"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی بحران

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے، لیکن اس کا سیاسی نظام بھی کمزوریوں اور خامیوں سے مبرا نہیں ؛البتہ اس کی جمہوریت کی جڑیںگہری ہیں۔ بھارت میں 1952ء سے اب تک باقاعدگی سے انتخابات ہو رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج قبول بھی کرتی ہیں۔ سیاستدانوں کا یہی طرزِ عمل بھارت میں جمہوریت کی مضبوطی اور اِداروں کے استحکام کا باعث ہے۔ ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ پاکستان میں 1951ء اور 1954ء میں جیسے کیسے انتخابات کرائے گئے، پھر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر1970ء میں عام انتخابات ہوئے۔ سیاستدانوں نے یہ نتائج تسلیم کرنے سے انکارکر دیا اور ملک تقسیم ہوگیا۔ 1973ء کے آئین کے تحت 7مارچ1977ء کوعام انتخابات ہوئے، ان کے نتائج بھی متنازع قرار پائے اور پاکستان قومی اتحاد(پی این اے )کی زوردار احتجاجی تحریک حالات کو 5جولائی 1977ء کے نہج پر لے آئی اورجنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگادیا۔ 1985ء کے بعد بھی حکومتیں بنائی اورگرائی جاتی رہیں اور 12اکتوبر1999ء کو اس وقت وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کانوٹیفکیشن جاری ہونے پرایک بار پھر مارشل لاء لگنے کا سانحہ پیش آیا۔ 10اکتوبر2002ء کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تقسیم کرکے سول حکومت بحال ہوئی اور 18فروری2008ء کے انتخابات پہلی باراندرونی اور بیرونی مداخلت سے مبرا رہے۔ لیکن بدقسمتی سے 11مئی 2013ء کے انتخابات نگران حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے متنازع ہو گئے۔
آج ملک کے نامساعد حالات سے عوام کوکسی بڑے خطرے کی مخصوص بُوآرہی ہے۔ وزیراعظم کی پراسرار خاموشی سے آئین اور قانون پر عمل ہوتے نظر نہیںآرہا۔ حکومتی ترجمان کے اشتعال انگیزانٹرویو سے ناقابل تلافی نقصان کاخدشہ ہے۔ حکومت کی بے حسی دیکھیے کہ اسلام آبادکی شاہراہوں پر جو پوسٹر لگائے گئے ،چارپانچ دن گزرنے کے بعد بھی حکومت انہیں اتارنے کی ہمت نہیں کر پائی۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریٹرننگ افسروں کا الیکشن میں فرائض کی ادائیگی کے دوران قانونی وآئینی کردار مشکوک قرار دیاگیا اوران کی پشت پناہی کرنے والی شخصیت کے بارے میں رازآہستہ آہستہ کھلتے جارہے ہیں۔ شنید ہے کہ 139حلقوں کے نتائج کاریکارڈ ریٹرننگ افسروں نے اِدھر اُدھرکردیا ،الیکشن کمیشن کے ہاں ان حلقوں کے بیلٹ پیپرزکا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔ پریزائڈنگ افسراپنے پولنگ سٹیشن کا انتخابی فارم XV پر مرتب کر کے اور پولنگ ایجنٹوں سے تصدیقی دستخط کروا کے متعلقہ ریٹرننگ افسرکو بھجواتا ہے اور ریٹرننگ افسراسی فارم کی مدد سے اپنے دائرہ کار میں آنے والے تمام پولنگ اسٹیشنوں کے حتمی رزلٹ فارمXVاور فارمXVIپرتیارکر کے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیتا ہے۔ انہی نتائج کی روشنی میں الیکشن کمیشن سرکاری طور پرکامیاب اُمیدوارکا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کے اندرونی حلقے انکشاف کر رہے ہیںکہ 139حلقوں کے بیلٹ پیپرزکا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔گویاایک سال گزرنے کے بعد بھی ریٹرننگ افسروں نے یہ تفصیلات الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائیں۔ان میں پنجاب کے 70، سندھ کے 32،خیبر پختونخواکے 9 اور بلوچستان کے 8 حلقے شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن نے بے رحمانہ جانچ پڑتال، آرٹیکل 63 پر پوری طرح عمل کرانے ، جرمنی سے بیلٹ کاغذ درآمدکرانے، بیلٹ پیپرزپر None for Aboveکے کالم کا اضافہ کرنے اور ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کرانے کے لئے انتظامات کرنے کااعلامیہ جاری کیاتھا اور سابق چیف الیکشن کمشنر نے متعلقہ فارمز بشمول فارم XVاور XVIویب سائٹ پر ڈالنے کا وعدہ بھی کیا تھالیکن ایسا نہ ہو سکا۔انتخابی اُمور پرگہری نظر رکھنے والی بین الاقوامی شہرت کی حامل سول سوسائٹی کے مطابق مذکورہ حلقوں میں محترم نوازشریف، میاں شہبازشریف، مولانا فضل الرحمن، سردارایاز صادق، جاوید ہاشمی، ڈاکٹر عارف علوی، زاہد حامد، خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، ڈاکٹر فاروق ستار، نبیل گبول، شیخ روحیل اصغر، کیپٹن صفدر سمیت دوسرے امیدوار کامیاب قرار پائے۔ فارم XIVمیں ہر پولنگ سٹیشن پراستعمال ہونے والے، ضائع شدہ اور بچ جانے والے بیلٹ پیپرزکی تفصیل ہوتی ہے۔مذکورہ 139حلقوں کے ریٹرننگ افسروں نے فارمXVکی تفصیلات الیکشن کمیشن کودانستہ طور پر نہ بھجواکر عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق82-77کی خلاف ورزی کی ہے۔ الیکشن کمیشن ان افسروں کے خلاف حقائق چھپانے کی شق کے تحت ایف آئی آردرج کرانے کا پابند ہے۔
جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنرتقررکے بارے میں پراسراریت کی ایک اورتہہ سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن کے ذریعے ایک معروف دانشور نے عیاںکر دی ہے۔ درخواست گزارکا کہنا ہے کہ دسمبر2011ء میں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم ، ن لیگ کی ایک اہم شخصیت کے ایما پرعدالت سے غیر حاضر رہے تاکہ وہ عدالتِ عظمیٰ میں سیاسی تقریر سے مخصوص مفادات حاصل کر سکیں ۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماکی بذاتِ خود پیروی پر اعتراض کیاتھا لیکن جسٹس افتخار چودھری نے انہیں دلائل کی اجازت دی اور موجودہ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے پارٹی لیڈرکی اعانت کی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ فخرالدین جی ابراہیم مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی وکیل ہیں اوروہ سپریم کورٹ کے روبروکئی مقدمات میں ان کی وکالت کرتے رہے۔اس کے علاوہ نواز شریف اور شہباز شریف کوملک میں داخلے کا حق بھی انہوں نے ہی دلوایاتھا۔ حقائق وشواہد سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بطور چیف الیکشن کمشنر ان کی تقرری اسی سیاسی جماعت کی کامیاب چال تھی۔ میمو کیس پاکستان کی سلامتی کے بارے میں ایک اہم مقدمہ تھاجس کی پیروی کے لئے وکیل(فخرالدین جی ابراہیم) اورمؤکل ایک بار کے سوا پھرکبھی حاضر نہ ہوئے۔ ایڈمرل مائیکل مولن کے نام حسین حقانی کا میمورنڈم خود نوازشریف نے عدالت کو پڑھ کر سنایاکیونکہ پہلی سماعت پر بھی وکیل حاضر نہیں تھے ۔
ہمارے سیاستدان انتخابی اصلاحات اور11مئی 2013ء کے انتخابات کے بارے میں جو تحریک چلا رہے ہیں وہ فخر الدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنرتقرری پر بھی اس تناظر میں غورکریں۔ دراصل پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات پر ہوم ورک اوراس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، وہ انتخابی نظام کی بہتری کے لئے این جی اوزکی عام فہم اصلاحی رپورٹس پرانحصارکررہی ہیں؛ حالانکہ ان کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن بھی انٹرنیشنل فائونڈیشن فارالیکٹورل سسٹم اور یواین ڈی پی کے پروجیکٹ منیجروں کی طرف سے تجویزکی گئی انتخابی اصلاحات پرانحصارکر رہا ہے جو غیر حقیقی ہیں اورانہیںقانونی شکل بھی نہیں دی جارہی ہے۔
الیکشن کمیشن کو انہی غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے یرغمال بناکر 11مئی 2013ء کے انتخابات میں اس کی صلاحیتوں کو سلب کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ذاتی طور پر چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، صدر زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وفاقی وزیر قانون اور چیئرمین سینٹ کو ان کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ ادھرتحریک انصاف پر نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ (NDI)کاگہرا اثر ہے،اس ادارے نے محترمہ بے نظیر بھٹو اورآصف علی زرداری کو بھی گمراہ کن تجاویز بھجوائی تھیں۔این ڈی آئی نے ان دنوں خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انتخابی عمل پر تنقیدی نظر رکھنے والی فافن تنظیم کی گزشتہ انتخابات کے حوالے سے رپورٹ حقیقت کے قریب تر ہے۔افسوس،الیکشن کمیشن کے حکام نے فافن کوپولنگ سٹیشنوں تک رسائی دینے میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں