"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ

5 مارچ کو پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کرانے اور ان کی جانچ پڑتال کے مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ سول سوسائٹی کے ادارے ، میڈیا، سیاسی رہنما بشمول عمران خان الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت نہیں ہونی چاہیے اور آئین کی روح کو مسخ کرنے کا یہ سلسلہ روکنا چاہیے۔ آئین کے تحت صوبوں کے لئے ایوانِ زیریں میں نشستیں آبادی کی بنیاد پر مختص کی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی میں پنجاب کی نشستیںآبادی کے تناسب سے دوسرے صوبوں سے زیادہ اور بلوچستان کی سب سے کم ہیں؛ تاہم ایوانِ بالایعنی سینیٹ میں تمام صوبوں کو یکساں نمائند گی دی گئی ہے اور یہ کریڈٹ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی آئین ساز اسمبلی کے ارکان کو جاتا ہے‘ جنہوں نے ایوانِ بالا کی تشکیل کر کے فیڈریشن کو مضبوط کرنے کی طرف اہم قدم اٹھایا جبکہ 1956ء کے آئین میں ایوانِ بالا کا تصور نہیں تھا ۔
آج سینیٹ میں پنجاب ،سندھ ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی 23،23نشستیں ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت کے لئے چار اور فاٹا کے لئے آٹھ نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ نئے سینیٹرز کی آئینی مدت چھ سال ہو گی۔بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے ایک، ایک اقلیتی ممبر کا انتخاب بھی ہوگا ۔اقلیتی نشستوںپر 2012 ء میں سندھ اور پنجاب سے منتخب ہونے والے ارکان کے تین سال ابھی باقی ہیں۔ بلوچستان سے جنرل نشست کے لئے 9 ووٹوں کی ضرورت ہو گی جبکہ پنجاب میں کل سیٹوں کو سات پر تقسیم کر لیں تو جو کوٹہ آتا ہے وہ تعداد ایک نشست کے لئے درکار ہوگی۔ یہی فارمولا سندھ اور خیبر پختون خوا میں لاگو ہوگا۔ ٹیکنوکریٹس اور خواتین کی نشستوں کے لیے ہر صوبے کی اسمبلی سے جیت کے لئے کل نشستوں کے نصف ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی مومنٹ نے ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ جاری کئے ہیں جن کا اس صوبے سے تعلق نہیں ہے۔ ان کا یہ اقدام آئین کی رو ح کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اور سابق صدر زرداری کو سندھ میں اہل لوگ نظر نہیں آتے کہ وہ دوسرے صوبوںسے امیدوار درآمد کررہے ہیں؟ اگر استدلال یہ ہے کہ سب پاکستانی ہیں تو ایوان بالا کی ضرورت ہی کیا ہے؟ قومی اسمبلی میں بھی سب پاکستانی بیٹھے ہیں۔ عمران خان نے صوبہ خیبر پختون خوا میں صوبے کے لوگوں کو سینیٹ کا ٹکٹ دے کر آئین کے آرٹیکل 59 کے مطابق قدم اٹھایا! اگر وزیر اعظم نواز شریف اپنے پسندیدہ اور وفادار لوگوں کو نوازنا ہی چاہتے ہیں تو ان کو اپنا مشیر مقرر کر سکتے ہیں۔ بہرحال‘ وزیر اعظم نواز شریف کے اس قدم سے ان کی اصول پرستی ظاہر ہو گئی ہے۔
پارلیمنٹ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدر پر مشتمل ہے۔ پارلیمنٹ کو قوم کی مجموعی دانش کا ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں صاف ستھرے کردار کے حامل افراد ہی جانے چاہئیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے جیتنے کی پوزیشن رکھنے والے امیدوار کو ٹکٹ دینا ہمارے ہاں پارٹی سربراہوں کے شاہانہ مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63-62کو عملی طور پر مفلوج کر دیا گیا ہے‘ اسی لئے قومی اور صوبائی اسمبلی میں جعلی ڈگری ہولڈرز، ٹیکس نادہندگان حتیٰ کہ قتل اور ڈکیتی کے ملزم بھی منتخب ہو جاتے ہیں۔ اگر پارٹی کے سربراہان کی نیت میں فتور نہ ہو تو سینیٹ میں بھی محب وطن اور اچھے کردار کے لوگ آ سکتے ہیں۔ راقم الحروف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے ذریعے پری پول دھاندلی کے بارے میں نشاندہی کرتا رہا ہے۔ فاٹا کے بعض ارکان اسمبلی سینیٹ کے امیدواروں سے لاکھوں ڈالر کے عوض ملائشیا اور دبئی میں معاہدے کرتے رہے ہیں اور ان کی قیمت فی ووٹ پچاس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے کیونکہ فاٹا کے کوٹہ سے سینیٹر بننے کے لیے تین ارکان کی حمایت درکار ہے۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختون خوا میں چونکہ 17 ارکان صوبائی اسمبلی کی حمایت سے سینیٹر بننا آسان ہے لہٰذا یہاں پر فی ووٹ تقریباً سات اور آٹھ کروڑ دینا پڑتے ہیں۔ گویا آدھی سے زیادہ سیٹیں برائے فروخت ہیں۔ جب ایک آدمی دس سے بیس کروڑ دے کر سینیٹ کا رکن بنتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ قومی مفادات کو اہمیت نہیں دے گا اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ہاتھ برائے فروخت بنا رہے گا۔ اسی تناظر میں بعض سیاسی رہنمائوں نے ارب پتیوں کو سینیٹر کی نامزدگی کے لئے منتخب کیا ہے۔
تائید کنندہ نہ ملنے پر کئی آزاد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ۔ان کا برملا کہنا ہے کہ وہ جس بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر کے پاس کاغذات نامزدگی کی تصدیق اور تا ئیدکے لیے گئے ، اس نے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح کا شرمناک منظر 1985 ء میں بھی دیکھنے میں آیا تھا جب سابق صدر ضیاء الحق نے پہلی مرتبہ خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے کوٹہ مقرر کیا تو صوبائی اور قومی اسمبلی کے بعض ارکان نے تصدیق و تا ئیدکے لیے ان خواتین سے بھاری قیمت وصول کی تھی۔ ان خواتین نے سابق صدر سے تحریری طور پر شکایت کی تھی اور ان ارکان اسمبلی کی نشاندہی بھی کی تھی۔ضیاء الحق کے ایما پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت نے سیکرٹری الیکشن کمیشن مسٹر ایم ایم کاظم کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بھی مقرر کر دی تھی اور جب ان ارکان اسمبلی کو نوٹس جاری کیے گئے تو خواتین نے مصلحت کے پیش نظر گواہی دینے سے معذرت کر لی۔
سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کے ٹکٹ دیتے ہوئے کارکردگی اورکردار سے زیادہ فرمانبرداری کو میرٹ بنالیا ہے۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نامزد امیدوار نوے لاکھ کا نا دہندہ نکلا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک ایسی خاتون کو سندھ سے ٹکٹ جاری کیا جو امریکہ جانے کے لیے جعلی کاغذات بنانے میں ملوث رہی ہیں اور انہیں گزشتہ سال دبئی سے ڈی پورٹ بھی کیا گیا تھا، کیونکہ سفری دستاویزات پر ایف آئی اے کی مہریں جعلی تھیں۔ان کا امریکہ کا گرین کارڈ منسوخ ہو چکا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 226کے تحت سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کے تحت ہوتے ہیں۔ اوپن بیلٹ کے لیے راقم الحروف نے ترمیم کی تجویز 11 مارچ 2009 ء کو اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پیش کی تھی۔ اس حوالے سے معاملہ متعلقہ پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث بھی آیا تھا۔ اس وقت چھوٹی سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی لیکن سینیٹ میں لیڈر آف دی ہائوس رضا ربانی اور ڈاکٹر بابر اعوان نے اس کی حمایت کی تھی‘ مگر قانون سازی نہیں ہو سکی ۔میری تجویز اٹھارویں ترمیم کے دوران بھی زیر بحث رہی لیکن پارٹی رہنمائوں نے اپنے سیاسی مفادات کی روشنی میں اسے مسترد کر دیا۔ موجودہ حالات میں اوپن ووٹنگ کی اشد ضرورت ہے۔ اصولی طور پر کسی پارٹی کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ مطلوبہ ترمیم‘ اکیسویں ترمیم کی طرح سینیٹ الیکشن سے قبل
مختصر عرصے میں ہو سکتی ہے اور الیکشن شیڈول میں تبدیلی کر کے8مارچ کو انتخابات ہو سکتے ہیں۔
ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے بیلٹ پیپر پر ووٹر کا نام دینے کی تجویز کے ساتھ ساتھ ریٹرننگ افسر متعلقہ ووٹر کی جانب سے بیلٹ پیپر پر ترجیحی ناموں کا اعلان بھی پڑھ کر سنا سکتا ہے ۔یہ تجویز آسان ترین ہے ۔اس کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 59 اور 63-A اور آرٹیکل 226 میں بھی ترمیم کرنا ہو گی۔ سینیٹ میں پارٹی کی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے کے جرم پر کوئی رکن اپنی رکنیت سے محروم ہو سکتا ہے۔ آرٹیکل 63-Aمیں مجوزہ ترمیم کے ذریعے سینیٹ الیکشن میں منحرف رکن کو اپنی نشست سے محروم کرنے کا طریقہ وضع کرنا ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کے اختیارات بھی محدود کرنے ہوںگے جو اپنے صوابدیدی اختیارات پارٹی کے تابع کرتے ہوئے ملکی مفادات کو نظر انداز دیتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے ارکان کو بھی ریاست کا مفاد مد نظر رکھنا ہو گا۔سینیٹ انتخابات میں بیلٹ پیپر خفیہ رکھنے کی شق حذف کر کے بیلٹ پیپر پر ووٹ ڈالنے والے کا نام درج کیا جا سکتا ہے۔ رائے شماری کے بعد پتہ چل جائے گا کہ ووٹر نے کس امیدوار کو ووٹ دیا۔
اس تجویز میں شفافیت نظر آتی ہے لیکن اس طریقہ کار کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس طرح ارکان اسمبلی کی آزادی سلب ہو جائے گی اور پارٹی سربراہ کا فیصلہ من و عن تسلیم کرنا پڑے گا جو آئین کے آرٹیکل 17 اور 25 سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم میں یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ سینیٹ کے لیے جن امیدواروں کو ٹکٹ دیے جائیں ان کی منظوری متعلقہ پارٹی کے تمام ارکان سے حاصل کی جائے تاکہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کی جمہوری آمریت پر قدغن لگائی جا سکے۔ میری نظر میں جو ترامیم کی جا رہی ہیں‘ ان سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہے اور انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں