"KDC" (space) message & send to 7575

معاملہ فہمی

طالبان مذاکراتی ٹیم نے جنرل پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے پر وزیراعظم نوازشریف سے باز پرس کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ٹیم کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے پر وزیراعظم کا گریبان پکڑیں گے۔ پروفیسر ابراہیم نے چیف آف آرمی سٹاف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کو طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے برابر قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی طالبان کمیٹی سے ملاقات کر کے سمت کا تعین کریں۔ اگرچہ حکومتی اکابرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ سیاسی اور فوجی قیادت ایک ہی سوچ کی حامل ہے ، وزیراعظم کا بھی یہی کہنا ہے‘ مگر بادی النظر میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے ‘ مختلف ادارے میڈیا ٹرائل کی زد میں ہیں۔ ہر پروگرام، ہر کالم اور ہر گفتگو ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہی ہے۔ بعض اینکر پرسنز کے چہروں اور ہونٹوں پراس حوالے سے طنزیہ مسکراہٹ دیکھنے میں آتی ہے ۔ نائن الیون جیسے بڑے حادثے کے بعد بھی پینٹاگون، ایف بی آئی اور سی آئی اے کو اِن جیسی متوازی عدالتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں سیاست دانوں کے خاندان اپنی تمام تر دشمنیاں اور رقابتیں بھلا کر کسی ایک قوت کے خلاف متحد اور صف آراء ہو جاتے ہیں۔ افواجِ پاکستان مملکت پاکستان کا سب سے مضبوط‘ منظم اور مستحکم اِدارہ ہے۔ پاکستانی افواج کے سربراہوں کی اکثریت متوسط یا نچلے طبقوں سے نکل کر انتہائی سخت تربیتی مرحلے سے گزرنے اور سالہاسال بہترین خدمات انجام دینے کے بعد اس مقام پر پہنچی ہے۔ جب کہ جو لوگ 
سیاستدان کہلاتے ہیں اور جنہوں نے جمہوریت کی سربلندی کا پرچم اٹھا رکھا ہوتا ہے وہ دراصل حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی تربیت اس یقین کے ساتھ ہوتی ہے کہ حکومت کرنا ان کا فطری حق ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک ملکی اداروں کا کام سلیوٹ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کلچر بنیادی طور پر برطانیہ سے آیا ہے۔ جہاں کے لارڈز صدیوں سے پارلیمنٹ کے نام پر حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسلام اس کلچر کی نفی کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسلامی تاریخ میں زیادہ ادوار حکومت کی بالادستی کے تھے‘ لیکن ہم جب بھی اسلامی نظام حکومت کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف اور صرف خدا کی بالادستی اور خدا کے بنائے ہوئے قوانین کی فضیلت کا تصور ہوتا ہے اور مسلمانوں کی تاریخ تو ایسی ہے کہ اس میں ملوکیت کا پرچم بھی ہمیشہ شاہی خاندانوں کے ہاتھوں میں نہیں رہا‘ کبھی کبھی غلام خاندانوں کے پاس بھی جاتا رہا۔ یہ طرۂ امتیاز صرف ہماری جمہوریت کو حاصل ہے کہ اس میں اقتدار کا خاندانوں سے باہر جانا عوام دشمنی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ 
سیاسی اور عسکری قیادت کی اخلاقیات کے نتیجے میں ملک کے آئینی اور جمہوری نظام کی بساط لپیٹے جانے کے خدشات جنم لیتے ہیں‘ جب کہ بار بار کے تجربات سے واضح ہو چکا ہے کہ نہ مارشل لاء ملک کے مسائل کا حل ہے‘ نہ سیاسی قیادت کی جانب سے فوج کو دیوار سے لگانے کے اقدامات۔ اس لیے ریاست کے تمام اِداروں کا سب کی جانب سے احترام کیا جانا چاہیے۔ فی الحال ہمارا سیاسی طبقہ اتنا صاحبِ نظر نہیں ہوا کہ وہ طاقت کے اس کھیل میں دکھائی دینے والے سطحی اختیارات اور کھوکھلے جذبات سے ہٹ کر کوئی سنجیدہ نتیجہ نکالنے کا اہل ہو۔ اگر کشمکش کی وجہ‘ جنرل پرویز مشرف ٹرائل‘ پر نظر ڈالیں تو موجودہ حالات میں جب پاکستان مسائل میں گھرا ہوا ہے‘ تو ماضی کا حساب کتاب چکانے کے لیے مناسب وقت نہیں۔ اس کے باوجود حکمرانوں کے نادان دوستوں اور میڈیا کے ایک مخصوص حصے نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف پانچ سال سے میڈیا ٹرائل شروع کر رکھا ہے۔ وہ اس معاملے کو انجام تک پہنچانے پر تلے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہر کسی کے ساتھ الجھ رہے ہیں۔ اس وقت وزیراعظم کی کابینہ میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ وقت انتقامی کارروائی کا نہیں بلکہ آئین و قانون کی بالادستی کا ہے۔ یہ دعویٰ یقینا مناسب معلوم ہوتا‘ اگر کارروائی جنرل پرویز مشرف کے معاونین کے خلاف بھی ہوتی۔
عوام کو معلوم ہے کہ نوازشریف پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاء کے دور میں ابھرنے والے سیاست دان ہیں‘ لیکن اب اس حقیقت کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ پاکستان کا میڈیا اس بات سے بخوبی واقف ہے اورمرحوم ارشاد احمد حقانی تو مسلسل لکھتے رہے کہ جنرل ضیاء الحق کس کی پشت پناہی کر رہے تھے اور 1990ء کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے آئی ایس آئی کی وساطت سے رقوم کس نے تقسیم کی تھیں؟ اگر سابق چیف جسٹس آف پاکستان قوم کو صحیح سمت پر لے جانے کے لئے ایمانداری دکھاتے تو ملک کو 11مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایسی صاف ستھری قیادت مل جاتی جس سے پاکستان جنوبی ایشیا کے طاقتور جمہوری ممالک کی صف میں کھڑا ہو جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے کیس میں پسند نا پسند کی جھلک اور انتقام کی بو نے دفاعی اِداروں کو تیور دکھانے پر مجبور کیا ہے۔ حالانکہ پاکستان کی افواج کی خواہش تھی کہ ایسی نوبت کبھی نہ آئے۔ فوج حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف ہرگز نہیں بڑھنا چاہتی اور وہ جنرل پرویز مشرف کے مقدمات کی وجہ سے اپنی توجہ اہم امور سے ہٹانا نہیں چاہتی۔
موجودہ حالات میں یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ ایک مرتبہ جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کر کے باضابطہ طور پر فردِ جرم عائد کر لی جائے، پھر اعلیٰ سطح پر ہونے والے کسی معاہدے کے تحت انہیں دبئی جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ عدالت کی طرف سے ان کے ملک چھوڑنے پر کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یہ وزارتِ داخلہ پر منحصر تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف پر لگائی گئی پابندی ختم کرتی۔ اس کے لئے جیسا کہ کہا جاچکا تھا‘ جنرل پرویز مشرف کے وکلاء نے ایک درخواست دی تھی‘ لیکن وہاں سے صورتحال یک لخت تبدیل ہو گئی اور انہیں باہر جانے کی اجازت نہ ملی۔ لگتا یہ ہے کہ موجودہ تناظر میں جنرل پرویز مشرف کے مقدمہ کو آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی اس مقدمے کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئی تھیں‘ اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم بند گلی میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں اور انہوں نے سابق صدرزرداری سے ملاقات کر کے اداروں کے مابین خلیج پیدا کر دی ہے۔ بظاہر اس ملاقات کا مقصد وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کرنا تھا‘ لیکن اس کے نتیجہ میں صورتحال مزید مشکل ہو گئی ہے۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت ریاست کے دشمنوں کے ساتھ لچک دکھانے کی حدیں عبور کر رہی ہے جب کہ دوسری طرف اہم ترین قومی اداروں کے ساتھ معاملہ فہمی کی طرف قدم بڑھانے کیلئے تیار نہیں۔ اس وقت معاملہ آئین کی سربلندی کا نہیں‘ حکمرانوں کے مزاج کا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی 11مئی کو احتجاجی تحریک کے اعلان سے محاذ آرائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور ملکی مفاد کے بارے میں سوچنے کے لیے بھی وقت نکالیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں