"KDC" (space) message & send to 7575

انتہا پسندی ‘پاکستان کے لیے خطرہ

موجودہ دور میں پاکستان بے پناہ مشکلات کا شکار ہے، ادھر کوئی اسلامی ملک اس قابل نہیں کہ پاکستان کی اس طرح مدد کرسکے جس طرح دوسری جنگ عظیم میں اتحادی ایک دوسرے کے معاون ہوئے تھے۔ غیر اسلامی ملکوں نے پاکستان کی مدد کی تو اپنے مفادات کا ریلا لے آئے، جس سے پاکستان میں نظریاتی اور جغرافیائی خلل کا پیدا ہونا تو یقینی تھا۔ قوم بددل ہوتو اسے سنبھالا دیا اور متحرک کیا جاسکتا ہے،لیکن رہنما دل چھوڑ جائیں تو ان کو حوصلہ دینا مشکل ہوتا ہے۔ ہماری مسلم قیادت اجتماعی طور پر بزدل ہوچکی ہے اور خدا کی بجائے انسانوں سے ڈرنے لگی ہے اور اسی ڈر کی وجہ سے انہیں ہر طرف سے خطرہ دکھائی دیتا ہے۔
آئین کی تمہیدمیں ہے کہ پاکستان میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور برابری کی بنیاد پر معاشرتی، معاشی اور سیاسی انصاف ہو گا تاکہ مساوات پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ اس سلسلے میں بصداحترام پارلیمنٹ کے ارکان کی توجہ آئین کے ایک اہم حصے ، یعنی باب دوئم کے آرٹیکل 29سے 39کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں، جن میں حکمتِ عملی کے اصول درج ہیں اور جن کو بالعموم نظر انداز کیا جارہا ہے۔آئندہ کے انتخابی نظام کو درست سمت دینے کے لیے یہ مطالعہ ضروری ہے ۔
آئینِ پاکستان 1973ء ، آرٹیکل 29 حکمت عملی کے اصول:
ا۔اس باب میں وضع کردہ اصول حکمت عملی کے اصول کہلائیں گے اور مملکت کے ہر شعبے اور ہیئت مجاز کی اور مملکت کے کسی شعبہ کی طرف سے کارہائے منصبی انجام دینے والے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان اصولوں کے مطابق جہاں تک کہ وہ اس شعبہ یا ہیئت مجاز کے کارہائے منصبی سے تعلق رکھتے ہوں ،عمل کرے۔
ب۔جہاں تک حکمت عملی کے کسی مخصوص اصول پر عمل کرنے کا انحصار اس غرض کے لئے وسائل کے حاصل ہونے پر ہو تو وہ اصول ان وسائل کی دستیابی پر مشروط تصور کیا جائے گا۔
ج۔ہر سال کے بارے صدر وفاق کے امور کے متعلق اور ہر صوبہ کا گورنر اپنے صوبہ کے امور کے متعلق حکمتِ عملی کے اصولوں پر عمل کرنے اور ان کی تعمیل کرنے کیلئے ایک رپورٹ تیار کرائے گااور مذکورہ رپورٹ پر بحث کے لئے (مجلس شوریٰ) پارلیمنٹ ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اور (سینٹ) کے جیسی بھی صورت ہو قواعد ضابطہ کار میں گنجائش رکھی جائے گی۔
آرٹیکل 30۔ حکمت عملی کے اصولوں کی نسبت ذمہ داری:
ا۔یہ فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کہ آیا مملکت کے کسی شعبے یا ہیئت مجاز کا یا ملک کے کسی شعبے یا ہیئت مجاز کی طرف سے کام کرنے والے کسی شخص کا کوئی فعل حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق ہے ، مملکت کے متعلقہ شعبہ یا ہیئت مجاز کی یا متعلقہ شخص کی ہے۔
ب۔کسی فعل یا کسی قانون کے جواز پر اس وجہ سے اعتراض نہیں کیا جائے گا کہ وہ حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے اور نہ اس بناء پر مملکت کے کسی شعبہ یا ہیئت مجاز یا کسی شخص کے خلاف کوئی قانونی کارروائی قابل سماعت ہو گی۔
اگرچہ آرٹیکل 30کی شق ب میں واضح ہے کہ اس پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی قابل سماعت نہیں ہو گی لیکن اس گنجائش کی بناء پر آئین کے اس اہم حصہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان شقوں میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ان اصولوں پر عملدرآمد کرنے کی ذمہ داری ہر سرکاری عہدیدار پر ہے اور ہر شعبے کے سربراہ کافرض ہے کہ وہ دیکھے کہ حکمت عملی کے ان اصولوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ عدالت کو یہ اختیار دینے کے بجائے یہ اختیار انتظامیہ کو دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتظامیہ یہ فرض ادا کر رہی ہے؟ اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کا فرض ہے کہ وہ انتظامیہ سے جواب طلبی کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ آرٹیکل 29کی شق ج کے تحت صدر کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے اور اسی طرح منتخب صوبائی نمائندوں کو چاہیے کہ گورنر کی رپورٹ صوبائی اسمبلیوں میں پیش کی جائیں۔
اگرچہ اس باب کے ہر آرٹیکل میں حکمت عملی کے اہم اصول درج ہیں۔ میں خاص طور پر آرٹیکل 37اور 38کا متن ا س لئے درج کر رہا ہوں کہ اس پر آپ غور و فکر کریں۔
آرٹیکل 37۔ معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ۔ مملکت:
ا۔پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
ب۔کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی۔ مفت اور لازمی ثانوی تعلیم کے مواقع فراہم کرے گی۔
ج۔فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن حصول تک اور اعلیٰ تعلیم کی معیار کی بنیاد پر سب کے لئے مساوی طور پر قابل پہنچ و عمل بنائے گی۔
د۔سستے اور سہل انصاف کو یقینی بنائے گی۔
ہ۔منصفانہ اور نرم شرائط پر اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہیں لیا جائے گا جو ان کی عمر ، جنس کے لئے نامناسب ہوں۔
و۔مختلف علاقوں کے افراد کو تعلیم، تربیت، زری اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر قسم کی سرگرمیوں میں جن میں پاکستان میں ملازمت، خدمات بھی شامل ہیں پورا پورا حصہ لے سکیں۔
ز۔نظم و نسق کی مرکزیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عام آدمی کی سہولت اور مسائل کے حل کی خاطر ضروریات پوری کرنے کے لئے اس کام کے فوری تصفیہ میں آسانی پیدا ہو۔(یہ تمام ذمہ داری مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہے یعنی ان پر عمل کرانا انتظامیہ اور مقننہ کا فرض منصبی ہے)
آرٹیکل 32میں بلدیاتی اداروں کو فروغ دینے کا اصول لکھا ہے ، جس میں کسانوں ، مزدوروں اور خواتین کو نمائندگی دینا ضروری ہے۔ افسوس کہ آمریت کے زمانے میں تو بلدیاتی اداروں کو بحال کیا جاتا ہے اور نام نہاد جمہوری دور میں بلدیاتی اداروں کے انتخاب سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ عورتوں کی نمائندگی کو تو کچھ عرصے کے لیے شامل کیا گیا لیکن کسانوں اور مزدوروں کی نمائندگی کا خیال ابھی تک نہیں آیا۔ آرٹیکل 34خواتین کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں بھرپور شراکت پر زور دیتا ہے۔ آرٹیکل 35میںخاندان، ماں اور بچے کے تحفظ کا ذکرہے۔ آرٹیکل 36اقلیتوں کے حقوق اور ملازمت میں ان کے حصے کا ذکر کرتا ہے۔ آرٹیکل 39دفاعی اداروں میں پاکستان کے تمام حصوں کے لوگوں کی شراکت پر زور دیتا ہے۔ اس لیے یہ یقینی بنانا ہو گا کہ صوبوں کا حصہ فیڈرل سروسز میں، بشمول خودمختار اتھارٹیز کارپوریشن قائم کردہ، زیر کنٹرول وفاقی حکومت کے محفوظ کیا جائے اور ماضی میں جو کمی رہ گئی ہو اس کی تصحیح ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سرکاری محکمے حکمت عملی بناتے وقت ان اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہیں ؟کیا وہ خیال رکھتے ہیں کہ ان پر عملدرآمدان کی ذمہ داری ہے؟ کیا محکمے کے سربراہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے زیر اثر کام کرنے والے ان اصولوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں؟ کیا ہر محکمہ اپنی رپورٹ تیار کر رہا ہے جن کو یکجا کر کے صدر قومی اسمبلی میں اپنی رپورٹ پیش کرے اور ہر صوبے کا گورنر متعلقہ صوبائی اسمبلی میں اپنی رپورٹ پیش کرے؟
پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے آئین پاکستان 1973ء میں درج ریاست کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سہولیات خواب بن کر رہ گئی ہیں اور اسی آئین کی کچھ شقیں جو حکمت عملی کے اصولوں سے مزّین ہیں تاحال عملدرآمد کی منتظر ہیں۔ حکمت عملی کے ان رہنما اصولوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ''جوابدہی‘‘ کا احساس معدوم ہو چکا ہے۔ جبکہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جوابدہی کا فقدان افراد اور اداروں میں قانون سے مبرّا ہونے کی خوش فہمی کا باعث بنتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے گلی کوچوں میں قدم قدم پر بکھری غربت و افلاس کی تصویریں، خزاں رسیدہ پتوں کی طرح کانپتے ہاتھوں میں خون میں لت پت پیاروں کی لاشیں، بنیادی سہولیات کو ترستی عوامی نگاہیں، کتاب و قلم کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے والے مزدور بچے، بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج سوالیہ نشان ہیں کہ کیا ریاست کے ادارے یا کارہائے منصبی انجام دینے والے افراد قانون ، عوام یا ریاست سے مخلص ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں