینگل۔ بی این پی کے دس میں سے چھ ارکان صوبائی اسمبلی سردارثناء اللہ زہری، سردار اسرار اللہ زہری، عبدالغفور کلمتی، اسد بلوچ ، لیاقت بنگلزئی اور سردار محمد علی رند مہم بلوچ گروپ میں چلے گئے جب کہ وزیر اعلیٰ اختر مینگل کے ساتھ صرف تین ارکان رہ گئے،چوتھے رکن موسیٰ جان آف قلات غیر جانبدار ہو گئے،ان کے دونوں گروپوںکے ساتھ تعلقات برقرار رہے۔ نواب محمد اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی کے صوبائی اسمبلی میں دس ارکان تھے اوران کے سردار عطاء اللہ مینگل سے سیاسی اختلافات چلے آرہے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر ان کی شدید مخالفت کی۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی نے بھی سردار اختر مینگل حکومت کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا،اس طرح ان کی حکومت ختم ہو گئی اور پاکستان مسلم لیگ کے امیدوارجان محمد جمالی کووزیراعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔ میں یہ سب کچھ ریکارڈ کی درستگی کے لیے قارئین کے علم میں لارہا ہوں۔
وزیراعظم نواز شریف نے مذکورہ تقریب میں کہا کہ انہیں آج بھی اس بات کا افسوس ہے کہ ان کے سابق دورِ حکومت میں ان کی جماعت کے کچھ لوگوں کے بہکاوے میں آکر سردار اختر مینگل کی حکومت کا خاتمہ کرایا تھا۔اس اہم اعتراف کی روشنی میں قارئین کی دلچسپی اور وزیراعظم کی آگاہی کے لیے چشم کشا واقعات بیان کر رہا ہوں۔
1998ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سالانہ انتخاب کے دوران سردارعطاء اللہ مینگل اورمہم خان بلوچ کے درمیان عہدۂ صدارت کے لیے مقابلہ ہو رہا تھا۔جنرل کونسل کے ارکان اور بی این پی کے ورکنگ گروپوںکے ارکان کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی جس سے الیکشن متنازع ہو گئے۔ سردار عطاء اللہ مینگل اورمہم خان بلوچ دونوں نے اپنے صدر منتخب ہونے کا دعویٰ کر دیا۔اس طرح بی این پی دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی۔سردار عطاء اللہ مینگل گروپ کی پارلیمانی پوزیشن کمزورہوگئی اورجیسے بتایاگیا‘ صوبائی اسمبلی میں پارٹی کے دس میں سے چھ ارکان مہم خان بلوچ اورچار سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ رہ گئے۔ سرداراختر مینگل اس وقت اپنے اتحادیوں کی حمایت سے بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔بی این پی تقسیم ہوئی تو نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پختون خواملی پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مہم گروپ) نے میرجان محمد جمالی کو متفقہ طور پر بلوچستان کا وزیراعلیٰ منتخب کر لیا۔ اس دوران سردار عطاء اللہ مینگل نے ساتھ چھوڑنے والے ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63کے تحت ریفرنس سپیکر میر عبدالجبار کی وساطت سے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) عبدالقدیر چودھری کو بھجوا دیاجنہوں نے دونوں گروپوںکو نوٹس جاری کر دیے۔بی این پی کی جنرل کونسل کے تقریباً 100ارکان میں سے بیشترکونسلرز نے سردار عطاء اللہ مینگل کے خلاف عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے مہم خان بلوچ کوصدر منتخب کر لیا۔صوبائی اسمبلی میں مہم خان گروپ کے چھ ارکان نے لیاقت بنگلزئی کواپناپارلیمانی لیڈرجب کہ سردار عطاء اللہ مینگل گروپ کے چار ارکان نے اختر مینگل کو اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کر لیا۔اس صورت حال میں بی این پی کے دونوں گروپوں کے ایک دوسرے کے خلاف ریفرنسزمیں آئینی طور پر پلڑا مہم خان بلوچ کے حق میں جارہا تھا۔نواب اکبر بگٹی نے بھی کھلم کھلا سرداراختر مینگل کی مخالفت کی۔گورنر بلوچستان نواب اورنگزیب کا کوئی آئینی کردارنہیں تھا۔الیکشن کمیشن میں ریفرنس کی سماعت کے دوران سردارعطاء اللہ مینگل نے بلوچستان ہائی کورٹ میں مخالف پارٹی ارکان کے خلاف آئینی درخواست دائر کردی۔ چیف جسٹس امیر الملک مینگل نے فیصلہ سردار عطاء اللہ مینگل کی 
پارٹی کے حق میں دے دیا۔مہم خان بلوچ نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو چیف جسٹس آف پاکستان اجمل میاں نے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا۔ سردارعطاء اللہ مینگل نے الیکشن کمیشن میںریفرنس پر کارروائی رکوانے کے لیے دوبارہ بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست داخل کر دی اور بلوچستان ہائی کورٹ نے سردار عطاء اللہ مینگل کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس پر مہم خان بلوچ نے اس فیصلے کے خلاف دوبارہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ اس دوران سردار عطاء اللہ مینگل نے وزیراعظم نواز شریف سے قومی اسمبلی کے سپیکر الہٰی بخش سومرو کی وساطت سے ملاقات کی اورانہیں باور کرایاکہ جس طرح بی این پی کوخفیہ ہاتھوں کی مداخلت سے تقسیم کرایا گیااسی طرح پاکستان مسلم لیگ کو بھی تقسیم کرایا جاسکتا ہے۔ میاں نواز شریف نے ان کی منطق میں وزن محسوس کیالیکن بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور میر جان محمد جمالی کو کئی پارٹیوں کے ارکان کی حمایت حاصل ہوچکی تھی‘ اس لیے انہوں نے ان کے حق میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ ادھربلوچستان ہائی کورٹ سے سردار عطاء اللہ مینگل اپنا کیس جیت چکے تھے اوربلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر الملک مینگل کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیالیکن بعض ذاتی وجوہ کی بنا پر جسٹس امیر الملک مینگل نے سپریم کورٹ جانے سے معذرت کر لی اور مستعفی ہو گئے۔ ان کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری چیف جسٹس مقرر ہوگئے۔
بی این پی کے صدارتی انتخاب کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنرکوہدایت کی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 63کے مطابق آئینی راستہ خودمتعین کریں۔ چنانچہ چیف الیکشن کمشنرنے پارٹی الیکشن کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے ایک کمشن بناکرمجھے اس کا چیئرمین مقررکردیا۔مجھے اختیارات دیے گئے کہ میں بی این پی کے دونوں صدور، پارٹی کے کونسلرز، ورکنگ کمیٹی کے ارکان اور پارٹی کے تمام ارکان‘ جنہوں نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کیا تھا‘کے بیانات قلمبند کروں اوراپنی رپورٹ چیف الیکشن کمشنر کو پیش کروں۔سردار اختر مینگل، سردار عطاء اللہ مینگل اور مہم خان نے میرے تقررکوغیر جانبدار کمیشن قرار دیا۔میں نے سماعت شروع کی اورفریقین کے بیانات قلمبند کیے۔دونوں فریقوں نے تعاون کیا۔سردار اختر مینگل نے کمیشن کے سامنے کھڑے ہو کرتین گھنٹے تک اپنا موقف پیش کیا۔
کمشن آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کے تحت کارروائی کر رہا تھا کہ 12اکتوبر1999ء کو آئین معطل کر دیا گیا۔ 15اکتوبر 1999ء کو کمشن نے سماعت شروع کی توفریقین کے وکلاء نے تحریری بیانات میں کہا کہ آئین معطل ہو چکا ہے، قومی اور صوبائی اسمبلی اور سینٹ بھی معطل ہو گئی ہیں لہٰذا یہ کارروائی پارلیمنٹ کی بحالی تک ملتوی کر دیا جائے۔ اس پرمیں نے چیف الیکشن کمشنر سے مشاورت کے بعد اس اہم کیس کی کارروائی کو مؤخر کر دیا۔ بعدازاں جب سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ بنام فیڈریشن کے کیس میں 12اکتوبر1999ء کے اقدام کو آئینی تحفظ دے دیا توپارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں۔اس طرح سردار عطاء اللہ مینگل اور مہم بلوچ کے دونوں ریفرنسز بھی ختم ہو گئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں