"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ

پاکستان پر ایک ایسی جنگ مسلط کر دی گئی ہے جس کا اعلان کرنا نہ تو ضروری تھا اور نہ ہی ہوا ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اس دشمنی یا ان دشمنوں کے بارے آواز بھی نہیں اٹھا رہی جنہوں نے پاکستان کے خلاف جنگ کے اعلان کے بغیر پورے ملک کو میدانِ جنگ بنا رکھا ہے۔ اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے پاکستان کی قیادت کو غیر معمولی دانش مندی، بصیرت اور مصمم ارادوں کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اب مصلحتوں سے آزاد لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے علماء، سیاسی دانشوروں اور حکومت کی اعلیٰ قیادت کو دہشت گردی کے تناظر میں قادیانیوں کی سرگرمیوں پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔ کینیڈا، برطانیہ، افریقی ممالک اور یورپی ممالک میں قادیانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ عیسائیت پر یقین رکھنے والوں کو قادیانیت میں زیادہ مناسب اسلام نظر آتا ہے کہ قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اتنے ضرر رساں نہیں جب کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے کو بھی نہیں مانتے‘ جس سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا پورا ڈھانچہ گر جاتا ہے۔ اگر نبی اکرم ﷺ کو آخری نبی نہ سمجھا جائے تو قرآن آخری کتاب نہیں رہتی۔ قیامت اور آخرت کا تصور ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اللہ کے ایک ہونے کا یقین بھی مشکوک ہو جاتا ہے اور اس طرح اسلام کی موجودہ شکل یکسر بدل 
جاتی ہے۔ جو ایمان اور یقین کے عین مطابق نہیں ہو سکتی۔ اگر افریقی ممالک، یورپی ممالک اور کینیڈا میں قادیانیوں کے پھیلائے ہوئے مذہب کو اسلام کہا جاتا ہے تو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ کیسا اسلام پھیل رہا ہے اور یہی حال جنوبی افریقہ میں ہے۔ جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی تعداد برائے نام ہے جب کہ قادیانیوں کی تعداد ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کی عبادت گاہیں، مساجد سے مماثلث رکھتی ہیں جس سے اہل ایمان دھوکے میں آجاتے ہیں۔ قادیانیوں کے رہنمائوں نے نیلسن منڈیلا کو بھی قادیانیت کی طرف مائل کر لیا تھا لیکن بعدازاں ان کی کابینہ کے مسلمان وزیر نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔
ہمارے ملک میں مختلف مسالک اور افکار کے ماننے والوں نے اسلام کی اصل روح کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہر عبادت گذاریہی سمجھ کر عبادت کرتا ہے کہ اس کا مسلک ہی سچا دین ہے جب کہ باقی مسالک کا اسلام درست نہیں ہے۔ ہم نے اپنے اپنے عقائد بنا رکھے ہیں جس سے اسلام اور دین کی اصل شکل معدوم ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم میں سے کون رسول اکرمﷺ کے دین پر قائم ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ ہمارے ملک میں 
جو بھی اسلام ہے اس پر ہمارے اپنے اپنے عقائد نے اسلام کا اور دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے اسلام کو طالبان مانتے ہی نہیں ۔ ان کا اسلام کیا ہے اور ہمارا اسلام کیا ہے۔ کون سچا اور کون غلط ہے کا فیصلہ کون کرے گا اور وہ کیا طریقۂ عمل ہو کہ اسلام کی ایک شکل سامنے آئے جس پر تمام دنیا کے مسلمان بشمول طالبان متفق ہوں اور کاربند بھی کہ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی جو بدنامی ہو چکی ہے وہ ختم ہو اور اللہ کا دین اللہ کے حکم کے مطابق قائم ہو جائے۔ اس مقصد کے لئے مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک کو پاکستان کے علماء کرام کو مالی امداد سے روکنا ہو گا اور مالی فوائد حاصل کرنے کیلئے جو دینی مدارس قائم ہو چکے ہیں ان کو سرکاری تحویل میں لینا ہو گا اور پاکستان کے مقتدر حلقوں کو جو سیکرٹ فنڈز کی سہولت حاصل ہے‘ اس کا تدارک کرنا ہو گا۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے طالبان کے ساتھ معطل مذاکرات بحال کرنے بلکہ ان میں براہِ راست فوجی حکام کو بھی شریک کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنے مخصوص ذہن کے حامل میڈیا پرسنز کے دبائو میں آکر اس حقیقت کو بلا خوف نظر انداز کر دیا کہ افواج بیرونی دشمن سے جنگ کے لئے تشکیل دی جاتی ہیں‘ ان سے میز پر بیٹھ کر مذاکرات کے لیے نہیں ہوتیں۔ وزیراعظم نوازشریف سے قوم شاکی ہے کہ مملکت پاکستان کو انہوں نے مٹھی بھر انتہا پسندوں کے سامنے سرنگوںکروا دیا۔ حکومتِ پاکستان کے ایڈوائزر کے ایماء پر حکومتی مذاکراتی ٹیم اور طالبان کمیٹیوں نے 5مارچ کو اکوڑہ خٹک میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کر دئیے۔ وزیراعظم نوازشریف حکومتی ٹیم کی تجویز پر مذاکرات کے لئے نئی کمیٹی یا پھر موجودہ کمیٹی میں توسیع و ترمیم کر دیں گے۔ اس کے علاوہ وہ کمیٹی ہی کی نام نہاد سفارش پر نئی کمیٹی میں افواجِ پاکستان کے نمائندے یا رابطے کے سلسلہ میں انتظام کی ہدایات بھی دینا چاہتے تھے تاکہ آنے والے مذاکراتی عمل میں فوج براہِ راست امن کا معاہدہ کرنے میں شریک ہوجائے۔ طالبان کمیٹی نے بھی حکومتی کمیٹی کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ طالبان شوریٰ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات شروع ہونے کی صورت میں فوجی نمائندگی یقینی بنائی جائے کیونکہ دونوں کمیٹیوں نے اتفاق کیا ہے کہ چونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اصل فریق فوج ہے اس لئے ضروری ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں جانب مسئلے کے پُرامن حل کے لئے جن تجاویز پر بھی اتفاق ہو ان میں فوج کی رضامندی شامل ہو۔
پاکستان کے سنجیدہ حلقوں کی یہ سوچ ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی کچن کابینہ وزیرستان میں طالبان کا ڈھانچہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے فیصلہ کن فوجی کارروائی کا حکم دے کر اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے سے خوف زدہ ہے۔ حالات سے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی حکمتِ عملی یہی ہے کہ نیٹو افواج کے جانے کے بعد پاکستان، افغانستان کے علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن وقت حاصل کیا جائے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے‘ اس میں دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے حکمتِ عملی کی کمی نظر آتی ہے اور وہ طالبان سے بات چیت کے ذریعہ عارضی امن کی قلیل مدتی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومتِ پاکستان طالبان کے طاقتور جنگجو گروپس کے سامنے ذہنی طور پر سرنگوں ہو چکی ہے؛ تاہم جب تک مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا تب تک اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں