"KDC" (space) message & send to 7575

استعفے غیر آئینی طورپر مسترد کیے گئے

عمران خان اوردیگر 30ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کے معاملہ میں قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق نے آئین کے آرٹیکل 64کو پس پشت ڈال کر نئی روایات کی داغ بیل ڈال دی ہے اور قومی اہمیت کا یہ معاملہ مصالحتی اور افہام و تفہیم کی سیاست کی نذر ہوتا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف کے استعفوں کے حقیقی ہونے میں شک ہے تو ان کو مسترد کیا جاسکتا ہے مگر سپیکر قومی اسمبلی ایسا قدم نہیں اُٹھائیں گے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 64کے تحت ان کو مسترد کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اس اہم قومی مسئلہ کو شروع سے ہی سنجیدہ نہیں لیا۔ تحریک انصاف کے ان استعفوں کی تصدیق آئین و قوانین کے مطابق بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی، لیکن اس کے برعکس یہ معاملہ مصلحت ، مصالحت اورپس پردہ شطرنج کے کھیل کی نذر کیا جارہا ہے ۔مولانا فضل الرحمن، بلاول زرداری، اسفند یار ولی خان، الطاف حسین اور دیگر بڑے بڑے لیڈروں کی جانب سے استعفے قبول نہ کیے جانے پر حیرانی کااظہار کیاگیا ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر آئین کے کس آرٹیکل کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان سے معاونت لینے کے خواہش مند ہیں۔ اس معاملہ سے الیکشن کمیشن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کو اس معاملہ میں سیاست نہیں کرنی چاہیے ۔
29اکتوبر کو پارلیمنٹ ہائوس میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے ساتھ عجیب واقعہ ہوا۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ عباسی کے چیمبر میں تحریک انصا ف کے ارکان قومی اسمبلی ،سپیکر قومی اسمبلی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے چار گھنٹے انتظار کرتے رہے۔ اس طرح یہ معاملہ قانونی سے زیادہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا ہے۔ اندرون خانہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے استعفے منظور نہ کرنے کے فیصلے کا عندیہ 22اکتوبر کو وزیراعظم نے پارلیمانی رہنمائوں سے ملاقات میں ہی دے دیا تھا۔ دراصل سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے آئینی اختیارات کی باگ ڈور وزیر اعظم کو سونپ کر خود کو متنازعہ بنا لیا ہے۔ استعفے منظور نہ کرنے کے حوالے سے حکمران جماعت کے سیاسی فیصلے کے کئی پہلو ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ 27حلقوں میں ضمنی انتخابات کا انعقاد یقینا غیر معمولی اقدام ہے جو حکومت کے لئے کافی سیاسی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ خاص طور پر پنجاب ضمنی انتخابات کی صورت میں سیاسی بے چینی کا مرکز بن جاتا اور حکومت مخالف نئی لہر پیدا ہو سکتی تھی۔ اگر عمران خان کے 30استعفے منظور ہوئے تو پھر، ممکن ہے، سندھ میں نئے صوبہ کے معاملہ پر ایم کیو ایم کے 24ارکان کے استعفے بھی تیار ہوتے ،جس سے سندھ بھی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا تھا۔
سپیکر قومی اسمبلی حالیہ پارلیمانی تاریخ کو نظر انداز کر کے انفرادی طور پر استعفوں کی تصدیق پر اصرار کرتے رہے ہیں، جس کا بادی النظر میں آئینی طور پر کوئی جواز نہیں بنتا۔ دراصل استعفے نامنظور کرنے کی روایت ملک معراج خالد (مرحوم) نے بطور سپیکر قومی اسمبلی 1989ء کے اوائل میں ڈالی تھی، جب انہوں نے عابدہ حسین کا استعفیٰ پھاڑ کر آئین کے آرٹیکل 64کی کھلم کھلا خلا ف ورزی کر کے قومی معاملات کو آئینی و قانونی کے بجائے سیاسی بنا دیا تھا۔ معراج خالد مرحوم کے اس غیر آئینی قدم پر مرحوم ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے ان کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرد ی تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم، پارٹی امور کی میٹنگ میں، ملک معراج خالد کی سخت سرزنش کی تھی۔ بدقسمتی سے سپیکر قومی اسمبلی کے آئینی ماہرین کی ٹیم ماضی کے اہم واقعات کے بارے میں انہیں بریفنگ دیتی نظر نہیں آ رہی ،حالانکہ 9اکتوبر 2007ء کو اپوزیشن کے 82ارکان کے استعفے اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین نے بیک جنبش قلم اجتماعی طور پر منظور کر لئے تھے۔ پارلیمانی تاریخ کی یہ نظیر تحریک انصاف کے اجتماعی استعفوں کی منظوری کے لئے کافی تھی۔قومی اسمبلی کے سیکرٹری اور ایڈوائزر قومی اسمبلی کرامت نیازی کو یہ نظیر سپیکر قومی اسمبلی کے حضور پیش کرنی چاہیے تھی۔ اسی طرح اپریل 1993ء میں پاکستان مسلم لیگ کے ناراض ارکان قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی ،جن کی مجموعی تعداد 85کے لگ بھگ تھی، بھی اجتماعی طور پر مستعفی ہو گئے تھے اور صدر غلام اسحاق خان نے ان کے استعفے منظوری کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کے بھجوا دئیے تھے اور اسی بنیاد پر صدر غلام اسحاق خان نے 18اپریل 1993ء کو قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تھا۔
موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی گزشتہ دو ماہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس سے مستعفی ہونے کی وجہ سے غیر حاضر ہیں، لہٰذا آئین کے آرٹیکل 64کی رو سے ان کی رکنیت خود بخود ختم ہو چکی ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 64میں یہ درج ہے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی 40دن تک مسلسل قومی اسمبلی سے غیر حاضر رہتا ہے تو اس کی رکنیت خود بخود ختم ہو جائے گی۔
قومی اسمبلی کے اپنے تیار کردہ رول 42کے اختیارات کے تحت قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق نے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے 25ارکان کے استعفے مسترد کر دیے ہیں۔ اسپیکر کے فیصلے کے تحت تحریک انصاف کے ارکان کی رکنیت باقاعدہ طور پر بحال ہو گئی ہے، جس کے بعد تحریک انصاف کے ارکان ،قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے مالی مراعات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ رول 42کے تحت سپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط کے ذریعے اپنی رولنگ سے آگاہ کر دیا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان نے اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کی ، اس لیے ان کی نشستیں خالی نہیں ہوئیں؛ چنانچہ سپیکر کے فیصلے سے تحریک انصاف کے 25ارکان کے استعفوں پر ابہام دور ہو گیا ہے۔ اب وہ قومی اسمبلی کی رکنیت برقرار رکھیں۔ بادی النظر میں سپیکر قومی اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 64کی صریح خلاف ورزی کی ہے اور قومی اسمبلی کے اپنے خود ساختہ رولز کا سہارا لیا ہے جس کی آئین کے آرٹیکل 64کی نظر میں کوئی وقعت نہیں۔عمران خا ن اب آزمائش کی گھڑی سے گزر رہے ہیں، لہٰذا ان کو چاہیے کہ سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اور آئین سے انحراف کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو استعفوں کے بارے میں بلا جواز خط لکھنے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کر دیں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو جس طرح پر اسرار طریقے سے مڈل ایسٹ کے بعض حلقوں کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف ڈیل کے بارے میں پراسرار مہم چلائی جارہی ہے ، اس کی لپیٹ میں عمران خان بھی آجائیں گے اور ان کے استعفے محض سیاسی کھیل سمجھے جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں