"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن میں رازداری پر نگاہ رکھیں!

متزلزل سیاسی صورتحال ، بدانتظامی اور پے درپے بحرانوں کی وجہ سے عوام کا موجودہ پارلیمنٹ سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔ لگتا ہے عوام کو مایوسی سے بچانے کیلئے تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے ۔ عوام حکومت کوناکام سمجھ رہے ہیں۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے متضاد بیانات سے قوم میں اضطراب پھیل رہاہے ۔ ملک کی سیاسی ،اقتصادی ،سکیورٹی اور طرز حکمرانی کی صورتحال سے صرف اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت کاطر ز حکومت درست نہیں۔ ہرجگہ رکاوٹیں ہیں اورتقریباً روزانہ کوئی نہ کوئی معاملہ ایساہوجاتاہے کہ پیشرفت میںمشکلات پیش آتی ہیں۔ ان حالات میں ایک مضبوط ، مقبول ، شفاف ، اہل ، ایماندار اورموثر وفاقی حکومت ہی مملکت پاکستان کے مفاد میں ہے۔ نواز حکومت کواحساس ہی نہیںکہ اس کی بعض پالیسیوں سے زبردست تصادم ہونے کا اندیشہ ہے ۔ وزیراعظم نوازشریف عوام کے دکھ ،اضطراب اور بجلی، گیس اورپانی کے بحران کے حل نکالنے میںزیادہ وقت گزارتے ہیںیا پھربیرونی ممالک کے نجی دورے پرجانے کو ترجیح دیتے ہیں۔انہیں اندرونی طورپر مضبوط اپوزیشن کابھی خوف نہیں رہا ۔اس وقت لگتا ہے کہ برائے نام پارلیمنٹ کے ساتھ سیاسی نظام منہدم ہوچکاہے۔ تحریک انصاف سمیت چند جماعتیں احتجاجی تحریک کی بیکار جنگ لڑ رہی ہیں ۔ قومی مسائل کے حل کے لیے سیاسی کانفرنسز منعقد ہورہی ہیں ۔ بعض حلقوں میں یہ تصور راسخ ہوتا جارہا ہے کہ وزیراعظم اقتدارکے لالچی، بے حس سیاستدانوں پرمشتمل حکومت کے سربراہ ہیں، جو یہ سمجھتے ہیںکہ منتخب ہونے کے بعد عوام کی جانب سے ان پرکسی قسم کی ذمہ داری نہیں ہے ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ خاندانی کیبنٹ کے زیر اثر ہیں۔
ریاستی ادارے آئینی طورپر خود مختارتصور کیے جاتے ہیںلیکن ان کی سربراہی بعض خاندانی افراد یاپھر ان کے وفاداروں کے سپرد کرکے ان اداروں کو معذور بنادیا گیا ہے۔ یہ بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کی حیثیت وفاقی وزیرخزانہ کے سٹاف آفیسر کی سی ہے اور ان کے فیصلوں سے پیشترہی وفاقی وزیر خزانہ اینکر پرسن کی حیثیت سے سرکاری چینل پراعلان در اعلان کرتے رہتے ہیں اور گورنر سٹیٹ بینک غالباً اپنے شاہانہ کمرے میں ان کے فرمودات ٹیلی ویژن چینلز پردیکھ کر پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ سفارت کاروں ،سیاستدانوں اورحکمت عملی بنانے والوں کی ٹیم نااہل لوگوں پر مشتمل محسوس ہوتی ہے اور ملک کی پالیسی انہی کے ہاتھوں میں ہے، اسی لیے 26جنوری کو بھارتی جمہوریہ کی تقریب میں امریکی صدر کی شمولیت سے پاکستان کے مقتدر حلقوں کو زلزلے جیسی کیفیت سے گزرنا پڑا اور عوام کو خوف محسوس ہونے لگا کہ بھارت معاشی اورجمہوری لحاظ سے مضبوط تر ہوتا جارہاہے ، ایسا نہ ہوکہ بھارت چین کی پالیسی اپنا تے ہوئے ہانگ کانگ کی طرز پر پنجاب کو بھارت میں شامل کرنے کی راہ پر چل پڑے۔ 
اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو بھارتی جارحیت کومعاشی اور جمہوری طاقت کے ذریعے روک سکے۔ پاکستان کو ایک متحد، مضبوط اور مسائل پرتوجہ دینے والی قیادت کی ضرورت ہے جو درپیش تمام ملکی اور بین الاقوامی مسائل سے نبرد آزما ہوسکے ۔ میرے خیال میں پاکستان کی عسکری قیادت کو آگے بڑھنا چاہیے اور پاکستان کے صف اول کے سیاستدانوں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان ،غیرجانبدار ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور سواد اعظم کے نمائندہ علماء کرام کی مشترکہ کانفرنس کاانعقاد کرکے آئین کے اندر،یاباہر رہ کر ریاست کی حفاظت کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو اپنے فرائض کی انجام دہی میں تساہل کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ کوئی بھی ایک سیاسی شخصیت یا سیاسی جماعت یا پھر ادارہ اب اس ملک کوگہری خندق سے نہیں نکال سکتا۔ کمزور ملک ٹوٹ جاتے ہیں یا خانہ جنگی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ شاید (خدا نہ کرے )ہم بھی ویسے ہی ملکوں کی فہرست میں آنے والے ہیں۔یہ بھی نظر آرہا ہے کہ عسکری قیادت حکومت کی بساط نہیں الٹے گی کیونکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہے اور ان کی رہنمائی کے لیے ساڑھے پانچ وزیرخارجہ ہیں اورخارجہ پالیسی کنفیوزڈ لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہوچکی ہے۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخاب کرانے کے سلسلے میںسنجیدہ نہیںہیں۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود حلقہ بندیوں کے لیے آئین کے آرٹیکل 224 میں ترمیم کرنے کے لیے قانون سازی نہیںکی گئی۔ الیکشن کمیشن نے سینیٹر اسحاق ڈار چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیٹی کے روبرو بھی حلقہ بندیوں کے لیے قانونی جواز فراہم کرنے کی خاطر آئین کے آرٹیکل 224 میںترمیم کی استدعا کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں سے پیشتر مردم شماری کرانے کی طرف انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین کی توجہ مبذول کرائی تھی کیونکہ 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں کرانا نامناسب اور غیرقانونی تصور کیاجاسکتا ہے ۔ ابھی تک سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل140-A کے مطابق قانون سازی نہیں کی اور لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ ضرب عضب کے تحت آپریشن کے دوران لوکل انتخابات موخر ہی رہیں گے ۔مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے لئے صوبائی حکومتیں قانون سازی کی آڑمیں تاخیر ی حربے برت رہی ہیں۔
تین مارچ کو سینیٹ الیکشن کے سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں نے امیدواروں سے درخواستیں وصول کرنا شروع کردی ہیں ۔ ان انتخابات میں فاٹا، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ کااندیشہ ہے جس کی روک تھام کے لئے الیکشن کمیشن کو غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے،کیونکہ ماضی میں بعض ارکان اسمبلی کی طرف سے یہ حرکت سامنے آتی رہی ہے ،کہ مخصوص امیدوار کوووٹ ڈالتے وقت اشارہ کرتے اورووٹ کاسٹ کرنے کے دوران موبائل فون سے ووٹر کی تصویر بناتے رہے۔ ضروری ہے کہ متعلقہ ریٹرننگ افسران سینیٹ الیکشن ایکٹ 74 کی روشنی میں رازداری برقرار رکھنے کیلئے مثالی اقدامات کریں اور ایسی کرپٹ پریکٹس میں ملوث ارکان کا ووٹ فوری طورپر مسترد کرکے آئین وقانون سے انحراف کرنے پر متعلقہ رکن اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کریں کہ ان اختیارات سے ریٹرننگ افسران پوری طرح لیس ہیں۔ صرف قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ 
اسی طرح چونکہ صوبہ بلوچستان میں کوٹہ باقی صوبوں سے کم ہے اور 9ارکان اسمبلی کی حمایت سے 6سال کیلئے سینیٹ کارکن منتخب ہوسکتاہے لہٰذا دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے مافیا گروپ صوبہ بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے میں اپنا ووٹ بنوا کر بلوچستان کے عوامی حقوق پر انتخابی دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ مارچ 1997ء میں کراچی کے بعض سرمایہ داروں نے بلوچستان سے سینیٹ کاانتخاب لڑنے کی مذموم حرکت کی تھی۔اس وقت بلوچستان کا کوٹہ صرف چار ارکان کا ہی مقرر ہواتھا ۔ بلوچستان کے ارکان اسمبلی نے ان بزنس ٹائی کونوں سے فی ووٹ 25لاکھ روپے کے حساب سے وصول بھی کیے لیکن بیلٹ پیپر پر دانستہ غلط نشان بھی لگادیے ۔اس طرح ان کے ووٹ مسترد کردیئے گئے۔ ارکان اسمبلی نے کراچی سے درآمد شدہ شخصیات کو مسترد کردیااور اپنے انتخابی اخراجات بھی پورے کرلیے۔ نواب اکبربگٹی (مرحوم) یہ سارا منظر سپیکر صوبائی اسمبلی مہر عبدالجبار کے چیمبر سے دیکھ رہے تھے ۔ بطور ریٹرننگ افسرمیںنے اس گروپ کے چاروں ووٹوں کو مسترد کردیا تھا اور ان کے ووٹ مسترد ہونے پر سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار کے مطابق ان کے تمام ووٹ میر ظفر اللہ جمالی کے اکائونٹ میں خود بخود چلے گئے ۔میرظفر اللہ جمالی دل برداشتہ ہوکر گھر چلے گئے تھے کیونکہ ان کو صرف دو ہی ووٹ ملے تھے،مگرمسترد شدہ ووٹ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر میر ظفر اللہ جمالی کو حاصل ہوگئے تو میں نے ان کی کامیابی کا اعلان کیا اورجگا کر مبارک باد دی ۔ میر ظفر اللہ جمالی نے اسے خدا کا کرشمہ قرار دیتے ہوئے شکرانے کے نوافل ادا کیے ۔اس سارے معاملے کاڈراپ سین یہ ہے کہ جب میں نے نواب اکبر بگٹی مرحوم کوبتایا تو انہوںنے حیران کن انکشاف کرتے ہوئے کہاکہ وہ کراچی کے درآمد شدہ ٹائی کون سے واقف تھے اور انہی کے ایما پر مطلوبہ چار ارکان اسمبلی نے بیلٹ پیپر پر غلط نشان لگا کر اپنے ووٹ مسترد کرائے تھے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں